سٹیٹ یا پھر رئیل اسٹیٹ


میں اپنی گفتگو کا نقطہ آغاز عالمی کساد بازاری سے کرتا ہوں جس کا بنیادی محرک ہی رئیل اسٹیٹ سیکٹر تھا۔ پراپرٹی کی قیمتوں کے مصنوعی اتار چڑھاؤ نے تمام مالیاتی اداروں کو گمراہ کیا۔ بینکوں نے یہ سوچتے ہوئے کہ یہ قیمتیں ہمیشہ بڑھتی رہیں گی، لوگوں کو زیادہ سے زیادہ قرض دینے شروع کر دیے۔ درحقیقت یہ صارفین کے قرضوں کی سب سے زیادہ گمراہ کن صورتحال تھی۔ جس جائیداد کی اصلی قیمت ایک ملین ڈالر تھی، وہ قیمتوں کی اس مصنوعی اٹھان میں دو ملین سے بھی زیادہ پر بک رہی تھی اور بینک اسی گمراہ کن قیمت پر قرض دے رہے تھے۔

تمام مالیاتی اداروں بشمول انویسٹ منٹ بینکوں کی بیلنس شیٹ انتہائی مجہول صورتحال کی عکاسی کر رہی تھی۔ اثاثہ جات جو بینکوں نے رہن رکھے ہوئے تھے اور ان سے متصل قرضہ جات جو اس وقت تو برابری کے اعداد و شمار ظاہر کر رہے تھے، عالمی کساد بازاری کے آغاز میں ہی بری طرح کے تغیر کا شکار ہو گئے۔ ایک مصنوعی قیمتوں کا طوفان ظاہر ہے کہ ایک نہ ایک دن اترنا ہی تھا اور وہ اتر گیا تھا۔ دو ملین ڈالرز کی جائیداد واپس ایک ملین ڈالر پر آ گئی تھی۔

بینکوں کے تمام رہن شدہ اثاثہ جات کی قیمتوں کا از سر نو تعین ہوا تو بیلنس شیٹ کے اثاثہ جات کی قیمت 253 فیصد سے بھی زائد گر چکی تھی جبکہ دوسری طرف وصول کردہ قرضوں کی صورتحال وہی تھی۔ مارکیٹ میں ساڑھے سات ملین ملازمتیں ختم ہو چکی تھیں۔ تمام بینکوں کے بنیادی صارف یہی لوگ تھے۔ ملازمتیں ختم ہونے کی وجہ سے یہ صارفین قرض کی اقساط ادا کرنے سے قاصر تھے۔ بینکوں نے ان کے رہن شدہ گھروں کو قرق کر لیا مگر اب صورتحال یہ تھی کہ واجب الادا قرض دو ملین ڈالر تھا جبکہ قرق شدہ جائیداد کی قیمت ایک ملین ڈالر تھی۔

یہ وہ صورتحال تھی جب اس مصنوعی غبارے سے ہوا نکلنی شروع ہوئی۔ یہ ایک ملین کا خسارہ پورا کرنے کے لیے بینک نے انشورنس کمپنیوں سے رابطہ کرنا شروع کیا کیونکہ تمام قرض انشورنس کمپنیوں سے بیمہ شدہ تھے۔ ایسی صورتحال میں جب ہر طرف ہی پراپرٹی کی قیمتوں کا مصنوعی تاج محل تاش کے پتوں کی طرح گرنا شروع ہو چکا تھا، انشورنس کمپنیز کتنی دیر ڈٹی رہ سکتی تھیں؟ حبس زدہ اس ماحول میں امریکہ کی سب سے بڑی انشورنس کمپنی الیکو (ALICO) وہ بارش کا پہلا قطرہ بنی جو دیوالیہ ہوئی۔ اس کے بعد تو جیسے دیوالیہ ہونے والی کمپنیوں، انویسٹمنٹ کارپوریشنز اور بینکوں کی جیسے بارش ہی شروع ہو گئی۔ یہ تھی عالمی کساد بازاری کی اس کہانی کا نقطۂ عروج۔

آج پاکستان کی بھی یہی صورتحال بنتی جا رہی ہے رئیل اسٹیٹ میں قیمتیں اپنے عروج پر ہیں ایک پراپرٹی جس کی قیمت ایک ملین ہونی چاہیے وہ دس ملین تک پہنچی ہوئی ہے اگرچہ موجودہ حکومت کی اکثر و بیشتر پالیسیاں ملک کو کساد بازاری اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی طرف لے کے جا رہی ہیں مگر نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم ہو یا راوی ڈویلپمنٹ اتھارٹی یہ وہ پالیسیاں ہیں جو ملک کے لیے ایک موذی مرض بلکہ مہلک ثابت ہوگی اگرچہ پاکستان میں بینک لوگوں کو رئیل اسٹیٹ کے لیے قرض فراہم نہیں کر رہے اس مقدار میں جس مقدار میں امریکہ میں ہو رہے تھے مگر ایک پراپرٹی جس کی اصل قیمت جس کو ہم حقیقی قدر کہتے ہیں ایک ملین ہے اور وہ اس وقت دس ملین تک خرید و فروخت ہو رہی ہیں۔

مثال کے طور پر ایک آدمی نے 10 لاکھ کا ایک پلاٹ ایک سال پہلے خریدا اس کے اوپر اس آدمی کی کوئی ان پٹ یا محنت شامل نہیں ہے مگر وہ ایک سال بعد تیس لاکھ روپے کا ہو جاتا ہے اب جو درمیانی 20 لاکھ روپے ہیں یہ کہاں جاتے ہیں کیونکہ ہم اس کو ایزی منی کہتے ہیں یہ ایزی منی لوگوں میں درآمد شدہ اشیاء کا رجحان بڑھا رہی ہیں اس سے ہمارے ٹریڈ بیلنس خسارے میں گراں قدر اضافہ ہو رہا ہے۔

اکنامکس میں کسی بھی رئیل اسٹیٹ کی پراپرٹی کی قیمت کو معین کرنے کے لئے جو ایک ماڈل استعمال کیا جاتا ہے اسے ہیڈونک ماڈل کہتے ہیں یہ ماڈل ہے کیا چیز اصل میں یہ پراپرٹی کی مختلف خصوصیات کو سامنے رکھ کر اس پراپرٹی کی قیمت کا تعین کرتا ہے مثال کے طور پر پراپرٹی کا سائز اس میں موجود کمرے باتھ رومز کچن، لان اور گارڈن اور گیراج وغیرہ شامل ہیں اس کے ساتھ ساتھ پراپرٹی کی ہمسایہ گیریت مثلاً اس سے سکول کالج یونیورسٹی ہسپتال ریلوے اسٹیشن اور باقی جو ضروری سہولیات کتنی دور اور قریب ہیں اور تیسری چیز اس کی لوکیشن ہوتی ہے کہ وہ سرکاری و نیم و غیر سرکاری دفاتر سے مارکیٹ سے کتنی دور ہے ان تمام خصوصیات کو ملا کر ایک پراپرٹی کی قیمت کا تعین کیا جاتا ہے ایک سوال ہے کہ یہ تمام خصوصیات ایک جیسی ہونے کے باوجود حتی کہ ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن میں موجود پراپرٹیز کی خصوصیات باقی جو اسلام آباد کے نزدیک پراپرٹیز ہیں ان سے کم ہیں پھر بھی ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن میں موجود پراپرٹیز کی قیمتیں ان سے زیادہ ہیں۔

اب مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ ماڈل پوری دنیا میں ریل اسٹیٹ پراپرٹی کی قیمت کے تعین میں کافی حد تک بہتر، موثر اور اچھے رزلٹ لاتا ہے مگر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں ایک پراپرٹی جس کی خصوصیات شہر کے نزدیک ہونے دفاتر کے نزدیک ہونے سکول کے نزدیک ہونے کے باوجود دوسری پراپرٹی جو شہر سے دور سکول سے دور اور تمام بنیادی ضروریات سے دور ہے سے کم ہیں اس سوال کا جواب مجھے نیسلہ ٹاور کے گرائے جانے کے حکم کے بعد مل گیا۔

اب مجھے سمجھ آئی کہ ایک خریدار اتنی دور ہونے کے باوجود بھی قیمت زیادہ ادا کرتا ہے اور قریب والی پراپرٹیز کی قیمت کم ادا کرتا ہے اس سوال کا ایک چھوٹا سا جواب اتنا ہی کافی ہے کہ وہ خریدار دور یا قریب ہونے کی قیمت نہیں ادا کرتا بلکہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام جسے دوسرے الفاظ میں ہم ریپیوٹیشن آف ہاؤسنگ سوسائٹی کا نام دیتے ہیں کی قیمت ادا کرتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے پلاٹ کو اس کے فلیٹ کو کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گا اس لیے باقی ماندہ خریدار کو بھی ایک پیغام ملتا ہے کہ کسی چیز کے قانونی ہونے کا مطلب یا قانونی طور پر خریدے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ سے نہیں چھین سکتی۔

اس ایزی منی کی وجہ سے لوگوں میں امپورٹڈ اشیاء کے استعمال کا کلچر بڑھ رہا ہے، ایلیٹ اکانومی پرورش پا رہی ہے جس کی وجہ سے درآمدات اور برآمدات میں خسارہ ہر سال بڑھتا جا رہا ہے دوسری طرف عالمی مالیاتی قرضوں کے حجم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اگر اسی تسلسل کے ساتھ یہ دونوں چیزیں بڑھتی رہیں اور ساتھ ہی کچھ عرصہ کے بعد حکومت کو سی پیک معاہدہ کے ساتھ جو قرضہ جات چائنا سے لیے گئے تھے وہ بھی واپس کرنے ہوں گے تو حکومت پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کے لیے جتنی مقدار میں ڈالر کی ضرورت ہوگی اتنی مقدار میں حکومت پاکستان ڈالر مہیا نہیں کر پائے گی اور دوسری طرف بجٹ کا خاصی مقدار میں ایک حصہ ڈٹ سروسنگ کے لئے استعمال ہو رہا ہے اور وہ بھی اسی تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتا رہا تو دفاعی ضروریات تو کجا ملک میں کام کرنے والے اداروں کے پاس اپنے لوگوں کو تنخواہوں کی مد میں اور پنشن اور مراعات ادا کرنے کے لئے بجٹ نہیں ہوں گا یہی اندرونی اور بیرونی کرائسس دو چیزوں کا پیش خیمہ ہوں گے اول یہ کہ یا تو ہماری سٹیٹ ایک ناکام ریاست کے طور پر دنیا میں سامنے آ سکتی ہے جس کے پاس اپنے اندرونی اور بیرونی ادائیگیوں کے لیے رقوم میسر نہیں ہوگی اور دوسری طرف ملک میں ایک فائنانشل کرائسس آئے گا جس میں اثاثہ جات کی مالیت جس تسلسل کے ساتھ اوپر گئی ہے اس تسلسل سے دوگنا نیچے کی طرف آئے گی اور ہمارے مالیاتی ادارے اور انشورنس کمپنیاں اس بحران کو قابو پانے پر قادر نہیں ہوگی۔

اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کو پیش خیمہ بحران کے لئے مجموعی طور پر پالیسی سازی کرنی پڑے گی اور ان اداروں کو بھی جو ریئل اسٹیٹ میں محو اور مگن ہیں اور اس بڑھتے ہوئے دیو پر قابو پانے کی اگر اب کوشش نہ کی گئی تو پھر جب یہ دیو حکومت پاکستان پر قابو پا لے گا تب اس کے قابو سے پاکستان کو آزاد کرانے کے لئے بہت کچھ قربان کرنا پڑے گا جس میں کم سے کم چیز ملکی سالمیت ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments