معراج محمد خان: تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے


یہ ایوب خان کے مارشل لاء کا ابتدائی دور تھا۔

سندھ مسلم کالج کے طلبا سندھ مدرسہ (ملحقہ سکول) میں ہڑتال کروانے کے لئے آتے تو سکول کی گھنٹی بج جاتی۔ میں بھی کچھ سکول کے طلبا کے ساتھ ہجوم میں شامل ہونے کے لئے باہر نکل جاتا۔ کالج کا ایک نوجوان ہجوم سے خطاب کرتا، تقریر ایسی کہ پورے مجمع کو سانپ سونگھ جاتا، جذبات سے بھری ہوئی اور الفاظ کا چن چن کر انتخاب۔ اس کے بعد ہجوم کانگو کی صورتحال کے خلاف اقوام متحدہ کے دفتر کی طرف مارچ کرتا، جہاں امریکہ ایک مقبول بائیں بازو کے رہنما لوممبا کے خلاف سرگرم عمل تھا، یا یہ جلوس جبل پور میں ہندو مسلم فسادات کے خلاف ہندوستانی ہائی کمیشن کے دفتر جاتا۔

یہ جلسے جلوس بائیں بازو کے طلبا کی طرف سے فوجی حکومت کے لئے براہ راست چیلنج تھے۔ جب سرکار کے لئے صورتحال ناقابل برداشت ہو گئی تو طلبا کے جیالے گروپ کو شہر کراچی چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن یہ بھی حکومت کے لئے مسئلہ بن گیا۔ یہ طلبا شہر شہر جاتے اور اپنی جادوئی فن خطابت کے ذریعے سامراجیت اور استحصال کے خلاف اپنا پیغام پھیلانے لگ گئے۔

یہی جیالا طالب علم رہنما بعد میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر بنا۔ تعلیم سے فارغ ہو کر سیاست میں عملی قدم رکھا اور جبر کے خلاف مزدوروں کی جدوجہد میں سرگرم ٹریڈ یونینسٹ بن گئے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ بلند کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو انہوں نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور ان کے قریبی ساتھی بن کر پارٹی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ سیاسی رہنما ان چند لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اس وقت کے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی جس کے نتیجے میں بالآخر ملک ٹوٹ گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کو 1971 میں وزارت کا قلمدان دیا گیا۔ اس درویش نے اس وقت بھی ایک سادہ زندگی گزاری جب وہ وفاقی وزیر تھے اور کبھی بھی بدعنوانی میں ملوث نہیں ہوئے۔

1973 میں کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے ہڑتالی کارکنوں پر فائرنگ کے بعد انہوں نے کابینہ سے استعفیٰ دے دیا اور حکمران جماعت کے خلاف ہو گئے۔ بھٹو نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا اور اس باضمیر سیاستدان نے بھٹو حکومت کے باقی سال جیل ہی میں گزارے۔ نئے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ضیاالحق نے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ لیکن وہ طویل عرصے تک جیل سے باہر نہیں رہ سکے کیونکہ بھٹو کا تختہ الٹنے والے فوجی آمر نے انہیں دوبارہ جیل میں ڈال دیا۔ بعد میں اسی فوجی آمر نے ان کو کراچی میں اردو بولنے والوں کی پارٹی بنانے کی پیشکش کی تاکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو کمزور کیا جائے۔ اس مرد آہن نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا۔ ”یقیناً اس سے آپ کو مدد ملے گی کیونکہ لوگ پھر آپ سے لڑنے کے بجائے ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیں گے۔“

پاکستان میں بائیں بازو کے زوال سے مایوس ہو کر بائیں بازو کی کچھ باقیات نے دیگر سیاسی جماعتوں میں پناہ لی۔ اس سیاستدان نے بھی اپنی نوزائیدہ پارٹی کو عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف میں ضم کر دیا۔ یہ شاید ان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی جس پر انہیں ہمیشہ افسوس ہوتا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف چھوڑنے پر انہوں نے 2003 میں پارٹی کے ساتھ اپنی مایوسی کو ایک کھلے خط کے ذریعے بیان کیا۔

اپنی زندگی کی شام میں یہ بنیادی طور پر ایک مفکر کی حد تک محدود ہو گئے تھے جو قومی مسائل کے بارے میں اکثر بات کرتے تھے لیکن انہیں کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں مل سکا جہاں سے وہ اپنے خیالات کو پھیلاتے۔ یقیناً یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے۔ اگر ان جیسے عوام دوست لوگ سیاست کے اولیں دنوں میں پیش آنے والے سیاسی واقعات میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو شاید آج ہم ایک خوشگوار مقام پر کھڑے ہوتے۔ بلکہ صرف یہی نہیں کہ ان کو چین دوستی کا نعرہ لگانے پہ غدار قرار دیا گیا کیونکہ چین اس وقت ایک حقیقی کمیونسٹ ملک تھا۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی اس محب عوام کو غدار کہنے والوں نے چین دوستی کو بے انتہا اہم جانا۔ اسی طرح اگر ان کی بات بنگالی زبان کے معاملے پر سنی جاتی تو مشرقی پاکستانیوں کے ذہنوں میں علیحدگی کا تصور نہیں پیدا ہوتا۔ کاش! ہم ان لوگوں کو غدار کہنا بند کر دیں جن کی رائے ہم سے مختلف ہو۔

معراج محمد خان پاکستان کا ایک بہت قیمتی اثاثہ تھے۔ وہ ایک عظیم ڈیبیٹر، اول درجے کے خطیب، دل سے سوشلسٹ اور ہر شخص کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کے حقوق پہ یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے ضمیر کو نہیں بیچا بلکہ عمر کا بہت بڑا حصہ لوہے کی سلاخوں اور اونچی دیواروں کے پیچھے نظر بندی میں گزار دیا۔ اس پہ افسوس یہ ہے کہ اس قوم نے انہیں کتنی جلدی بھلا دیا محض اس لئے کہ وہ ایک سوشلسٹ رہنما تھے۔ ساقی فاروقی نے ایسے ہی لوگوں کے لئے یہ شعر کہا ہے۔

یہ کہہ کے ہمیں چھوڑ گئی روشنی اک رات
تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments