آندھیوں کا رخ موڑنے والا، سب زنجیریں توڑنے والا


یہ فرق ہے نواز شریف اور عمران خان میں۔ عمران خان اقتدار ہاتھ سے جاتا دیکھ کر تقریباً باولا ہو گیا۔ ہوش و خرد، تعقل و تدبر، حکمت و مصلحت، موقع شناسی و فرض شناسی اور شعور و آگہی کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھا۔ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب ہوتے دیکھا تو ملکی وقار اور قومی ساکھ سمیت سب کچھ داوٴ پر لگا دیا۔ اس قدر جذباتی، ہیجانی، غیر حقیقی اور فوری ردعمل دیا کہ وہ لوگ بھی انگشت بدنداں رہ گئے جو اخلاص نیت اور صاف دلی سے عمران خان کو نجات دہندہ، مسیحا اور سچا و کھرا قائد مانتے تھے۔ عمران خان کی متلون مزاجی، بسیار گوئی، الزام تراشی اور اتہام بازی اس حد تک خطرناک ہونے لگی کہ انہیں سفارتی آداب اور بنیادی انسانی اخلاقیات کا خیال بھی نہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ امپائرز کو بیچ میں آ کر معاملہ رفع دفع کرنا پڑا۔

دوسری طرف چھ سال قبل جب نواز شریف کو ایک خطرناک سازش کے ذریعے اقتدار سے بیدخل کیا گیا تھا تو انہوں نے نہایت صبر و تحمل، برد باری، متانت و سنجیدگی، ٹھہراوٴ و مستقل مزاجی، بہادری و جگر کاوی اور تعقل و استقلال سے ساری صورت حال کا سامنا کیا۔ دریدہ دہنی کی نہ یاوہ گوئی، فضول گفتاری سے کام لیا نہ برق رفتاری سے۔ بے جا الزام و بہتان طرازی کی نہ ملکی مفاد کے خلاف کوئی بات کی۔ سفارتی آداب کو پائے مال کیا نہ کسی ملک پر الزامات کی گولہ باری کی۔

انہوں نے جاوید میانداد کی طرح پچ پر پہنچ کر سب سے پہلے وکٹ کا جائزہ لیا۔ مخالف گیند بازوں کو پرکھا، فیلڈرز کی پوزیشن ملاحظہ کی اور موسم کی صورت حال دیکھ کر ایک لمبی اور یادگار اننگز کھیلنے کے لیے کمر کس لی۔ آغاز میں بہت دفاعی اور محتاط نظر آئے۔ باہر جاتی گیندوں کو چھوڑتے رہے۔ دفاعی سٹروکس کھیلنے کے ساتھ ساتھ سنگل اور ڈبل رنز لے کر ایک بڑی اننگز کی بنیاد رکھ دی۔ اس دوران خراب گیندوں پر چوکے اور چھکے بھی لگائے۔

جب گیند باز اور فیلڈرز تھک گئے تو جارحانہ انداز اپنا کر نہ صرف سینچری بلکہ ڈبل سینچری بھی بنا ڈالی۔ بلا شبہ نواز شریف کی اننگز دفاع، جارحیت اور مہارت کا بے مثال نمونہ تھی۔ انہوں نے خطرناک تیز بالرز کے ساتھ ساتھ منجھے ہوئے اور تجربہ کار سپنرز کا بھی نہایت مہارت اور بے جگری سے سامنا کیا اور وکٹ کے چاروں طرف خوب صورت شارٹز کھیلتے رہے۔ ان کے ساتھی بلے بازوں نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا اور جو لوگ اتنے کم وقت میں اس میچ کو جیتنا ناممکن سمجھتے تھے وہ بھی نواز شریف کی اننگز کے گن گانے لگے۔

نواز شریف بھی جاوید میانداد کی طرح فتح کا سٹروک کھیلنے والے ہیں۔ سٹیڈیم میں بیٹھے تماشائیوں کے ساتھ ساتھ مخالف ٹیم کے کھلاڑی بھی انہیں دل کھول کر داد دے رہے ہیں کہ انہوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ نواز شریف نے بھی سیاست کی پچ پر جاوید میانداد کی طرح شارجہ کرکٹ گراوٴنڈ والی اننگز کھیلی ہے۔ ان کی پوری سیاسی ٹیم نے توصیف کا کردار ادا کیا۔ میچ کی سیکنڈ لاسٹ بال پر انہیں سنگل بنا کر دیا۔ آخری بال پھینکی جانے والی ہے۔

سب کی نظریں نواز شریف پر ہیں۔ تماشائی دم بخود مگر پر امید بیٹھے ہیں۔ سب کو یقین ہے کہ نواز شریف جاوید میانداد کی طرح آخری گیند پر چھکا جڑ کر سیاسی میچ جیت جائیں گے جبکہ جارح مزاج، بڑ بولے، غصیلے اور مشتعل کھلاڑی عمران خان نے کھلاڑی کے بجائے اناڑی کی طرح ردعمل دیا اور یقینی طور پر جیتا ہوا وہ میچ بھی ہار گئے جس میں امپائر بھی ان کا اپنا تھا۔ بلا شبہ نواز شریف نے آندھیوں کا رخ موڑ دیا اور سب زنجیریں توڑ ڈالیں جبکہ عمران خان نے اپنی افتاد طبع اور مشتعل مزاجی کے باعث اپنے پیروں میں ایسی دیکھی اور ان دیکھی بیڑیاں کس لی ہیں کہ اب ان کا اقتدار میں آنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments