گوئبلز سے بڑا لیڈر


قریب مہینہ پہلے جب تحریک عدم اعتماد کی چاپ سنائی دی تو جس طرز کا ردعمل حکومتی ایوانوں سے نظر آیا وہ اعتماد سے کہیں زیادہ دل دہلا دینے ولا تھا۔ وزیراعظم کے قریبی رفقا نے ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے ہی تحریک پیش ہو گی انسانوں کا ایک سمندر اسلام آباد کی سڑکوں پر بپھرا ہوا پھر رہا ہو گا جن کے ہاتھوں میں برچھیاں ہوں گی اور پاسداران انقلاب کسی بھی منحرف ہونے کا سوچنے والے کا بھی گلا کاٹ کر سر سے فٹبال کھیلیں گے۔

دس لاکھ افراد کے مشتعل ہجوم کے نعرے لگانے والے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید جیسے ازل سے فساد کے رسیا بناسپتی عوامی راہنما ہی نہیں تھے بلکہ دھمکی وزیراعظم کے گھر کے اندر سے بھی آ رہی تھی۔ عمران خان کے رشتے کے بھانجے سابق اہلکار زبیر نیازی نے بھی وڈیو پیغام جاری کیا جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر کسی تحریک انصاف کے رکن پارلیمان نے انحراف کا سوچا بھی تو اس کا بھی گھیراؤ ہو گا۔ اور پھر انجام تو وہ خود جانتے ہیں۔

ایسا نہیں کہ کہ ہمیں محترم وزیراعظم کی حقیقی عوامی قوت کا ادراک نہیں، ہمیں وہ دن بھی یاد ہیں جب عمران خان مقبولیت کے سوا نیزے پر سوار دو ہزار چودہ کے دھرنے کو سجانے نکلے تھے تو آبپارہ مارکیٹ کی عام سے سڑک کو چند میٹر تک بھرنے کے لیے منہاج القرآن کے مدرسوں کی یرغمالیوں کی ضرورت پڑی تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ نیازی صاحب کا کل مارچ اتنا تھا کہ گوجرانوالا کی ایک ایم پی اے نے ٹھاٹھیں مارتے اس مارچ کو چالیس پچاس نوجوانوں کی مدد سے ایسا دوڑایا تھا کہ خان صاحب کے ڈرائیور نے گجرات کے چودھریوں کی پناہ میں پہنچنے کے بعد بریک لگائی تھی۔ اگر دو ہزار چودہ میں یہ حالت تھی تو آج جب مائیں بہنیں بیٹیاں جھولیاں اٹھا کر بددعائیں دیتی ہیں تو کون سا عوام کا سمندر نکل آنا تھا۔

لیکن مجھے تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ پھر بھی عدم اعتماد پر اس ابتدائی ردعمل سے خوف آیا تھا۔ مجھے آج بھی اسلام آباد میں کیل لگے ڈنڈے لہراتے اور سنگینیں پولیس اہلکاروں کو چبھوتے بلوائی یاد ہیں۔ مجھے پی ٹی وی کی سہمی ہوئی درجنوں خواتین کے چہرے آج بھی یاد ہیں جن کو تحریک انصاف کے پڑھے لکھے بلوائی طاہر القادری کی جنونی ملیشیا کے ساتھ درندگی کا نشانہ بنانے پر تلے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ پی ٹی وی کی نشریات جام کرنے کو تبدیلی سپاہ کی وہ فدائی مزاج نسل استعمال کی گئی جنہیں نفرت کے زہر سے سینچ کر انجینئرنگ یونیورسٹیوں سے ریاستی میڈیا پر دھاوا بولنے پر لگا دیا گیا تھا۔

مجھے وہ منظر یاد تھے جب جیو پر ہر شام بلوائیوں کا حملہ ہوتا تھا۔ جب قوم کے اجتماعی شعور کی علامت پارلیمان پر ٹرکوں کو ٹکرا کر یلغار کی گئی۔ جب سپریم کورٹ کے ترازو پر گندی شلواریں لٹکی ہوئی تھیں۔ ان سب کے باعث مجھے حکومتی ردعمل سے خوف آیا تھا کہ اب تو وزیراعظم کے گھر پر حملہ کرنے کے خواہشمند کے پاس ریاستی قوت بھی تو یہ اقتدار برقرار رکھنے کے لیے کس حد تک گزر جائے گا۔

لیکن

میرا خوف غلط ثابت ہوا بیساکھیوں اور انگلی پکڑ کر چلنے کے عادی محتاج مزاج فرد نے جب خود عدم اعتماد سے نمٹنے کی کوشش کی تو عدم اعتماد پیش ہونے پر ڈی چوک پر دس لاکھ سرفروشوں کے انقلابی کماندار کا رعب دبدبہ طنطنہ ڈی چوک کے عوامی ابال سے پریڈ گراؤنڈ کے ایک چوتھائی حصے میں سجے پنڈال میں سمٹ آیا۔ کہاں کشتوں کے پشتے لگا دینے کے اعلانات اور کہاں سسکیاں لے کے دس روپے کے کرنسی نوٹ جیسا صفحہ لہرانے کی سستی اداکاری۔ اور نوید انقلاب جلسے کی کوکھ سے پھوٹتا ایک خط کا دعوی جس میں بقول وزیراعظم انہیں کسی دشمن ملک نے لکھ کر دھمکی دی ہے کہ جناب وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان ہم آپ کے آفاقی نظریات کی روک تھام کے لیے علانیہ سازش تحریک عدم اعتماد کے ذریعے کر رہے ہیں خط کی رسید واپس بھیج کر ممنون فرمائیں۔

لیکن

اب ذرا ایک اور پہلو پر غور فرمائیں کیا دو تین دنوں سے وہی بھونڈا خط جو شکلیں بدلتا اب ایک سفارت خانے کی کیبل بن چکا ہے۔ کیا اس ہزاروں کیبلز جیسی کسی عام سی خط کتابت کو عمران خان پورے میڈیا کی مرکزی گفتگو نہیں بنا چکے؟ ہمیں ماننا پڑے گا کہ عمران خان اپنی تمام تر نا اہلیوں کے باوجود ایک سفید جھوٹ کو پورے اعتماد سے ابلاغی بازار میں ہاتھوں ہاتھ بیچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ پینتیس پنکچر جیسا ایک چورن بیچتے ہیں پھر علانیہ اس کے جھوٹے ہونے کا اعلان بھی کرتے ہیں لیکن کیا کمال ہے جس دعوے سے عمران خان خود علانیہ مکر گئے آج بھی ان کا کارکن سینے سے لگائے بیٹھا ہے۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تاریخ نے تعصب برت کر گوئبلز کو عمران خان پر فوقیت دی۔ ورنہ جیسے اپنے تینوں بچوں کی مستقل برطانیہ موجودگی کے باوجود زرداری جن کی تمام اولاد مستقل پاکستان ہے اور نواز شریف جن کی بیٹی پاکستان میں ہے کو ہر جلسے میں اولادیں بیرون ملک رکھنے پر لتاڑتے ہیں اور ان کا کارکن اس چورن کو خریدتا ہے یہ تاریخی طور پر گوئبلز سے کہیں بڑی شخصیت کہلوانے کے حقدار ہیں۔

جناب عمران خان کو بطور مضمون یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانا چاہیے کہ جس نے ایک پوری نسل کے ذہن میں ڈال دیا کہ تحریک انصاف سیاسی جماعت نہیں دائرہ ایمان ہے۔ ہر صحافی چاہے اس کے پاس ذاتی جہاز ہوں وہ پارسائی کا روشن استعارہ ہے اگر وہ خان کے ساتھ ہے ہر صحافی چاہے اس کے گھر فاقوں کے ڈیرے ہوں کرپٹ ہے اگر وہ خان کا مخالف ہے۔

حق تو یہ تمام اختلاف کے باوجود میں عمران خان کی اس صلاحیت کو تسلیم کرتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments