چانکیہ، سن زو، میکاولی اور اب ”میں“۔


جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں مجھے ’موٹیویشنل کالم‘ لکھنے کا بہت شوق ہے۔ اس کے دو فائدے ہیں۔ پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ زیادہ سوچنا نہیں پڑتا، موٹیویشن کے نام پر کوئی بھی کہانی اٹھائیں، اس کی نوک پلک سنواریں، تھوڑا بہت میک اپ کریں، کچھ اضافہ و ترمیم اپنی سے طرف سے کریں، بس بن گیا کالم۔ اور کہانی کا ہونا بھی کچھ ایسا ضروری نہیں، چند لگے بندھے سے اصول ہیں، ان کو چٹخارے دار انداز میں بیان کرنے سے بھی کام چل جاتا ہے۔ ویسے وہ اصول سب کو پتا ہیں لیکن انہیں ہر مرتبہ پڑھ کر خوامخواہ مزا آتا ہے۔ مثلاً پڑھنے میں یہ بات بھلی لگتی ہے کہ اگر آپ روزانہ دس منٹ ورزش کریں گے تو عمر میں دس سال کا اضافہ ہو جائے گا لیکن کرنے لگو تو دس منٹ کی کسرت میں بھی پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ کالم نگار کو ان باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، عمل کر ناصرف قاری کا کام ہے۔

موٹیویشنل کالم لکھنے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے یوں تاثر ملتا ہے جیسے کالم نگار ان تمام سنہری اصولوں کو اپنی زندگی کا جزو بنا کر پہلے ہی امر ہو چکا ہے، اب وہ صرف عام لوگوں کی فلاح و بہبود کی خاطر یہ باتیں پھیلا رہا ہے تاکہ باقی لوگ بھی اس کی دانش سے فائدہ اٹھا کر کامیاب ہو سکیں۔ لیکن آج کل ملک میں جس قسم کا ماحول ہے اس میں موٹیویشن کی ضرورت ’مایوس نوجوانوں‘ سے زیادہ سیاست دانوں کو ہے۔

یہ درست ہے کہ چانکیہ، میکاولی اور سن زو نے اس موضوع پر لکھنے کی کوئی گنجایش نہیں چھوڑی، ان تینوں حضرات نے اپنی کتابوں میں سیاست اور جنگ کے جو رہنما اصول بیان کیے ہیں ان میں اضافہ ممکن نہیں اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ یہ تینوں بزرگوار عمر میں مجھ سے سینئر ہیں اور شاید سمجھ بوجھ بھی ان کی زیادہ تھی، گو کہ بعض محققین کا اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے جسے میں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، لیکن قطع نظر اس بات کے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ جدید دور میں حکمرانی اور سیاست کے اصول کچھ بدل گئے ہیں جس کی روشنی میں اب ایک نئی ارتھ شاستر، دی پرنس اور آرٹ آف وار لکھنی پڑے گی۔ اپنی عدیم الفرصتی کی وجہ سے میں یہ نئی کتاب لکھنے کا کام تو نہیں کر سکتا البتہ اتنا ضرور کر سکتا ہوں کہ ایک خاکہ سا بنا دوں جس کی بنیاد پر یہ کتاب لکھی جا سکے۔ ذیل میں یہ خاکہ میں نے بنا دیا ہے، جو لکھاری اس خاکے سے فائدہ اٹھا کر کتاب لکھنا چاہے اسے اجازت ہے، بھارتی میزائل سسٹم کی طرح اس خاکے کے جملہ حقوق بھی غیر محفوظ ہیں۔

آج کل کے دور میں سیاست دانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ڈیجیٹل میڈیا ہے، یہ ڈیجیٹل میڈیا سیاست دانوں کے بیانات ریکارڈ کر لیتا ہے اور پھر کسی تضاد کی صورت میں یہ بیانات بار بار دکھائے جاتے ہیں کہ دیکھو پہلے اس نے کیا کہا تھا اور اب یہ کیا کہہ رہا ہے۔ کوئی بھی شخص، چاہے وہ فرشتہ سیرت ہی کیوں نہ ہو، ایسی زندگی نہیں گزار سکتا جس میں کوئی ایک بھی تضاد نہ ہو۔ سیاست دانوں کے معاملے میں یہ تضادات کچھ زیادہ ہی ہوتے ہیں، انہیں بدلتی ہوئی صورتحال کے ساتھ اپنے موقف میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے اور لا محالہ ان دعوؤں سے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے جو انہوں نے ماضی میں کیے ہوتے ہیں۔ لیکن ڈیجیٹل میڈیا نے یہ کام بہت مشکل بنا دیا ہے، بیانات وہ پہلے بھی دیتے تھے مگر پہلے ان کے بیانات لوگوں کی یاد داشت سے محو ہو جاتے تھے، انہیں یاد دلانے کے لیے اخبارات کھنگالنے پڑتے تھے، اس کے لیے لائبریری جانا پڑتا تھا، وہاں سے تراشے اکٹھے کرنے پڑتے تھے، پھر کہیں جا کر لوگوں کو بتایا جاتا تھا کہ دیکھو اس سیاست دان نے ماضی میں کیا کہا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اخباری تراشے سے وہ بات نہیں بن پاتی تھی جو اب ڈیجیٹل میڈیا سے بنتی ہے۔

اب ایک بچہ بھی سوشل میڈیا پر جا کر دیکھ سکتا ہے کہ کس نے ماضی میں کیا کہا اور کون شخص اپنی کس کس بات سے مکر گیا، اس کام کے لیے اب اخباری تراشے اکٹھے کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس پورے مسئلے کا حل ایک لفظ میں پوشیدہ ہے اور وہ لفظ ہے ’قومی مفاد‘ ۔ اسے بوقت ضرورت ’قومی سلامتی کا تقاضا‘ یا ’ملکی مفاد‘ بھی کہا جا سکتا ہے اور اگر محسوس ہو کہ ان تراکیب کی تکرار ہو گئی ہے تو اسے ’پارلیمانی نظام کا تسلسل‘ وغیرہ سے جوڑ کر بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ ہمیں چونکہ ہر بات کی سند امریکہ سے لانے کا شوق ہے تو اس کی سند بھی وہیں سے لیتے ہیں۔

سی آئی اے کے ایک سابق سربراہ کا انٹرویو میں نے دیکھا جس میں اس سے پوچھا گیا کہ دوسرے ممالک میں آمریتوں کو تحفظ دینے یا کسی ملک پر حملہ کرنے کا فیصلہ آپ کس بنیاد پر کرتے ہیں؟ اس مرد حر نے یک حرفی جواب دیا ’نیشنل انٹرسٹ۔‘ چٹکی بجاتے مسئلہ حل۔ اگر اس بنیاد پر کسی ملک پر حملہ کر کے لاکھوں لوگوں کو قتل کیا جا سکتا ہے تو چھوٹے موٹے بیانات سے پیچھے ہٹنا تو کوئی بات ہی نہیں۔ سیاست دان اس ایک لفظ کو رٹ لیں اور جہاں کہیں مشکل میں پھنسیں، یہ جادوئی لفظ بول کر اطمینان سے آگے نکل جائیں، اللہ برکت دے گا۔

آج کل آزادی رائے کا بھی بہت فیشن ہے۔ چانکیہ، میکاولی اور سن زو کے زمانے میں ایسی خرافات کی کوئی گنجایش نہیں تھی اس لیے انہوں نے اس سے نمٹنے کا طریقہ بھی نہیں بتایا۔ ان حضرات کی سستی کی وجہ سے اب یہ کام مجھے کرنا پڑ رہا ہے۔ خیر، کوئی بات نہیں۔ سب سے پہلے تو یہ بات پلے سے باندھ لیں کہ کہیں بھولے سے بھی آپ نے آزادی اظہار پر قدغن لگانے کی بات نہیں کرنی، ایسا کوئی بھی بیان نہیں دینا جس سے یہ شائبہ بھی ملتا ہو کہ آپ آزاد صحافت کے علمبردار نہیں ہیں، ہمیشہ یہ کہیں کہ آزادی اظہار پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں کی جائے گی اور پھر جب یہ بات کر چکیں تو نہایت ہولے سے ’البتہ‘ کا دم چھلا لگائیں اور ساتھ ہی وہ قومی مفاد والی بات جڑ دیں کہ ’البتہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کہیں آزادی اظہار کے نام پر قومی مفادات پر زد تو نہیں پڑ رہی۔

بس پھر ستے ہی خیراں ہیں۔ کوئی آپ سے بحث نہیں کرے گا کہ یہ آزادی اظہار ضروری ہے یا قومی مفاد۔ اور اگر کوئی بحث کرے تو پھر سند امریکہ سے ہی لے آئیں اور بتائیں کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی قومی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا، آج تک انہوں نے جولین اسانج اور ایڈورڈ سنوڈن کو معاف نہیں کیا۔

اور اب آخری بات۔ اگر کوئی ایسی مصیبت آن پڑے جس کا حل ’قومی مفاد‘ یا ’ملکی سلامتی‘ جیسے بیانات سے بھی نہ نکل سکے تو پھر مذہب کا استعمال کریں، اس حکمت عملی کا ڈسا ہوا پانی بھی نہیں مانگتا۔ یہاں بھی میکاولی وغیرہ سے چوک ہو گئی، دنیا جہان کے حربے انہوں نے اپنے مخالفین کو زیر کرنے کے لیے لکھے مگر مذہب کے استعمال کا ذکر کرنا بھول گئے (کم از کم مجھے تو یہی یاد پڑتا ہے ) ۔ چانکیہ نے ارتھ شاستر میں سیاست میں مذہب کے استعمال پر کچھ روشنی ڈالی ہے مگر تشنگی باقی رہ گئی۔ چانکیہ نے اپنے دشمنوں کی جاسوسی کے لیے خوبصورت عورتوں کا گروہ بنانے کا طریقہ بھی بتایا تھا، وہ تو آج بھی استعمال کیا جاتا ہے، مگر بعض اوقات ان میں سے کوئی بھی دیگر طریقہ کارگر ثابت نہیں ہوتا، مذہب کارڈ ایسے ہی کسی موقع پر کام آتا ہے۔

یہاں بھی آپ کو مغرب سے سند فراہم کر دیتے ہیں۔ روسو، جسے پورا مغرب سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے، سوشل کنٹریکٹ جیسی کتاب جس نے لکھی، وہ کہتا ہے کہ ریاست کا اپنا مذہب ہونا چاہیے۔ یہ بات اس نے کس تناظر میں کہی وہ بھول جائیں، بس یہ فقرہ یاد رکھیں۔ ویسے سوشل کنٹریکٹ کی بجائے اگر آپ ’کونترا سوسیال‘ کہیں گے تو زیادہ رعب پڑے گا۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 496 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments