کل میں یہاں نہیں ہوں گا: وزیر داخلہ شیخ رشید


اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب اظہر من اللہ نے نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگانے والے بلوچ طلبہ کی شکایت سنی۔ بلوچ طالب علم محمد عبداللہ نے ان حقائق کو تفصیل سے بیان کیا جن کی بنیاد پر یہ تاثر پیدا ہوچکا تھا کہ طلبہ کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے میں سرکاری ادارے ملوث ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آج عدالت کے سامنے جو حقائق آئے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ تاثر اور خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ خصوصاً بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو وفاقی حکومت کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ بعد ازاں عدالت نے وزیر داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ 31 مارچ کو بلوچستان کے متاثرہ طلبہ سے ملاقات کریں اور ان کی شکایات سنیں۔

اس ملاقات کی روداد بیان کرتے ہوئے وکیل اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ایمان زینب حاضر مزاری نے بتایا کہ وہ جب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید سے ملنے گئیں تو انہوں نے کہا کہ ان سے ملنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ کل یہاں نہیں ہوں گے۔

ایمان زینب نے ٹویٹر پر مندرجہ ذیل بیان دیا

”ہمیں کل رات اطلاع ملی کہ بلوچ طلباء وزیر داخلہ سے دوپہر 2 بجے ملاقات کریں گے۔ آج، ہمیں صبح 10.30 بجے ایک کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ ہم ایک گھنٹے میں پہنچ جائیں۔ جب ہم پہنچے تو ہمیں وزیر داخلہ سے ملنے کے لیے لے جایا گیا۔ جب طلبہ اپنی آزمائش بیان کر رہے تھے تو وزیر داخلہ ہنستے ہوئے کہتے رہے کہ وہ کل یہاں نہیں ہوں گے اس لیے ان سے ملنے کا کوئی فائدہ نہیں، حالانکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملاقات کا حکم دیا تھا۔ “

”جب میں نے معاملے کی سنجیدگی پر بات کرنا شروع کی تو وزیر داخلہ نے مجھ سے کہا کہ اس معاملے کو ان کی بجائے میں اپنی والدہ (وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری) کے پاس لے جاؤں۔ یہ بلوچستان کے طلباء کی طرف وزیر داخلہ کی سنجیدگی کا درجہ ہے۔“

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments