حارث خلیق :حیراں سر بازار


حارث خلیق کی شاعری کی نئی کتاب ”حیراں سر بازار“ نے میری رات کی نیند خراب کر رکھی ہے۔ دن میں پڑھنے کا موقع نہیں ملتا اور رات کو پڑھ کر سویا نہیں جاتا چونکہ مجھے فاقہ زدہ نو سال کا یتیم موچھا استاد سے پٹتا، پرانی مار کے نشان پر دوسری چوٹ کھاتا نظر آتا ہے، میں نے اسے یا اس کے کسی بھائی کو کراچی کے ایک پٹرول پمپ پر تھپڑ کھاتے کبھی دیکھا تھا، اور اب بھی میں اس ننھے مزدور کو نہ بچا سکنے پر شرمسار ہوں، مجھے ”ندیم احسن“ کی طرح ہر ہر بات پر غصہ آنے لگا ہے۔

”خمیسو“ مانجھی کے پسینے اور اس کی بیٹی کے آنسوؤں کا نمک منہ کا مزا کڑوا کر دیتے ہیں اور یہ اندوہناک احساس کہ ”سلامت ماشکی“ کے ڈھائی مرلے کے گھر سے اٹھتے شعلے بجھانے کے لیے ہمارے سماج میں پانی نہیں رہا ہے۔

حارث نظمیں کہاں لکھتا ہے، وہ تو مرثیے لکھتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے لوگوں کے۔ ان لوگوں کے جنہیں دنیا کچھ نہیں سمجھتی لیکن حارث ان کی زندگیوں کو ”بڑے“ لوگوں کی طرح اہمیت دیتا ہے۔ اسے ان انپڑھ لوگوں کی زندگیاں بھی خیال و خواب سے معمور نظر آتی ہیں۔ ایشور کمار کے جلتے ہوئے خیال جو صرف معدے کو جلا دینے والی کچی شراب ہی بجھا سکتی ہے۔ بھورے چمڑے کی رستی مشک میں پانی بھر کر بیچنے والا سلامت ماشکی مسافر کو مفت میں پانی پلاتا ہے، مسیحی ہے لیکن محرم میں حسرت سے کہتا ہے کہ میں ہوتا تو وہاں دور دراز سے مشک بھر بھر کر پہنچاتا۔ اس کے گھر کے جلنے میں صرف اس کا اثاثہ چاول دال اور بے روغن صلیب ہی نہیں رحم دلی اور انسانیت کے اقدار بھی بھسم ہوتے نظر آتے ہیں۔

کہ اب ہم کسی پر ترس کھانے سے پہلے اس کے شناختی کارڈ کے اندراج دیکھتے ہیں۔ اور یہ پانی استعارہ ہے ان سوچوں کا، روایتی ( آبائی کھیتوں کا کنواں ) اور حکومتی رویے ( بلدیہ کا نل) جن کے فقدان سے اب ہم نفرت کے شعلوں کو بجھا نہیں پاتے۔

اس ایک نظم میں حارث کی لفظیات، ”کمیوں“ ، ”چنگڑوں، چوڑھوں، چماروں، نال بندوں، خشت مزدوروں، جنائی دائیوں، کنجروں اور مراثی“ سلامت ماشکی اور اور ان دوسرے افراد کا ہمارے معاشرے میں مقام متعین کرتی ہیں۔

ابا مرحوم تاسف سے بتاتے تھے کہ یوپی میں سادات کے جس گاؤں میں وہ پلے تھے وہاں گلی میں گزرتی اچھوت ہندو عورتیں اپنے گھاگرے اور اوڑھنیاں سمیٹ کر اپنے آپ کو دیوار سے پیوست کر دیتی تھیں کہ کہیں ان کے لباس کے مس ہونے بلکہ ان کا سایہ پڑنے سے میرے اجداد ناپاک نہ ہو جائیں۔ امی مرحومہ آواز دبا کر بتاتی تھیں کہ پانی پت میں کسان، مزدور، کہار، جولاہے، نائی، ڈوم اور غالباً دوسرے اہل حرفہ کمین کہلاتے تھے۔ لیکن وہ فخریہ کہتی تھیں کہ ان کے باپ نے کبھی یہ لفظ زبان سے نہیں نکالا اور ان کو اپنی اولاد سے چچا یا خالہ کہلوایا۔

ماموں جان، خواجہ احمد عباس نے اپنی سوانح عمری ”جزیرہ نہیں ہوں میں“ میں پانی پت کی ایک بوڑھی جولاہن کا ذکر کیا ہے جسے وہ نانی حکو کہتے تھے اور اپنے دادا خواجہ غلام عباس کا جنہوں اپنی زمینوں میں خود ہل چلائے، پانی پت کے ”اشرافیہ“ جو اس کو کسر شان سمجھتے تھے ان کے لیے مثال بننے کے لیے۔ یعنی بہت کوششیں صاحبان نظر نے کی ہیں اس انسانی تقسیم کو ختم کرنے کی۔

وقت گزر گیا لیکن ہماری بد دماغی کی بازگشت ختم نہیں ہوتی۔ دیہاتوں میں تو اب بھی کمی کا لفظ اور اس کے مترادف لفظ استعمال ہوتے ہیں لیکن کراچی میں چاہے یہ لفظ استعمال نہ ہو لیکن یہ خناس دماغوں سے نہیں نکلا ہے۔

نظم ”صابرہ نورین“ یاد دلاتی ہے کہ لونڈیوں باندیوں کے زمانے لد گئے لیکن گھر میں کام کرنے والے نوکروں کے لیے سولہ گھنٹے روز کا کام روا رکھا جاتا ہے۔ ایک بہت مشہور افسانہ نگار نے لکھا ہماری ڈومنی کی بیٹی پاکستان میں بڑی سٹار بن گئی!
بھئی قرب قیامت ہے، پاؤں کی جوتی سر کو آنے لگی۔ دراصل موسیقی، گائیکی یا رقص کو اپنی زندگی بنانے والوں کو ہمارے ”اشرافیہ“ اپنی تفنن طبع کا ذریعہ سمجھتے ہیں کسی عزت کے قابل نہیں سمجھتے۔ لیکن حارث کی نظم ”رشیدہ ڈومنی“ میں اس گائیکہ کے گلے کا سوز ایک سے زیادہ تہذیبی روایات کی تانیں اس طرح بھرتا ہے کے پرندوں کی اڑانیں اونچی ہو جاتی ہیں اور رشیدہ ڈومنی جس کا سوگ صرف اس کو سننے والوں اور نائنوں اور دھوبنوں نے کیا تھا اس کی قبر پر کھلنے والے پھول کی پتی چبانے سے شاعروں اور گلوکاروں کے سینے بے کسوں کے درد سے معمور ہو جاتے ہیں

تو صاحبو ہمارے حارث نے وہ پتی چبا لی تھی۔ لیکن اپنے دیس کی اس رات میں اسے خوب علم ہے کہ ”سلاطین“ نے عوام سے جو خزانے چرائے ہیں وہ ایندھن ہیں اور شعلوں میں بدل سکتے ہیں اور
”ہمارے قدموں تلے جو لاوا ابل رہا ہے
اسے خود اپنے ہی سانچے میں ڈھالنا ہے
زمین کی کوکھ سے سورج نکالنا ہے ”
(نظم رات)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments