اشتہار کو صحافت کشی کا ہتھیار نہ بنائیں!


نیو ٹیلی ویژن اور روزنامہ نئی بات کے سرکاری اشتہارات کی بندش کو آج پورے 23 دن ہو گئے ہیں۔ اس بندش کے خلاف ملک کی صحافی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔ سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے نیو اور نئی بات کے اشتہارات کی بندش کی مذمت کی ہے۔ احتجاج اور مذمت کے باوجود فی الحال ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ نیو میڈیا گروپ کا جرم فقط اتنا ہے کہ وہ صحافتی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے حق اور سچ کی صحافت پر کاربند ہے۔

مختلف سیاسی، سماجی اور معاشی موضوعات پر غیر جانبداری سے رپورٹنگ اور تجزیہ نگاری کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ ہر قسم کے دباؤ اور دھمکیوں کو بالائے طاق رکھ کر ، عوام الناس تک حقائق کی ترسیل کو یقینی بناتا ہے۔ ان جرائم کی پاداش میں پہلے بھی کئی مرتبہ اسے اشتہارات کی بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ سے اسے شدید مالی نقصان بھگتنا پڑا۔ تاہم اس میڈیا گروپ نے اپنے صحافتی اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔ اب ایک مرتبہ پھر اس کے اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔

روزنامہ نئی بات میں چھپنے والی خبروں اور اس ادارے میں کام کرنے سینئر صحافیوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس صحافتی ادارے کا تازہ ترین جرم نیو ٹی وی پر ”بولو طلعت حسین کے ساتھ“ نامی پروگرام شروع کرنا ہے۔ سینئر صحافی سید طلعت حسین پاکستانی صحافت کا ایک معتبر نام ہیں۔ برسوں سے وہ صحافت کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ صحافت اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ صحافتی اخلاقیات کی پاسداری کرنے والے صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں۔

سچ بولنے کے جرم میں انہیں اپنی گزشتہ نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ پچھلے تین سال سے وہ اپنے یوٹیوب چینل پر تجزیہ نگاری کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ طلعت حسین کا پروگرام شروع کرنے کی وجہ سے نیو ٹی وی کو مسلسل دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ چینل بند کرنے اور مقدمات قائم کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ لیکن نیو ٹی وی کی انتظامیہ نے ہر قسم کے دباؤ اور دھمکی کو خاطر میں لائے بغیر یہ پروگرام چلائے رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس میڈیا گروپ کے سرکاری اشتہارات بند کر دیے گئے۔

ہمارے ہاں صحافت پہلے سے مشکلات و مصائب میں گھری ہوئی ہے۔ ایک مخصوص طبقہ صحافت کے نام پر لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے، گریبان پھاڑنے اور پیشانیاں داغنے کا کام کرتا ہے۔ خاص طور پر ٹیلی ویژن صحافت میں یہ چلن عام ہے۔ سنجیدہ اور بردبار صحافی اور ٹاک شوز کی تعداد نہایت محدود ہو چلی ہے۔ ایسے میں نیو ٹی وی جیسے صحافتی ادارے ہمیں غنیمت معلوم ہوتے ہیں۔ جو حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ گالی گلوچ کرنے والے صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کو اپنی سکرین پر جگہ نہ دی جائے۔ یہ سراسر زیادتی ہے کہ اس ادارے کو فقط اس وجہ سے مالی مشکلات میں مبتلا کر دیا جائے کہ اس نے ایک سنجیدہ صحافی کو اپنی سکرین پر جگہ دی ہے۔

جہاں تک سرکاری اشتہارات کا تعلق ہے اس پر میڈیا کے تمام ادارے حق رکھتے ہیں۔ ہر اخبار اور ٹی وی چینل کو اس کی حیثیت اور مقام (یعنی سرکولیشن اور ریٹنگ) کے مطابق اشتہارات تقسیم کرنا لازم ہے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ حکومتیں ان معاملات میں اپنی پسند نا پسند کا اصول لاگو کرتی ہیں۔ جو صحافتی ادارے ارباب اختیار کے اشارہ ابرو اور خوشنودی خاطر سے بندھے رہتے ہیں، ان پر سرکاری اشتہارات کی بارش ہوتی ہے۔ حکومتی کارگزاری پر جائز تنقید کرنے والے اور عوام الناس کی مشکلات کا ذکر کرنے والے اداروں کی شامت آ جاتی ہے۔ یہی کچھ نیو میڈیا گروپ کے ساتھ ہوا ہے۔

کچھ برس سے پاکستان کے معاشی حالات انتہائی نازک ہیں۔ سرکاری اور نجی جامعات ہوں، کارخانے ہوں، کاروباری ادارے ہوں یا میڈیا گروپس، سب ہی مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ سرکاری اشتہارات میڈیا کی سانس بحال رکھنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی اور دیگر اخراجات پورے کرنے کے لئے صحافتی اداروں کو اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ نازک معاشی صورتحال کی وجہ سے نجی اداروں کے اشتہاری بجٹ میں بھی واضح کمی آئی ہے۔

ان حالات میں اگر کسی ادارے کے سرکاری اشتہارات بھی بند کر دیے جائیں تو اس کے لئے اپنے اخراجات پورے کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال کی سب سے پہلی زد ملازمین پر پڑتی ہے۔ ادارے کو ملازمین کی تنخواہیں روکنا پڑتی ہیں۔ تنخواہوں میں کمی لائی جاتی ہے۔ افرادی قوت کم کرنے کے جتن کیے جاتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ اشتہارات کی بندش صحافیوں اور دیگر ملازمین کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔

اس قضیے کا صرف معاشی پہلو نہیں ہے۔ آج کی دنیا میں آزادی اظہار رائے کی نہایت اہمیت ہے۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 بھی ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اظہار رائے کی آزادی پر قدغنیں عائد ہیں۔ اگرچہ کسی بھی دور حکومت میں صحافت کے لئے مثالی حالات نہیں تھے۔ لیکن جو کچھ گزشتہ چار پانچ سال سے میڈیا کے ساتھ ہو رہا ہے اسے صحافت کے لئے بدترین دور کہا جاتا ہے۔ سینئر صحافی بتاتے ہیں کہ فوجی حکومتوں میں بھی انہیں اس قدر سنسر شپ کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا آج کرنا پڑ تا ہے۔

سچ بولنے اور ضمیر کے مطابق بات کہنے والوں کے لئے جگہ مسلسل سکڑ رہی ہے۔ آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کا دائرہ متواتر تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں پر صحافیوں کو ہراساں کیا جائے، انہیں نوکریوں سے فارغ کروا دیا جائے، ان پر مقدمات چلائے جائیں، انہیں جیلوں میں ڈالا جائے، یہاں تک کہ انہیں جان سے مار ڈالا جائے، جوابدہی اور انصاف کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کی پیمائش کرنے والے اداروں کے جاری کردہ انڈیکس میں پاکستان کا نام مسلسل نیچے کی جانب لڑھک رہا ہے۔

میڈیا کی آزادی کے حوالے سے 2018 میں پاکستان 180 ممالک کی فہرست میں 139 ویں درجے پر تھا، سال 2019 میں یہ 142 ویں نمبر پر آ گیا اور اگلے برس مزید نیچے لڑھک کر 145 درجے پر جا پہنچا۔ ڈھلوان کا یہ سفر نجانے کہاں جا کر تھمے گا۔ کئی برس سے عالمی صحافتی تنظیمیں پاکستان کو صحافیوں اور صحافت کے لئے خطرناک ملک قرار دیتی ہیں۔ اقوام متحدہ بھی صحافیوں اور انسانی حقوق کی نازک حالات پر تشویش کا اظہار کرتا رہتا ہے۔

دو برس پہلے صحافیوں کی فلاح کے لئے سرگرم ایک عالمی تنظیم ”ر پورٹر ود آؤٹ بارڈر“ نے وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھا تھا کہ ان کی حکومتی پالیسیاں صحافیوں کے لئے مشکلات کا باعث ہیں۔ اس منفی رویے کی وجہ سے مختلف عالمی پلیٹ فارموں پر ہمیں نہایت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آزادی اظہار رائے پر عائد پابندیاں فاٹف جیسے حساس معاملات پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔

تین دن پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ترمیمی آرڈیننس پارلیمنٹ کو نظر انداز کر کے جاری ہوا۔ یہ بظاہر آئین کے آرٹیکل 89 کی خلاف ورزی میں جاری ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری ملک میں سیلف سینسر شپ کیسے ہو سکتی ہے؟ جج صاحب کا کہنا تھا کہ سیاسی مباحثے ختم کرنے کے لئے پیکا کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ انٹرنیٹ پر صحافیوں کی سرویلنس ہو رہی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ بر سر اقتدار حکومتیں اپنے اندر حق اور سچ سننے کا حوصلہ پیدا کریں۔ اگر ان کی کارکردگی اور گورننس کے حوالے سے سنجیدہ صحافیوں کی طرف سے جائز تنقید ہوتی ہے تو ان کی نوکریوں کے پیچھے پڑنے کے بجائے اپنی کارکردگی کی اصلاح احوال کریں تاکہ عوام الناس کو سکھ کا سانس نصیب ہو۔ کوئی سیاسی جماعت اپنے پارٹی فنڈ سے دیے جانے والے اشتہارات اپنے من پسند میڈیا گروپس میں بانٹتی ہے تو یہ اس کی اپنی مرضی اور منشا ہے۔ لیکن عوام الناس کے خون پسینے کی کمائی سے دیے جانے والے ٹیکس کی رقم سے چھپنے والے اشتہارات کی بند ر بانٹ پر پابندی ہونی چاہیے۔ سرکاری اشتہارات کو صحافت کشی کا ہتھیار بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔

۔ ۔
ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments