اس سے پہلے کہ دیر جائے


اگرچہ سوویت انہدام سے سرد جنگ کا خاتمہ ہو گیا تھا اور توقع کی جا رہی تھی کہ نیٹو کے وجود بھی ٹوٹ کر ختم ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ اس لیے جو سرد جنگ کا سورج بڑی مشکل سے غروب ہو چکا تھا دوبارہ طلوع ہو گیا ہے روسی یوکرین جنگ جی شکل میں۔

یہ عجیب بات ہے کہ مملکتیں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے بناتی ہیں، سالہا سال سے فلک بوس عمارتیں، شاہراہیں، پلیں، اسپتال اور درسگاہیں یا کارخانے بناتے ہیں اور پھر اپنے ہاتھوں انہیں تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ موتمار ہتھیار، سازشی نظریات اور دیگر اقوام کے امور میں مداخلت بہ زور طاقت کر کے تیل و معدنیات، تاریخی ورثہ اور ہیومن ریسورسز پر قابض ہونے کی مہم جوئی کرتے ہیں۔ جنگ کے نتیجے میں عام لوگوں کو کبھی حب الوطنی، کبھی مذہبی عقائد و مقاصد اور کبھی انسانی حقوق کے نام پر آپس میں لڑایا جاتا ہے۔

یہ برہنہ وحشت درندوں کا خاصہ ہے کہ طاقتور کی بقا کمزور کی فنا سے مشروط ہوا کرتا ہے جبکہ انسان صاحب علم و شعور ہے ایک بدن کی مانند ہے۔ ایک حصے کو تکلیف پہنچنے سے سارا بدن تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کئی اعضا ہیں کئی سرشتے ہیں مگر انہیں قوت حیات (vitality) ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے سب کا مفاد مشترکہ ہوتا ہے۔ ایٹم کی مانند قوی جوہری قوت مرکز میں نیوٹران، پروٹان اور کوارک یا گلون وغیر سب۔ ایٹامکہ جزئیات مختلف (مثبت/منفی/ غیر جانبدار) رجحان رکھنے کے باوجود ایک ہی وحدت میں متحد کیے رکھتا ہے۔ ایٹم کی ساخت مائکرو سطح پر اور کہکشاں کے اندر میکرو سطح پر شمسی نظام میں یکساں مماثلت گویا ایک نامعلوم قوت کے تابع دکھائی دیتی ہے۔ انسان بطور ایک فرد بکور ایک قوم بطور ایک عوام یا بطور بنی نوع انسان مذکورہ نظام کائنات کا اٹوٹ حصہ ہے۔

یاد رہے کہ دنیا میں ہر ایک کے لیے گنجائش ہے زمین زرخیز ہے اور امیر ہو کہ غریب زمین سب کو اسباب بقائے باہمی مہیا کر سکتی ہے۔ مگر حرص و ہوس کہ طاقت کے نشے میں ہم ”راستہ“ بھول گئے ہیں۔ اس وقت دنیا کی آبادی تقریباً 7.4 بلین بتائی جاتی ہے۔ ہم انسان اس سیارے (earth) کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ ترقی و خوشحالی کے نام میں نباتات، حیوانات، چرن پرند، خشکی پر ہوں یا زیر آب سب کو نیست و نابود کیا جا رہا ہے۔ ماہرین چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ موسمیات کے تغیر و تبدل کے سبب اوزون کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

اوزون تہہ خلا سے الٹرا وائلٹ/ تابکاری شعاوٴں کو زمین پر پہنچنے سے روکتا ہے۔ اگر یہ تابکاری زمین پر پھیل جائے تو بقائے بنی نوع انسان ناممکن ہو کر رہ جائے۔ حالیہ وبائے کرونا کو بھی فطرت کے انتقام سے تعبیر کیا جا تا ہے۔ ظاہر ہے فطرت کو نقصان پہنچے گا تو ماحولیات کا اعتدال منتشر ہو جائے گا اور یہی فطرت کا انتقام ہے جگہ مشہور نظریاتی سائنسداں اسٹیفن ہاکنگ کو کہنا پڑا کہ اگر انسان نے زمین کے علاوہ رہنے کے لیے دیگر سیارے تلاش نہ کیے تو ایک ہزار سال بعد انسانی وجود ہی معدوم ہو جائے گا۔

دنیا دوسری عظیم جنک کے ہولناک اثرات دیکھ چکی ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے اور لاکھوں افراد کے مارے گئے، انگنت لوگ معذور و اپاہج ہو گئے کہ خواہش و صلاحیت پیدائش سے محروم ہو گئے۔ اب تلک متاثر زمین بنجر بن چکی ہے۔ اہل خرد اور صاحبان شعور اپنی سوئی ہوئی حسیت (sensibility) کو بروقت جگائیں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments