روداد سفر حصہ 13: چین میں ایغور اور دوسرے مسلمانوں کا رویہ


چائنا کا شہر ایوو ، جہاں بہت بڑا کاروباری مرکز بنا اور مختلف ملکوں سے کاروبار کرنے والوں کو کھینچ لایا، وہیں بہت سی قباحتیں بھی اپنے ساتھ لے آیا۔ میرے دوست عثمان اور ان کے بھائی نوید جن کا تعلق بھی ٹیکسلا ہی سے تھا، کے ایک کسٹمر تھے حمید صاحب، جن کا تعلق کراچی سے تھا، وہ انتہائی نفیس انسان اور باریش تھے۔ وہ جس سڑک سے گزر کر اپنے رہائشی ہوٹل جاتے تھے وہ گلی مساج سنٹرز سے بھری ہوئی تھی اسے آپ راولپنڈی کی قصائی گلی سمجھ لیں۔ ان کی رہائش کے ہوٹل کے لیے یہ شارٹ کٹ راستہ تھا اور سنسان بھی نہیں ہوتا تھا۔

وہاں اس روڈ پر سامنے سامنے تو باربر شاپس تھیں لیکن اندر لڑکیاں اور دروازے پر نائکہ بیٹھی ہوتی تھیں، جو سڑک پر آنے جانے والوں کو اشاروں کنایوں میں دعوت دیتی تھی۔ ایک دن عثمان کے کسٹمر حمید صاحب نے عثمان سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ ہوٹل تک چلیں۔ عثمان تیار ہو گئے اور دونوں پیدل چل پڑے۔ اس گلی سے گزرے تو ایک نائکہ کے پاس حمید صاحب عثمان کو لے گئے اور عثمان سے کہا کہ اس سے کہو کہ یہ مجھے ایسے ہی آوازیں نہ دیا کرے اور ایسے اشارے نہ کیا کرے، مجھے بہت برا لگتا ہے۔

عثمان نے یہ بات چائنیز میں اس خاتون نائکہ سے کہی تو وہ بہت شرمندہ ہوئی اور معذرت کی لیکن ساتھ یہ جملہ بھی کہا کہ ہمارے پاس آنے والے اکثر اسی حلیے کے ہی ہوتے ہیں۔ میں سمجھی یہ بھی ایسے ہی ہیں۔ یعنی اس نائکہ کے خیال میں یہ حلیہ اسے یہ باور کرواتا ہے کہ اس کا گاہک آ گیا ہے۔ یعنی کیا یہ بات ہمارے ہاں بھی صرف حلیے ہی تک رہ گئی ہے۔ تعلیمات کے حوالے سے ہم بھی کورے ہی ہیں۔ یا دین کو صرف ہم نے خود کو چھپانے کے لیے رکھا ہوا ہے۔ جہاں اس کی ضرورت پڑی اس کا نقاب ڈال لیا جہاں نہ پڑی یہ نقاب اتار کر جیب میں رکھ دیا۔

ترک نسل کے چائینز مسلمان بھی بہت بڑی تعداد میں ایوو میں موجود ہیں جو زیادہ تر سیخ کباب یا نان بیچتے ہیں ان میں مرد و خواتین سبھی شامل ہیں۔ لیکن ایک روز میرے لیے عجیب معاملہ ہو گیا۔ میں پیدل مارکیٹ کی طرف جا رہا تھا کہ ترک نسل کے چائنیز دو نوجوانوں کو ایک خاتون کے پرس سے موبائل اور پیسے نکالتے دیکھا۔ یعنی وہ جیب کترے تھے اور یہ ترک نسل کے چائینز مسلمان ایغور کہلاتے ہیں۔ ان کی خواتین کالے رنگ کا عبایہ پہنتی ہیں اور چہرہ چھپاتی ہیں۔ وہ جس دکان میں یہ داخل ہو جائیں وہ چوکنے ہو جاتے کہ کچھ نہ کچھ چھپا لیں گی۔ یعنی مشکوک اور انتہائی جھگڑالو کہلاتی ہیں۔

پھر اس کے بعد بھی کچھ اور ایسے واقعات میرے علم میں آتے رہے۔ شاہد صاحب جن کا تعلق لاہور سے تھا اور زپ، بٹن کا کام کرتے تھے مجھے ملے اور بتایا کہ رات کو وہ روڈ پر اکیلے جا رہے تھے کہ دو ایغور لڑکوں جن کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی نے چاقو دیکھا کر ان سے پیسے اور موبائل چھین لیا۔ میں ان کے ساتھ تھانے گیا انہوں نے رپورٹ بھی لکھی اور بعد میں کال بھی کی اور شناخت پریڈ بھی لیکن یہ وہ نہیں تھے۔ یہی چوری کے موبائل بعد میں وہیں یہ خود سڑکوں پر بیچ رہے ہوتے ہیں اور بیچتے وقت بھی چھپا کر دکھاتے ہیں اور دیتے وقت پیسے لے کر کھلونا موبائل پکڑا دیتے ہیں۔ ان موبائل کے علاوہ یہ لیب ٹاپ بھی ایسے ہی بیچ رہے ہوتے جو گھر پہنچ کر کچھ اور ہی نکلتے۔

یہ سمپل تھے اس مذہب کے ماننے والوں کے جنہیں اخلاق کا اعلی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا کہ دیکھنے والے خدا کے سچے دین کا تعارف ان سے حاصل کریں۔

ان سب باتوں کی موجودگی میں ایک احساس تھا کہ یہ ایغور مسلمان ایک قسم کی احساس کمتری اور خوف کا شکار ہیں۔ اس احساس کمتری کا اظہار یہ اپنے غصے سے کرتے ہیں۔ یہ اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجتے اور اکثر اپنی بچیوں کی شادیاں جلدی کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ اکثر طلاق ہی کی صورت میں نکلتا ہے لیکن یہ اپنی طرف سے مطمئن ہیں کہ ایک فرض تھا جو ادا کر دیا۔ اکثر اوقات تو یوں ہوتا کہ جب ایک خاتون دوسری سے ملتی تو یہ پوچھتی کی آج کل کس کے نکاح میں ہو۔

عورتیں ان طلاقوں کے بعد بچوں کی اور اپنی روزی روٹی کا بندوبست خود ہی کرتی ہیں۔ میں نے ایک دن سیخ کباب بیچنے والی ایغور سے پوچھا کہ تمہارے بچے سکول نہیں جاتے تو بڑے ہو کر کیا کریں گے۔ اس نے جواب دیا لڑکے سیخ کباب یا نان بیچیں گے اور لڑکیاں کلبوں میں ناچیں گی۔ واللہ عالم یہ بات اس نے طنزاً کہی یا حقیقتاً۔ ویسے یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے کہ جب ایوو شہر میں قحبہ گری پر پابندی لگی تو سب کے خلاف ایکشن ہوا جن میں چائنیز اور غیر ملکی بھی شامل تھیں لیکن ان ایغور لڑکیوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوا بلکہ انہیں کھلی اجازت تھی۔

یہ ایک الگ بات ہے کہ یہ اس پیشے میں کیسے آئیں اور کن حالات سے دوچار ہیں۔ بلکہ میرے خیال میں زیادہ تر وہی ہیں جن کو ان کے شوہروں نے طلاق دے دی اور وہ اپنے بچے خود ہی پال رہی ہیں اور کوئی ہنر اور تعلیم ان کے پاس ہے نہیں اس لیے یہی کام کرتی ہیں۔ شاید یہ مغربی تعلیم سے نفرت کا ایک تصور ہے یا یہ خوف کہ گورنمنٹ کے سکولوں میں کمیونزم کی تعلیم دی جاتی ہے اس لیے والدین کو بچوں کے ایمان کا خطرہ رہتا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے ہماری یہ کمزوری بھی ہے کہ ہم نے اپنے عقائد کو دلائل کی بنیاد فراہم کی ہی نہیں کہ وہ اپنا بچاؤ کر سکیں بس روایتی مسلمان ہیں جو اس لیے مسلمان ہیں کہ ان کے باپ دادا مسلمان تھے۔

یعنی مذہب کو ایک آبائی چیز بنا لیا۔ ریاست کی سخت پالیسی کی وجہ سے یہ لوگ انتہا کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ترکی پہنچ جائیں لیکن انہیں پاسپورٹ ایشو نہیں کیے جاتے۔ اس کے لیے یہ لڑکیاں کوشش کرتی ہیں کہ کسی غیر ملکی سے شادی کر لیں تاکہ وہ کم ازکم اس بنیاد پر پاسپورٹ لے سکیں۔ ان علاقوں میں جو سالوں سے غیر مسلم مسلمانوں کے ساتھ رہ رہے ہیں وہ بھی بلا جھجک انشاء اللہ اور اللہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یہ کلچر کا اور اکثریت میں رہنے کے اثرات ہیں۔

اس کے علاوہ اور بہت سے چائینز نسل کے مسلمان بھی ہیں جنہیں ہوئی ( Hui ) کہا جاتا ہے۔ ان میں کچھ وہ ہیں جو سنٹرل ایشیا سے ہجرت کر کے آئے اور یہیں رہ گئے ان کی زیادہ آبادی کانسو ( gansu ) صوبے چھن ہائی ( qinghai) صوبے اور ننشاہ ( ning xia) صوبے میں ہے۔ یہ لوگ کسی حد تک ابھی تک اپنی شناخت، چاہے علامتی ہی ہو بچائے ہوئے ہیں۔ شناخت سے میری مراد اسکارف اور ٹوپی ہے اس کے علاوہ بھی یہ مذہب کے معاملے میں حساس ہیں۔

اور دوسری طرف وہ ہیں جو کسی دور میں سمندر کے راستے عرب چائنا تجارت کے سلسلے میں آئے اور یہیں رہ گئے۔ ان میں گوانزو (Guangzhou) شہر اور فوجیان ( Fijian ) صوبے میں رہتے ہیں۔ یہ بہت حد تک گم ہو چکے ہیں۔ آپ کو کئی ایسے نوجوان مل جائیں گے جو کہیں گے کہ ان کے دادا مسلمان تھے وہ نہیں۔ یہ کافی تعداد میں نان مسلم سے شادیاں بھی کر چکے ہیں۔ مسلمانوں کی کافی تعداد کی چائنا میں دوبارہ آمد و رفت نے مسلمانوں کے اندر اپنی شناخت کے احساس کو اجاگر کیا ہے۔

لیکن جو امیج یہ غیر ملکی مسلمان دے رہے ہیں وہ بھی منفی اثرات ہی چھوڑتا ہے۔ فیوجان ( Fijian ) صوبے میں ایک میوزیم بنایا گیا جس میں عربوں کی چائنا آمد اور تجارت کو تصویری زبان میں دکھایا گیا۔ اور گوانزو ( Guangzhou ) شہر میں مسلمانوں کا ایک قبرستان ہی جہاں بقول ان کے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ مدفون ہیں۔ دو ہزار ایک سے پہلے یہ صرف قبرستان تھا اور مزار پر دو بوڑھے صفائی کے لیے ہوتے تھے باقی اونچی گھاس بعد میں یہاں مسجد بنائی گئی اور یہ مسجد ہے جو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ کے نام سے مشہور ہے۔

وہاں بھی پاکستانی سبز اور سفید پگڑی کا جھگڑا نظر آئے گا۔ ایک محترم کراچی کے اور دوسرے لاہور کے ہیں۔ یعنی یہاں بھی یہ قبضے کی لڑائی لے کر آ گئے۔ یہ لڑائی بھی بزنس کی ہے کہ جس کا قبضہ ہو گا وہ مجاور بن کر بیٹھے گا اور غیر ملکی جو عقیدت لے کر اس مزار پر آتے ہیں مجاور کو کچھ نہ کچھ دے جاتے ہیں۔ دوسرے یہاں پر بیٹھے دیکھیں گے تو پارسائی کا ایک تصور وہ لیں گے اور اعتماد پیدا ہو گا جس سے ہو سکتا ہے کچھ کام کاروبار بھی دے دیں۔

ایک اور بھی بہت پرانی مسجد ہے جو رنمنگ روڈ پر ہے ( Renmin Lu ) پر ہے جہاں دو ہزار ایک سے پہلے جمعہ پڑھنے کے لیے صرف دو تین ایغور مسلمان اور ایک دو غیر ملکی ہوتے تھے اور نماز بھی صرف جمعہ ہی کی ہوتی تھی۔ اسی روڈ پر ایک چھوٹی مسجد بھی ہے۔ مقامی مسلمان سارے تقریبا گم ہو گئے۔

اس کے علاوہ قرآن مجید کا صحیح زبان و بیان کے حوالے سے ترجمہ و تعلیم کی شدید ضرورت ہے اور مذہب اور کلچر اور فقہ و شریعت کو الگ کر کے سمجھنے کی شدید ضرورت ہے۔ میں نے ایک دن مارکیٹ میں ایک چائنیز کے پاس چائنیز زبان میں تفسیر ابن کثیر دیکھی اور میری خواہش ہوئی کہ یہ اسے نہ پڑھے کیونکہ اس میں سب جھوٹی سچی روایات اکٹھی کی گئی ہیں اس نے ایک غیر مسلم پر کیا اثرات چھوڑنے ہیں۔ وہ ذہن میں یہی سوچتا ہو گا کہ ایسی کہانیاں تو ہمارے ہاں بدھ ازم، تاؤ ازم، کنفیوشس ازم کے میں بے شمار موجود ہیں تو پھر ان نئی کہانیوں کو یاد کرنے کی بجائے وہی ٹھیک ہے جو بچپن سے میں پڑھتا رہا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments