تحریک عدم اعتماد اور ضمیر فروشی!


ارض پاک میں اس وقت تحریک عدم اعتماد کا شور شرابا ہے اور ہر طرف سے مختلف داؤ پیچ استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو زچ کرنے کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں اور ایک جنگ کا سا سماں ہے اور ہر قسم کے جائز و ناجائز حربے استعمال کیے جا رہے ہیں اور یہ مشہور محاورہ کہ ”محبت اور جنگ میں سب جائز ہے“ کو سچ ثابت کرنے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں اور اپنے ماضی کے بیانات، نظریاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ہر قسم کے جمہوری اصولوں اور رویوں کو قربان کیا جا رہا ہے

اقبال کا ایک مشہور قول ہے کہ ”جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے“ یقینی طور پر اس طرح کی گندی روایات سے بھرپور جمہوریت کے بارے میں ہی کہا گیا جس میں خرید و فروخت سے لے کر مخالف امیدواروں کی ذاتی زندگیوں میں گھس کر ان کے خاندان تک کی کردار کشی کی جاتی ہے اور ہر قسم کی مالی اور اخلاقی بدعنوانی کو جائز قرار دے دیا جاتا ہے۔ اراکین اسمبلی کے اچانک ”ضمیر جاگنے“ کے تازہ واقعہ نے میرے اس موقف (حلقہ بندیوں پر مبنی پارلیمانی نظام انتخاب اس ملک کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان میں مزید اضافہ کرے گا) کو مزید تقویت دی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ جب تک نظام انتخاب میں بنیادی تبدیلیاں نہیں کی جائیں گی ممبران اسمبلی اپنے ذاتی مفاد پر عوامی مفاد کو قربان کرتے رہیں گے۔

اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں نظام حکومت عوام کے منتخب کردہ افراد کے ہی ہاتھوں میں ہونا چاہیے لیکن پھر کون سا نظام انتخاب ایسا ہو جو عوامی مفادات کا تحفظ کرسکے اور بہترین قیادت بھی سامنے آئے اور انتظامیہ کے سربراہ کو ممبران اسمبلی کی اس طرح کی خرید و فروخت کر کے ہٹایا بھی نہ جا سکے کچھ دانشور ملک میں صدارتی نظام کو رائج کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن وہ صرف ایک مسئلے کو تو حل کرنے کی بات کرتے ہیں یعنی انتظامیہ کے سربراہ کو منتخب کرنے کا طریقہ بتاتے ہیں لیکن ممبران پارلیمنٹ کو کیسے منتخب کرنا ہے وہ طریقہ نہیں بتاتے اور ملک کا بنیادی مسئلہ ہی ایک مخصوص طبقے کی بطور ممبر پارلیمنٹ ملکی نظام حکومت میں اجارہ داری ہے اس لیے عوامی اکثریت کی نمائندگی پارلیمنٹ میں ہوہی نہیں پاتی اور عوامی اکثریت نظام انتخاب پر اپنا اعتماد نہیں رکھتی

اس لیے میرا آج بھی ہمیشہ کی طرح یہی موقف ہے کہ اس ملک کے مسائل کا حل متناسب نمائندگی پر مبنی پارلیمانی نظام انتخاب ہے جس میں عوام کو ہی اپنے وزیر اعظم کو منتخب کرنے اور اسے ہٹانے کے اختیار ہو ایک مخصوص تناسب سے ووٹ لینے والے شخص کو عوام اپنا وزیر اعظم منتخب کریں اور ہر پارٹی یا گروہ کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے ان کو اسمبلی میں نمائندگی دی جائے ممبران اسمبلی کا کام قانون سازی ہو اور ریاستی معاملات میں عوامی نمائندگی کرنا ہو اس سے تمام سیاسی جماعتیں معاشرے کے بہترین اور ٹیلنٹڈ افراد کو پارلیمنٹ کے ایوانوں میں پہنچائیں گی اور فلور کراسنگ کے امکانات ختم ہوجائیں گے اور اگر کسی مسئلے پر ڈیڈ لاک پیدا ہو جائے تو عوامی ریفرنڈم کے ذریعے اس ڈیڈ لاک کو دور کر لیا جائے کسی بھی شخص کے دو دفعہ سے زائد وزیر اعظم بننے پر پابندی لگادی جائے اور سیاسی جماعتوں میں جماعتی انتخابات لازمی قرار دے دیے جائیں اس مرکزی انتظامیہ کے نیچے ایک مضبوط تحصیل نظامت پر مبنی بلدیاتی نظام قائم کیا جائے تاکہ نئی قیادت بھی سامنے آ سکے اور ملک سیاسی لحاظ سے قحط الرجالی کا شکار نہ ہو یوں تو یہ بہت لمبی اور سیر حاصل بحث کا متقاضی معاملہ ہے مگر میری اب تک کی سیاسی اور سماجی اپروچ کا مرقع ہے اور اس پر مزید مثبت اور خلوص نیت سے بحث کر کے موڈیفائی کیا جاسکتا ہے۔

یہ بحث اپنی جگہ موجود ہے کہ اس کو ملک میں لاگو کیسے کیا جائے کیوں کہ موجودہ طبقہ کی اکثریت جو اس وقت پارلیمنٹ میں بیٹھا ہے وہ اس کی مخالفت کرے گا ان کی رضامندی بذریعہ طاقت حاصل کی جائے یا ان کو سسٹم میں کچھ حصہ دے کر حاصل کی جائے لیکن اگر کوشش کی جائے تو عوامی طاقت اور ریاستی وسائل کے استعمال کے ذریعے کچھ بھی ممکن کیا جاسکتا ہے

اگر کوئی بھی فرد اس پر مکالمہ یا جوابی تحریر کے ذریعے اپنی آرا دینا چاہے تو مجھے از حد خوشی ہوگی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments