اسلام آباد کے عوام کی نمائندگی کون کرے گا؟


قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد سے اسلام آباد میں ملکی سیاست کی نئی جہتیں آشکار ہو رہی ہیں۔ ملک بھر کے ایم این اے یہاں اکٹھے ہیں اور میڈیا جلتی پہ تیل کا کام کر رہا ہے، قیاس آرائیوں اور چٹ پٹی خبروں کا دور دورہ ہے۔ میڈیا ہاؤسز کانوں تک اس مواد سے بھرے ہوئے ہیں اور ٹی وی چینلز کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ اپنے نیوز بلین میں تحریک عدم اعتماد کے علاوہ باقاعدہ خبریں بھی شامل کریں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ جس جگہ یہ سب ہوتا ہے وہ اس بحث میں کہیں نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو سیاست دان اس کی نمائندگی کرتے ہیں وہ اپنے حلقوں کے علاوہ ہر بات کی فکر کرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر حکمران جماعتیں ان حلقوں سے جیت جاتی ہیں۔

2018 کی نئی حد بندی میں اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے حلقوں کی تعداد دو سے بڑھ کر تین ہو گئی۔

وفاقی دارالحکومت میں صوبائی نشستیں نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً 30 لاکھ افراد ہر قسم کے مقامی امور کے لیے صرف تین ایم این ایز پر منحصر ہیں۔

NA۔ 52 بنیادی طور پر اسلام آباد ایکسپریس وے اور اس کے اطراف کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ سڑک اسلام آباد کی ناک کا بال ہے۔ ناقابل گزر، یہ کئی دہائیوں سے ٹریفک کا ڈراؤنا خواب ہے۔ یہ زیادہ تر غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے منسلک ہے جنہوں نے جنگلی حیات کے علاقوں کو کاٹ دیا ہے۔ یہ حلقہ زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کا گڑھ ہے اور اس میں جرائم کی شرح سال بھر میں سب سے زیادہ رہتی ہے۔

اس حلقے سے پاکستان تحریک انصاف کے راجہ خرم نواز ایم این اے ہیں۔ ملکی سیاست میں ان کی نئی انٹری ہے۔ اگر اسلام آباد کو پہلے کی طرح دو حلقوں میں تقسیم کیا جاتا تو شاید انہیں قومی سطح پر پیش ہونے کا موقع نہ ملتا۔

اس حلقے کا زیادہ تر حصہ اسلام آباد کے دیہی علاقوں میں آتا ہے۔ نواز اس سرکاری طور پر اعلان کردہ دیہی علاقے کو شہری بنانے کے عمل میں سرگرم ہے۔ ان کا یہ عمل وزیر اعظم عمران خان کے سر سبز علاقوں کے تحفظ کے اعلان کے خلاف ہے۔ وزیر اعظم نے اسلام آباد کے لیے اپنی پالیسی میں اعلان کیا تھا کہ یہاں عمارتوں کے لیے ”آسمان حد ہے“ ۔ اس سے پہلے اسلام آباد بلند و بالا عمارتوں کا زیادہ حامی نہیں تھا۔ وزیر اعظم نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد جو وژن پیش کیا وہ یہ تھا کہ عمارتوں کی عمودی حد کو بڑھا کر شہر کی آبادی کو شہر میں رکھا جا سکتا ہے۔ لہٰذا، اس کے سرسبز علاقوں کو شہری کاری سے بچایا جائے گا۔

لیکن ہم ایم این اے راجہ خرم نواز کے نام کی تختی بہت ساری نئی تعمیر شدہ کنکریٹ کی گلیوں اور دیگر ڈھانچے پر دیکھتے ہیں جو روات سے چراگاہوں تک کے سبز اور پرسکون منظر کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔

این اے 53 وفاقی دارالحکومت کا دوسرا حلقہ ہے۔ یہ شہر کے مرکز سے شروع ہوتا ہے اور مری کے قریب تک جاتا ہے۔ مری روڈ کے آس پاس کے علاقے جیسے بہارہ کہو اور بنی گالہ اس کے اہم علاقے ہیں۔

عمران خان نے 2018 کے انتخابات میں یہ حلقہ جیتا لیکن بعد میں انہوں نے میانوالی کی نشست اپنے پاس رکھی اور این اے 53 سے دست بردار ہو گئے۔ اس طرح یہ آسانی سے پارٹی امیدوار علی نواز اعوان کی گود میں گر گیا۔ اعوان اسلام آباد کی پہلی بلدیاتی حکومت میں مشکل سے ہی اپوزیشن لیڈر تھے۔ وہ بھی قومی سیاست میں پہلی مرتبہ وارد ہوئے ہیں ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت نے انہیں وزیراعظم کا معاون خصوصی برائے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے ) بنایا۔

سی ڈی اے کا شمار ملک کے امیر ترین سٹی مینیجرز میں ہوتا ہے۔ عامر احمد علی اس کے چیئرمین ہیں۔ تینوں حلقے بنیادی طور پر سی ڈی اے کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ عام انتخابات کے بعد شہر کی خوبصورتی اور بہتری پر اربوں روپے کے فنڈز خرچ کیے گئے۔ اگرچہ اعوان ان پراجیکٹس کے لیے کریڈٹ کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ شاذ و نادر ہی ان پر اپنے نام کی تختیاں لگانے کے لیے عوام کے سامنے آتے ہیں۔

دفتر میں اپنے قیام کے پہلے ڈیڑھ سال میں، انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت اسلام آباد کے میئر شیخ انصر، جو ان کے پرانے حریف ہیں، کو مات دینے میں صرف کیا۔ 2020 میں مئیر کے معزول ہونے تک، اعوان ان کے خلاف اکثر دھواں دار پریس کانفرنسیں کیا کرتے تھے اور ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات بنائے جاتے تھے۔ خدمات کی فراہمی کے شعبے جو میئر کے ماتحت تھے اب واپس سی ڈی اے کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ لیکن میئر کو ہٹانے کے بعد ان کے حلقے کی صفائی میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آ رہا ہے۔

شیخ انصار کو اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر کی خراب حالت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس کے تنہا ہاتھی کاوان نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی۔ لیکن سینکڑوں جانور اور پرندے، بشمول شیروں کے، محفوظ مقامات پر لے جانے ہوئے یا تو مارے گئے یا لاپتہ ہو گئے۔ زندہ بچ جانے والے ریچھ اب مر چکے ہیں لیکن میڈیا کو بتایا جاتا ہے کہ ان کی موت ان غیر محتاط طرز عمل کی وجہ سے ہوئی جو انصار کے میئر کے دور میں اپنائے گئے تھے۔ اس طرح اعوان نے شہر کے پہلے میئر کو شہر کا بدترین دشمن بنا کر پیش کیا۔ یہ شاید ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

NA۔ 54 شہر کا سب سے اہم حلقہ ہے جس میں پوش سیکٹرز اور اسٹریٹجک لحاظ سے اہم علاقے شامل ہیں۔ یہ اچھی طرح سے تیار اور اچھی طرح سے منظم ہے۔ اس حلقے کا بنیادی مسئلہ مارگلہ کی پہاڑیوں اور نیشنل پارک کے محفوظ علاقوں کی کمرشلائزیشن ہے۔ چونکہ بین الاقوامی اور قومی معززین یہاں واک اور ورزش کرتے ہیں۔ اس لئے یہ پہاڑیاں میڈیا اور ماہرین ماحولیات کی توجہ کا مرکز بھی ہے۔

یہ لوگ این اے 52 میں قدرتی حسن کی تباہی کی بات بمشکل ہی کرتے ہیں لیکن این اے 54 میں مارگلہ ایونیو پہ تعمیرات کے خلاف احتجاج کرتے ہیں بیشک وہ شہر کے ماسٹر پلان کا حصہ اور قانونی ہی کیوں نہ ہوں۔ دریائے سوان پکو پلاٹ بنا کر بیچنے کے خلاف یہ منہ بولے ماحولیاتی ماہرین خال خال ہی آواز اٹھاتے ہیں۔ اس دریا پہ غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے اپنی ”مقبوضہ“ زمینوں پر کنٹرول رکھنے کے لیے مسلح گارڈز تعینات کیے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ اسلام آباد میں ہو رہا ہے لیکن کسی کا دھیان نہیں جاتا کیونکہ فیصلہ ساز کبھی کبھار ہی NA۔ 52 کا دورہ کرتے ہیں۔

وزیر منصوبہ بندی اسد عمر این اے 54 سے ایم این اے ہیں۔ وہ تمام ٹی وی چینلز پر ایک پسندیدہ چہرہ ہیں اور ان کی میڈیا ٹیم سوشل میڈیا پر ان کی بھرپور تشہیر کرتی ہے۔

ٹی وی پر، وہ اپنے مخالفین کا سامنا کرتے ہوئے کراچی کو درپیش مسائل، پی پی پی کے سندھ پر حکومت کرنے کے طریقے اور مسلم لیگ (ن) پنجاب پہ بات کرتے ہیں۔ ان کی توجہ کا مرکز زیادہ تر معاملات میں سندھ ہے۔ یہ بہت کم ہوتا ہے کہ وہ کسی قابل ذکر موقع پر اپنے ہی حلقے کے بارے میں بات کرتے ہوں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) نے مارگلہ ہلز کی زمین پر پاک بحریہ اور دیگر با اثر افراد کی جانب سے گاف کلب اور شاہانہ ہوٹل چلانے کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔ یہ ایک قومی اور بین الاقوامی تشویش بنی ہوئی تھی لیکن اسد عمر ان باتوں سے بے نیاز رہے۔

اس پس منظر میں بنیادی سوال یہ ہے کہ جب اسلام آباد کے یہ عوامی نمائندے اسلام آباد کے مسائل سے زیادہ چسکے دار میڈیا کی باتوں میں مصروف رہیں گے تو اس شہر کی نمائندگی کون کرے گا؟

ڈاکٹر حسن شہزاد انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں ابلاغیات کے پروفیسر ہیں اور ان کا یہ کالم ایڈیٹ ہو کے دا نیوز آن سنڈے میں چھپا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments