وکٹ کی زبان گر پڑی ہے!


میلہ اپنے عروج پر تھا۔ فیقے پہلوان نے کبڈی کا ٹائٹل اپنے نام کیا تو ہر طرف سے واہ واہ کی آوازیں آنے لگیں۔ یہ دیکھ کر ہاشو پہلوان کے دل میں خواہش جاگی کہ اس پہلوان کو چت کر کے رستم زماں کا ٹائٹل جیتا جا سکتا ہے۔ بس خیال کا آنا تھا کہ اس نے بھرے میلے میں فیقے کو چیلنج کر دیا۔ اکھاڑے میں آیا تو پسینے کی ندیاں بہہ نکلیں۔ فوراً ایک بہانہ سوجھا اور نیپی تبدیل کرنے کے بہانے اکھاڑے سے اتر گیا۔ پھر کیا ہونا تھا پورا دن گزر گیا لیکن ہاشو اکھاڑے میں نہ آیا۔ لوگوں نے آوازیں لگائیں کہ ہمت ہے تو چیلنج کیوں کیا تھا؟ اب میدان میں آؤ۔ اور کتنی دیر لگے گی نیپی بدلنے میں؟ ہاشو نے پردے کے پیچھے سے آواز لگائی : میری نیپی ہے، میں بھلے پہلی اتار کر دوسری پہننا ہی ملتوی کر دوں اور وہ بھی کئی ہفتوں تک، یہ میری نیپی ہے اور میرا اختیار۔ تمہیں کیا؟

قوم کی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے کہا ہے کہ میں اجلاس بلا کر اسے غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی بھی کر سکتا ہوں۔ واہ کیا نقطہ آفرینی کی ہے۔ ایسا خیال تو شاید شریف الدین پیرزادہ کو بھی نہ سوجھا ہو گا۔ شیخ سعدی نے کہا تھا کہ انسان جب مایوس ہو جاتا ہے تو اس کی زبان بے لگام ہو جاتی ہے کیونکہ اس کی بے بسی اور دل کی بھڑاس گالیوں کی صورت نکلنے لگتی ہے۔

لگتا ہے کہ اب کانپیں ٹانگنے کا وقت گزر چلا، اب تو میرے لیڈر کا پھوٹا پسین رہا ہے اور زبان سے جھول پھڑ رہے ہیں، ذرا فرامین عالیہ ملاحظہ فرمائیں!

”تین چوہے میرا شکار کرنے نکلے ہیں، اب یہ میری نشست (شست) پر آ گئے ہیں، میں ان کا شکار کر لوں، فلاں میرا پہلا نشانہ ہے، فضل الرحمان ڈیزل، فضلو، بے غیرت، چور، ڈاکو، میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں، یہ باسٹرڈ ویسے جائے گا بھی نہیں، میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا، ان کو خوب پھینٹی لگانا، بل نہ دینا، ہنڈی کے ذریعے سے پیسا بھیجنا، ان کے گھروں کا گھیراؤ کریں گے وغیرہ وغیرہ، ان کی شلواریں گیلی ہو گئی ہیں“ ۔ دور جدید کی پوری ایک لغت تیار کی جا سکتی ہے لیکن شاید کوئی ادارہ چھاپنے پر تیار نہ ہو گا۔ یہ لغت عمرانہ، سوری لغت عامیانہ اور دعوے ریاست مدینہ کے؟ لیکن آپ بدگمانی کا شکار نہ ہوں، اگر گالیاں دیتا ہے تو کیا ہوا؟ ایماندار بھی تو ہے۔ بندہ ہینڈسم فرامین بینڈسم۔

بات ایک دانے کی نہیں پوری دیگ ہی ایسی ہے۔ ابھی کل ہی معاون خصوصی نے اپنے ہی ایک سکہ بند کو ایسا رگڑا لگایا کہ بڑے بڑوں نے ”ہاتھوں کو کان“ لگا دیے۔ جس نے سنا وہ ”پیرے الٹوں“ بھاگ آیا لیکن مجال ہے گالیاں سننے والا بدمزہ ہوا ہو۔ موصوف کو شاید شریف گلیاں یاد آ گئی ہوں جنہیں کسی زمانے میں برا سمجھ کر چھوڑ گئے تھے۔ اس دیگ کا رنگ ہی نرالا ہے۔ دانے تو دانے، دانیاں اس سے بھی لاجواب ہیں۔ دانے کے سحر سے نکلا تو کانوں میں کسی ایک دانی کی آواز پڑی جو سندھ ہاؤس پر اظہار خیال کر رہی تھیں۔ سنا تو پکا یقین ہو گیا کہ یہ ٹیم ملک چلائے نہ چلائے گالیاں ضرور چلا سکتی ہے۔ میرے لیڈر نے بھلے ملک کو امریکا نہ بنایا ہو لیکن پوری ٹیم کو ٹرمپ ضرور بنا دیا ہے۔

زبان کے کان نہیں ہوتے اور میرے لیڈر کی زبان کی تو بریکیں بھی نہیں ہیں لہذا کسی بے قابو گاڑی کی طرح ”پھسل پر سڑکتی“ چلی جاتی ہے۔ اسے بھلے خاتم النبیین اور روحانیت کہنا نہ آئے لیکن ”کانپیں ٹانگ رہی ہیں“ کو نہ صرف غلط منسوب کرنا آتا ہے بلکہ نقل کرنی بھی آتی ہے۔ میرے رشک قمر کی زبان کی کوئی سٹوریج بھی نہیں ہے کہ کیسٹ ریوائنڈ کر کے ”یادی کو ماض“ کر لے۔ جب بلوچستان اسمبلی میں ایک جماعت کی حکومت گرائی گئی اور جب سینٹ میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود اپنا چیئرمین لے آئے تو یہی زبان تھی جس نے ”کراسا زیبرنگ“ کا خیال رکھے بغیر کہا تھا کہ ان کا ضمیر جاگ گیا ہے لیکن اب جب اپنے جا رہے ہیں تو انہیں بکاؤ کہا جا رہا ہے۔ زبان تو اب بھی وہی ہے لیکن پہلے جب کوئی آتا تھا تو وکٹ گرتی تھی لیکن اب کوئی جاتا ہے تو اسے لوٹا کہا جاتا ہے۔ یہ ورسٹائل زبان ہے۔ اسی زبان نے ریاست مدینہ میں نیوٹرل ہونے کا مقدمہ پیش کیا اور اب کہ اسی زبان نے نیوٹرل کو جانور کہہ دیا ہے۔

لگتا ہے کہ قرارداد عدم اعتماد کی نہیں بلکہ عدم کف لسان کی پیش ہوئی ہے۔ ایک دفعہ پہلے خود ہی اعتماد کا ووٹ لیا تھا تو اسی زبان نے کہا تھا: میں اپنے ارکان سے کہتا ہوں کہ میں آپ کی عزت کروں گا، یہ آپ کا جمہوری رائٹ ہے، اگر آپ کو مجھ پر اعتماد نہیں تو ہاتھ اٹھا کر کہہ دیں، میں آرام سے اپوزیشن میں بیٹھ جاؤں گا ”۔ اکثریت نے تو اس زبان پر اعتبار نہ کیا لیکن تیس کے لگ بھگ ارکان اسمبلی نے شاید اعتبار کر لیا لیکن معتبر زبان نے عزت بجائے لوٹا کہنا شروع کر دیا ہے، ان کے گھروں کا گھیراؤ شروع ہو گیا ہے اور سندھ ہاؤس پر چڑھائی کر دی گئی ہے۔ ہزاروں کلو وزنی اپوزیشن سے تو یہ چھٹانک بھر زبان بہتر ہے جس نے بیچ“ ہانڈی کے چوراہا ”پھوڑ دیا۔

اس سے پہلے کہ میں بدگمان ہو جاتا، اچانک مجھے یاد آیا کہ اسلام کے مطابق برائی کے بعد نیکی کرنا برائی کو مٹا دیتا ہے اور میرا لیڈر تو ویسے بھی گالی سے پہلے حدیث پڑھتا ہے اور گالی کے بعد ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے۔ دو نیکیوں کے بعد بھلا گالی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments