سیاسی جنگ پارلیمان تک ہی محدود رکھیں


”حیران ہوں کہ روؤں یا پیٹوں جگر کو میں“ ۔ غالبؔ کا یہ مصرعہ عمران حکومت کے دومستعد، متحرک اور وفادار وزراء کی یہ تجویز سن کر یاد آیا ہے جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو وہ ”چٹھی“ بھیجنا چاہ رہی ہے جس کے ذریعے وزیر اعظم صاحب کو دھمکی دی گئی ہے کہ ”اپنا رویہ بدلو۔ ورنہ۔“

عمران خان صاحب نے مبینہ خط کا ذکر اتوار کی شام اسلام آباد میں جمع ہوئے اپنے حامیوں کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ مذکورہ خط کی محض جھلک دکھاتے ہوئے انہوں نے یہ بتانے سے البتہ گریز کیا کہ وہ کون سے ملک یا ممالک کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔ اس کے ذریعے عمران خان صاحب کی کون سی ”خطاؤں“ کا ذکر ہوا جس نے اب تک خفیہ رکھی طاقتوں کو ناراض کر دیا ہے۔

میں اس بحث میں ہرگز نہیں الجھنا چاہتا کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کو ”دھمکی آمیز“ چٹھی وصول ہوئی ہے یا نہیں۔ ان کے ناقدین اگرچہ اصرار کر رہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے وہ ”دھمکی آمیز خط“ کو ڈھال کی صورت استعمال کرنا چاہ رہے ہیں۔ خارجہ امو ر کی بابت رپورٹنگ پر عمر عزیز کی دو سے زیادہ دہائیاں خرچ کرنے کی وجہ سے اگرچہ مصر رہوں گا کہ ریاستیں ایک دوسرے کو چٹھیاں لکھ کر دھمکیاں نہیں دیا کرتیں۔ اپنے اقدامات سے مخاصمت کا اظہار کرتی ہیں۔

کوئی خط لکھے بغیر مثال کے طور پر امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ نے عمران حکومت سے اپنی دوری کو چند ٹھوس رویوں سے عیاں کیا ہے۔ نئے امریکی صدر کو اپنا منصب سنبھالے 15 سے زیادہ مہینے گزر چکے ہیں۔ جو بائیڈن نے اس کے دوران عمران خان صاحب کو خیرسگالی والا فون تک نہیں کیا۔ حالانکہ افغانستان کے تناظر میں اسے ہمارے وزیر اعظم کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا چاہیے تھا۔

عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ یعنی آئی ایم ایف کئی حوالوں سے امریکہ کا طاقت ور ترین معاشی ہتھیار بھی ہے۔ اس ادارے کا رویہ ان دنوں ہمارے ساتھ ہرگز ہمدردانہ نہیں۔ ہم پر بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمت بتدریج بڑھانے کا دباؤ ہے۔ اسے مطمئن رکھنے کو وزیر خزانہ شوکت ترین منی بجٹ پیش کرنے کو مجبور ہوئے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے آئی ایم ایف سے آئے گورنر رضاباقر کو بھی باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے ویسے ہی اختیارات فراہم کردیے گئے ہیں جو ہمارے خطے میں برطانیہ کی حکمرانی کے دوران ”وائسرائے“ کے لئے مختص ہوا کرتے تھے۔ منی بجٹ اور سٹیٹ بینک کے گورنر کو اختیارات فراہم کرنے کے لئے ہوئی قانون سازی کے دوران شوکت ترین صاحب نے ایک ٹی وی انٹرویو کے ذریعے کھل کر بیان کر دیا تھا کہ وہ جن دنوں زرداری۔ گیلانی حکومت کے لئے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیا کرتے تھے تو مذکورہ ادارے کا رویہ ”دوستانہ“ تھا۔ اب کی بار مگر ”بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں۔“

”دھمکی آمیز خط“ کی حقیقت کو زیر بحث لانا آج کے کالم کا موضوع نہیں۔ میں پریشانی کی حد تک حیران سینئر وزراء کی یہ تجویز سن کر ہوا ہوں کہ مبینہ خط سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو بھجوادیا جائے۔ سپریم کورٹ کا بنیادی فریضہ وطن عزیز میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ ہماری قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں تو مسلح افواج اور قومی سلامتی کے نگہبان دیگر ادارے اس سے نبردآزما ہونے کے ذمہ دار ہیں۔

اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں تو ”دھمکی آمیز“ خط ملتے ہی وزیر اعظم عمران خان صاحب کو فی الفور کابینہ کی قومی سلامتی کے امور پر نگاہ رکھنے والی خصوصی کمیٹی کا اجلاس طلب کرنا چاہیے تھا۔ وہاں مذکورہ خط کے مندرجات کو زیر بحث لاتے ہوئے کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنا چاہیے تھی۔

میرے اور آپ جیسے 22 کروڑ عام پاکستانی بنیادی حقوق سے مالا مال ”شہری“ نہیں حکمران اشرافیہ کی ”رعایا“ ہیں۔ ہمارے ہاں مگر مبینہ طور پر ”سب پہ بالادست“ ”منتخب پارلیمان“ بھی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں امور خارجہ پر نگاہ رکھنے کو دو خصوصی کمیٹیاں بھی موجود ہیں۔ بہتر تو یہی تھا کہ کابینہ کی قومی سلامتی کے امور پر نگاہ رکھنے والی خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے بعد حکمران حکومت مذکورہ خط کو ان کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس کے روبرو پیش کرتی۔ حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کو مذکورہ کمیٹیوں میں بھرپور نمائندگی میسر ہے۔ ہمارے نام نہاد ”نمائندوں“ کو ”دھمکی آمیز خط“ کی وجہ سے وطن عزیز پر چھائے خطرات کے بادل منڈلاتے نظر آتے تو شاید وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔

”دھمکی آمیز خط“ کی تفصیلات کو سفارتی تقاضوں کی وجہ سے خفیہ رکھنا ہی مقصود تھا تو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے سربراہ شہباز شریف صاحب کو وفاقی کابینہ کی خارجہ امور پر نگاہ رکھنے والی کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں شمولیت کی دعوت دی جا سکتی تھی۔ مسلح افواج کے سربراہان اور قومی سلامتی کے نگہبان بھی مذکورہ کمیٹی میں مدعو کیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم مگر شہباز شریف کو ”مجرم“ شمار کرتے ہیں۔ ان سے ہاتھ ملانے کو بھی آمادہ نہیں۔

قومی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانے والے اداروں کے ہوتے ہوئے بھی ”دھمکی آمیز خط“ کو سپریم کورٹ کے عزت مآب چیف جسٹس صاحب تک پہنچانے کی تجویز مجھ جیسے بے اختیار پاکستانی کے دل میں جو تاثر اجاگر کرے گی میں اس کا سرسری ذکر کرتے ہوئے بھی گھبرا رہا ہوں۔ یاد رہے کہ ان دنوں سپریم کورٹ ایک صدارتی ریفرنس کی سماعت میں مصروف ہے۔ مذکورہ ریفرنس کے ذریعے عمران حکومت یہ چاہ رہی ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت یہ طے کردے کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے دوران حکومتی جماعت سے لاتعلق ہوتے والے ارکان اگراپوزیشن کی حمایت میں ووٹ ڈالیں تو آئین کے آرٹیکل 63۔ Aکے تحت کسی بھی انتخاب میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نا اہل ہوجائیں۔ فرض کیا ”دھمکی آمیز خط“ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے روبرو پیش ہوا تو وہ یہ سوچنے کو بھی مجبور ہوسکتے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد درحقیقت پاکستان کے ازلی دشمنوں کی رچائی سازش کا شاخسانہ ہے۔ وہ اس کی وجہ سے 63۔ Aکی ویسی ہی تشریح فراہم کرنے کو آمادہ ہوسکتے ہیں جس کی عمران حکومت بے تابی سے طلب گار ہے۔ ایسا ہوا تو ہماری معزز ترین عدالت خلق خدا کے لئے موجودہ حکومت کو ”سیاسی مدد“ فراہم کرتی نظر آئے گی۔ خدارا ایسی فضا بنانے سے گریز کیجئے۔ سیاسی جنگ کو اس کے اصل میدان یعنی پارلیمان تک ہی محدود رکھیں۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments