اسکی آنکھوں کا کاجل


ان دنوں اس کی اداسی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ شاید وہ اپنے اندر کے درد کو سمیٹ نہیں پا رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ میں اس کی اداسی چھلکتی تھی۔ جس کو وہ اب مصنوعی قہقہوں میں بھی چھپا کر کامیاب نہیں ہوتی تھی یا شاید اب وہ اچھی اداکارہ نہیں رہی تھی۔ مجھے اس روز پہلی بار معلوم ہوا لڑکیاں آنکھوں میں کاجل صرف خوشی کے وقت نہیں لگاتیں وہ تکلیف کے آخر مراحل میں بھی لگاتی ہیں۔ کاجل کون سا صرف حسن سے منسلک ہے۔ آنکھوں کا کاجل تو درد چھپانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اس روز اس کے باغ میں دو نئے پھول کھلے تھے جن کو دیکھ کر وہ اپنی زندگی میں بہار کی طلبگار بننے میں پھر محو ہوجاتی تھی۔ اس روز پرندوں کی آوازیں بھی خوشی سے چہک رہی تھیں۔ اور آس پاس پھرنے والے ہر جاندار پر بہار کا اثر ہو رہا تھا سوائے انسانوں کے ، اس باغ کے انسان آج بھی خزاں کے مکین تھے۔ بہاریں ان کو دور سے ہی دیکھ کر واپس لوٹ جاتی تھیں۔ ان انسانوں میں اس شوخ و چنچل لڑکی کا بھی شمار تھا جو اس وقت اپنی زندگی میں اپنے درد چھپانے کے لیے کاجل کا سہارا لیتی تھی۔

کبھی کبھی مجھے اپنی زندگی کسی پرانے درخت کی مانند لگتی ہے۔ جسے ایک ہی جگہ پر کھڑے رہنا ہے۔ آنے والے ہر راہ گیر کو سکھ دینے کی وجہ بننا ہے روحی کی آنکھوں میں اداسی نمایاں تھی شاید آنکھوں سے محروم شخص بھی اس کی آنکھوں کا درد محسوس کر پاتا۔ کیونکہ درد محسوس کرنے کے لیے احساس کی نگاہ کا ہونا ضروری ہے۔ فریحہ اسے اپنی شادی کا دعوت نامہ دینے آئی تھی۔ وہ اسی باغ میں بیٹھی ایک دوسرے سے ہم کلام تھیں جہاں سے ان کی دوستی کا آغاز ہوا تھا۔ شادی بیاہ پر روشنیاں بہت نمایاں مقام رکھتی ہیں لیکن ان شاندار بتیوں سے ہمارے اندر کے اندھیرے کبھی نہیں ختم ہوتے۔

فریحہ کی شادی کا دن کسی خواب سے کم نہیں تھا۔ اس کے لیے شادی کی تقریب اتنی اہم تھی جتنا روحی کے لیے اس کا درد۔ درختوں کو تو پانی مل جاتا ہے مالی بھی لیکن میں ایک ایسا درخت ہوں جس کی دیکھ بھال کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ روحی ایک بار پھر سے مایوس تھی۔ میری روح کے چھالے کبھی نہیں بھرتے۔ اس درخت کے پیلے پتوں کی طرح۔ مجھ پر بھی کبھی بہار کا اثر نہیں ہوتا۔

خزاں سے میرا رشتہ انتہائی گہرا ہے۔ روحی کی آنکھیں بھیگ گئی تھی۔ فریحہ بے بسی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو اس کے رخسار پر مسکرانے لگے تھے۔ ایسے جیسے ان آنسوؤں کا بھی اس کی آنکھوں سے جدا ہونے کو دل نہیں کرتا۔ مجھے کبھی کبھی لگتا تھا کسی روز مجھے کوئی کاٹ دے گا اس پرانے درخت کی طرح۔

میرا قصہ بھی تمام ہو گا۔ میں مٹی تلے ہوں۔ گی۔
اور میرے درد کی وجہ یہ دنیا مٹی کے اوپر۔
اور مجھے تو کوئی آواز بھی نہیں دے گا۔

لوگ مجھے بھلا دیں گے۔ دفن کر کے ایک نئی دنیا بنا لیں گے۔ اور میں مٹی تلے دب کر بھی اپنے غم مٹا نہ سکوں گی۔ صبح بوقت پانچ بجے کا وقت ہوتا ہے۔

الارم بجتا ہے۔ فریحہ ڈر کر آنکھ کھولتی ہے۔ شاید وہ خواب ہی اتنا بھیانک تھا فریحہ کا خوف زدہ ہونا بنتا تھا۔ کیا روحی آنکھوں میں کاجل اپنا غم چھپانے کے لیے لگاتی تھی؟ کیا وہ پرانا درخت ہے؟

کیا اس کی زندگی کے سنہرے رنگ بھی اندر سے پھیکے ہیں۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا تھا اور ذہن میں انتہائی خوف۔ یہ دن فریحہ کی زندگی کا دردناک دن تھا۔ فریحہ نے ہمت کر کے روحی کے گھر فون کیا۔ کچھ دیر تو کوئی نہیں بولا مگر چند لمحات جو فریحہ کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھے۔ اصغر چاچا مخاطب ہوتے ہیں اور جنازے کی اطلاع دیتے ہیں۔ روحی کو کسی نے پرانے درخت کی طرح کاٹ دیا تھا۔ اس کی زندگی کی ڈور کٹ گئی تھی اور وہ حقیقتاً اپنی زندگی کی بہار دیکھے بغیر ہی دنیا سے کوچ کر گئی تھی۔ اور مرتے وقت بھی اس کی آنکھوں میں کاجل تھا۔ شاید وہ اس دنیا سے جاتے ہوئے بھی اپنے دکھوں کا اعتراف نہیں کرنا چاہتی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments