قفس کا قیدی!


” مجھے لگتا تھا، سب لڑکیاں جھوٹ بولتی ہیں یا خواہ مخواہ کی ایکٹنگ کرتی ہیں۔ میں تو ہر ماہ ویسے ہی ہشاش بشاش گھومتی رہتی، نہ کوئی درد، نہ تھکاوٹ، نہ قے، نہ گھبراہٹ۔ ایسی ہی رہی میں لڑکپن میں، جوانی میں اور شادی کے بعد ۔ میں حیران ہوا کرتی تھی کہ کیسے میری سہیلیاں لوٹ پوٹ ہو جاتی ہیں۔ ہائے وائے کرتی نہیں تھکتیں، مجھے تو پتہ بھی نہیں چلتا تھا کب ماہواری آئی اور کب ختم ہوئی۔ بلکہ کبھی کبھی مجھے ایسے لگتا کہ لوگ ماہواری کے درد کے بارے میں مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں۔ لیکن پھر نہ جانے کس کی نظر لگی؟ اب تو جوں جوں وہ دن قریب آتے ہیں، دل بیٹھتا چلا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس بار تو نہیں بچوں گی۔ درد کا ایسا طوفان اٹھتا ہے کہ کوئی گولی، کوئی انجکشن اثر نہیں کرتا“

چالیس سالہ خاتون بھرائی ہوئی آواز میں کہہ رہی تھیں۔

” پانچ برس پہلے مجھے ماہواری کے ساتھ ہلکا ہلکا درد ہونا شروع ہوا۔ میں سمجھی کہ شاید بچے پیدا کرنے کے بعد رحم میں کمزوری آ گئی ہے یا شاید کمر کے مہرے کھسک گئے ہیں۔ شروع میں کوئی بھی گولی کھا لیتی اور نظر انداز کرتی۔

لیکن آہستہ آہستہ درد بڑھنا شروع ہوا۔ بات گولیوں سے بڑھ کر انجکشنز تک پہنچ گئی اور اب تو ایسا ہے کہ جیسے کوئی چھری لے کر پیٹ میں سوراخ کر رہا ہو، یا ڈرل مشین کا برما پیٹ میں داخل ہو کر گھومتے ہوئے کمر سے نکل جاتا ہے۔ پانچ دن بستر سے اٹھ نہیں سکتی، درد سے تڑپ تڑپ کر بے جان ہو جاتی ہوں ”

وہ سسک سسک کر رو دیں۔
اور ہمیں کچھ یاد آ گیا۔

ایسا ہی تو ہوا تھا ہمارے ساتھ بلکہ اس سے بھی برا۔ ہم نے تو اوائل عمری کی ماہواری میں بھی شدید درد سہا، انجکشنز لگوا لگوا کر کالج گئے۔ سوچتے رہے کہ جیسا سب کہتے ہیں کہ بچوں کی ولادت کے بعد یہ درد کم ہو جاتا ہے سو اماں بننے کا کچھ تو فائدہ ہو گا۔ مگر اماں بننے کے بعد یہ خوشی کچھ زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوئی۔ کچھ برس ہی اس درد نے ہماری جاں بخشی کی، شاید مختلف اقسام کے درد ہماری چاہت میں شامل تھے۔

سو بچوں سے فارغ ہوئے تو جس درد کی غیر موجودگی ہمیں شاداں و فرحاں رکھتی تھی اس نے واپس لوٹنے میں دیر نہ کی۔ اور پھر عالم یہ تھا کہ بس ایڑیاں رگڑنے کی کسر رہ جاتی تھی۔ گائناکالوجی گھر کی لونڈی تھی سو سب حربے آزما لیے مگر درد قابو نہ آیا سو آخر کار رحم کو خدا حافظ کہنا ہی پڑا۔

وہ خاتون ہماری طرف دیکھ رہی تھیں۔

”دیکھیے پہلے آپ کا الٹرا ساؤنڈ کرتے ہیں پھر ضرورت ہوئی تو ایم آر آئی بھی کروا لیں گے۔ اور پھر رپورٹس کی روشنی میں تفصیلی بات کریں گے“

الٹرا ساؤنڈ نے ہمارے شبہات کی تصدیق کی تھی۔
خاتون Adenomyosis ایڈینومائیوسس کا شکار تھیں ہماری طرح!

ناشپاتی کی شکل والا رحم یا بچے دانی تین قسم کی تہوں سے بنتا ہے۔ سب سے اندر والی تہہ endometrium کہلاتی ہے اور یہی وہ تہہ ہے جو ماہواری کے دوران ٹوٹ پھوٹ کر خون کی شکل میں باہر نکلتی ہے۔ ہارمونز کے زیر اثر ہر ماہ یہ تہہ دوبارہ بنتی ہے گویا endometrium کی زندگی ایک ماہ سے زیادہ نہیں۔ یاد رہے کہ اسی تہہ میں رحم کا کینسر جنم لیتا ہے اور یہی تہہ حمل میں بچے کو خوراک دینے کی ذمہ دار ہے۔

اینڈو میٹریم کے نیچے گوشت نما مسلز کی تہہ ہے جسے myometrium کہا جاتا ہے۔ یہی وہ مسلز ہیں جو دھکا دے کر اینڈومیٹریم کو ماہواری میں باہر نکالتے ہیں اور یہی وہ مسلز ہیں جہاں نطفہ آ کر پناہ لیتا ہے اور بچے کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ مسلز اپنا حجم بڑھاتے ہوئے بچے کے رہنے کی جگہ وسیع کرتے ہیں۔

اب وجہ تو کسی کو معلوم نہیں لیکن کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ endometrium ساری کی ساری ماہواری میں جسم سے باہر خارج نہیں ہو پاتی۔ اندر رہ جانے والی انڈومیٹریم، مائیومیٹریل مسلز کے اندر جا کر دفن ہو جاتی ہے یا یوں کہیے کہ قید ہو جاتی ہے کہ اب مسلز کے اندر جانے والی اینڈومیٹریم کے پاس واپسی کا راستہ کوئی نہیں، اسے اب ان مسلز کے اندر ہی رہنا ہے۔

چونکہ اینڈومیٹریم کو ڈیوٹی یہ دی گئی ہے کہ اس نے ہر ماہ باہر خارج ہونا ہے تو اب قیدی اینڈومیٹریم کیسے باہر نکلے؟

اینڈومیٹریم قید ضرور ہے لیکن اپنا کام بھی نہیں بھولتی کہ اس نے ہر ماہ ایک مخصوص وقت میں باہر نکلنا ہے۔ اب جونہی ماہواری آئی، آزاد اینڈومیٹریم تو آسانی سے باہر نکل گئی مگر قید اینڈومیٹریم نے تڑپنا شروع کیا کہ اسے بھی باہر جانا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ باہر جانے کا راستہ ہے نہیں، وہ مائیومیٹریم کے قابو میں ہے۔

ماہواری کے ہارمونز کے زیر اثر اینڈومیٹریم باہر نکلنے کو زور لگاتی جائے گی مگر نکل نہیں پائے گی۔ اینڈو میٹریم اور مائیو میٹریم کے درمیان یہ جنگ ہی شدید درد کا باعث ہے۔ رحم کے اندر تڑپتی اور مجبور اینڈومیٹریم رحم کو شدید عذاب میں مبتلا کرتی ہے۔

ایڈینومئیوسس کا علاج بہت سے طریقوں سے کیا جاتا ہے مگر حتمی کوئی بھی نہیں ہوتا۔ مائیومیٹریم کے اندر اینڈومیٹریم کو نکالنا آسان نہیں کہ زیادہ تر وہ پورے رحم میں پھیلی ہوتی ہے۔ ہارمونز اور ماہواری کو روکنا اس وقت تک ہی کار آمد رہتا ہے جب تک دواؤں کا استعمال جاری رہے۔
اس درد سے نمٹنے کا آخری حل ایک ہی ہے جو ہمیں بھی کرنا پڑا۔ بانس ہی نکلوا دیجئے، پھر بانسری کہاں بجے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments