مشرق اور مغرب کا فیمنزم


ہمارے یہاں صبح و شام مغرب اور مشرق کے مابین فرق کی گردان پڑھی جاتی ہے۔ یہ درست بھی ہے۔ کہاں مغرب اور کہاں مشرق۔ مجھے حیرت ان مذہبی نوجوانوں پر ہوتی ہے جو رہائشی مغربی ممالک کے ہیں مگر درس مشرقی اقدار کا دیتے ہیں۔ اب کچھ عرصہ قبل، ایک مسلمان نوجوان کی ویڈیو سرایت کرتی رہی ہے جو خود ایک مغربی ملک کا آزاد شہری ہے۔ اس ویڈیو میں وہ اسلام کا مقابلہ فیمنزم سے کر رہا تھا، یاد رہے وہ خود ایک مغربی ملک کا باشندہ ہے، وہاں کی شخصی و مذہبی آزادی سے مستفید ہونے والا عام شہری۔

اس کے قریب مغربی معاشرت میں عورت نہایت مظلوم ہے۔ وہیں، اس کے نزدیک مشرق کی ”مسلمان عقیدے کی عورتیں مظلوم نہیں تھیں کیونکہ مغربی معاشرہ عورت کو دوجے درجے کا انسان سمجھتا تھا جب ہی وہاں فیمنزم پر مبنی تحریک کامیاب ہوئی۔ مغرب کی عورت بے توقیر رہی تو اس نے فیمنزم کے توسط سے معاشرے میں حقوق حاصل کیے اس لئے مسلمان معاشروں میں اس قسم کی تحریکوں کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ وہ پہلے سے ہی باعزت ہیں“ ۔

مغرب کے ان مسلمان نوجوانوں کی نظر میں مسلمان عورت کو کسی حقوق نسواں کی ”مغرب متاثرہ“ تحریک کی ضرورت نہیں کیونکہ مسلمان عورت کو پہلے سے تمام حقوق میسر ہیں۔ اس نوجوان کی یہ ویڈیو پاکستان کے صارفین نے خوب دل کھول کر شیئر کر رکھی تھی اور ہر شیئر ہوتی ویڈیو تلے پاکستان میں عورتوں کے حقوق کی ہر آواز کو ہزلیات کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور خواتین کو شرمسار بھی مسلسل کیا گیا۔ جن خواتین کو ایسے مواقع پر شرم دلائی جاتی ہے وہ براہ راست تشدد اور زبردستی کی متاثرہ خواتین ہوتی ہیں۔ ہر صارف پاکستان میں موجود خواتین کے حقوق کی آوازوں کو ایک مغربی نوجوان کے غیر حقیقی نکات کی بنا کر زائل کرتے ہی نظر آ رہے تھے۔ ایسی تصویر پیش کی جاتی رہی جیسے اس ملک میں کبھی کسی عورت کو جبر اور تشدد کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔

بہت سالوں قبل، جب میں اسکول کی طالبہ تھی مجھے یاد ہے کہ ایک نامور مذہبی جماعت کے رہنما جو بعد میں امیر بھی رہے نے یہ عرض کی تھی کہ ”میں حقوق نسواں کی تحریک کی وجہ سے عورت کو اس قدر حقوق مل چکے ہیں کہ وہاں اب مرد شادی کرنے سے گریزاں ہیں اور عورت کا مرد کی جائیداد میں حصہ دار ہونے کی وجہ سے شادیاں نہیں ہوتی اور معاشرتی بے راہ روی بڑھتی جاتی ہے“ ۔

بہت سے مغربی ممالک میں شادی سے قبل اگر میاں بیوی چاہیں تو ایک معاہدہ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی جائیداد کے حقدار ہوسکتے ہیں۔ عورت کا مرد کی جائیداد میں حصہ دار ہونے سے معاشرے میں بے راہ روی کیسے بڑھتی ہے، وہ خاصی منطقی بحث ہوگی مگر عورت کو اس کے بنیادی انسانی حقوق ملنا اگر بے حیائی کا باعث ہے تو پھر بے حیائی کی تعریف مغالطہ پر مبنی ہے۔

مرا پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ہیں، وہ حقوق بھی معاشرے نے نہیں دیے۔ اس لئے مشرق میں بھی حقوق نسواں کی اتنی ہی اہمیت اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جتنی دنیا میں کہیں بھی۔ جہاں جہاں عورت کو بنیادی انسانی حقوق نہیں دیے جاتے، وہاں حقوق نسواں کی اشد ضرورت ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ عورت کی حیثیت ہمارے معاشرے سمیت تمام مسلمان معاشروں میں کیا ہے۔ خواتین کی مشکلات جاننے والی خواتین بھی جب اس طرح کی غیر حقیقی اور زمینی حقائق سے متنفر مواد کو شیئر کرتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کون ہم میں سے ہے اور کون ہمارے زخموں پر نمک پاشی کرنے میں راحت پاتا ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر مغرب نے قانون سازی سے میاں بیوی کو ایک دوجے کی جائیداد میں حصہ دار بنایا ہے تو یہ کہاں سے غیر اسلامی ہے یا حقوق کی بے حد فراہمی ہے؟ مسلمان عورت کو اسلام نے تھوڑا سہی مگر شوہر کی وراثت کا حصہ دار تو بنایا ہی ہے اور معاشرتی طور پر تو شوہر ویسے بھی بیوی کی ہر شے کا مالک ہو ہی جاتا ہے چاہے وہ اس کی کوکھ ہو، بدن ہو، ایمان یا مال ہو۔ عورت کا شادی کے معاہدے میں حقوق رکھنا کیسے غلط ہو سکتا ہے؟ یا تو عورت پر ہونے والا ظلم اور تشدد نظام کی نظر میں درست ہے؟

ہمارے لوگوں کے قریب مغرب میں مرد کے ساتھ ایک ظلم عورت کے حقوق کی نظر میں یہ بھی ہوتا ہے کہ طلاق کے بعد عورت کو alimony یا خرچ دیا جاتا ہے۔ یہ بیوی کی اس کمائی کا مترادف ہے جو وہ شادی کے بعد شوہر کی خدمت اور گھرداری میں کماتی ہے۔ اس کی یہ محنت رائگاں نہیں جاتی۔ ہمارے یہاں، بظاہر جہاں عورت کو کسی طرح کے حقوق نسواں یا فیمنزم کی ضرورت ہی نہیں، کو جب طلاق دی جاتی ہے تو اس کی عمر بھر کی خدمت اور ریاضت تین لمحات میں ضائع ہو جاتی ہے۔

اس کے ہاتھ میں تو اکثر طلاق کے کاغذات بھی تھمائے نہیں جاتے تو بعد از طلاق خراج کیا دیا جائے گا۔ طلاق کا حق تو درکنار، یہاں نان و نفقہ کی شق بھی کٹوا دی جاتی ہے۔ شادی کے وقت، جس لڑکی کو کالج اور یونیورسٹی سے ہٹا دیا جاتا ہے، جس کو نوکری اور کمانے کی اجازت نہیں دی جاتی، اس عورت کی عمر بھر کی کمائی اس کی شادی بچتی ہے اور وہ بھی باآسانی طلاق دیے جانے کی صورت میں انجام کو پہنچتی ہے۔ یہ حقوق مغرب کی عورت کو حاصل نہیں تھے تو اس نے جدوجہد کی۔ ہمارے یہاں یہ حقوق سرے سے موجود ہیں نہ عورت میں وہ آگہی ہے جو اپنے حقوق کے حصول کے لئے اس کو درکار ہے۔ ہاں مگر ایسی ظلم اور بے علمی کو فروغ دینے والے خطبے اور وعظ ضرور عورت کو رٹائے جاتے ہیں کہ اس کو علم و آگہی کی روشنائی تک نہ حاصل ہو سکے۔

ا سے بڑھ کر تمسخرانہ عمل اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ مغرب میں پلنے بڑھنے والے لڑکے اٹھ کر مشرق کے تشدد آمیز معاشروں اور روایتوں میں جکڑی عورتوں کو سکھائیں کہ وہ جو سہتی ہیں اس کی اہمیت ہی نہیں اور شاید کوئی دیو مالائی نظام ان کی حفاظت یا بقا کے لئے موجود ہے۔ یا کسی کے ایمان جیسے حساس اور ذاتی نکتے کو اپنی دھاک بٹھانے کی بنیاد پر روحانی تذلیل کا نشانہ بنایا جائے۔ اسلام نے نام پر مظلوم کے زخموں کو کریدنا اسلام کی نہیں دنیا میں منافقین کی پہچان ہے۔

اسلام نہیں کہتا کہ کسی عورت کے خلاف جنسی تشدد ہو اور وہ اس لئے چپ کر جائے کہ باہر لوگ کہتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو بہت حقوق دیے ہیں اور مغرب نے نہیں دیے۔ گھر اور گھر سے باہر کم عمر اور بالغ لڑکیوں کے خلاف محرم اور نامحرم جنسی زیادتی کرتے ہیں۔ نامحرموں سے زیادہ محرم زنا بالجبر کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس بات کا انداز اگر ان نام نہاد مغرب شناخت و شہریت کے حامل مسلمان نوجوانوں کو ہوتا تو غالباً مشرق کی عورت پر ظلم کے خلاف جدوجہد کی روحانی تذلیل نہ کیا کرتے۔ انہی جرائم کا ادراک اگر ہم وطن کر لیتے تو آج ایک مغرب یافتہ نوجوان کی غیر حقیقی سوچ کا یوں بے رحمی سے پرچار نہ کیا جاتا۔

نجانے کتنی عورتیں گھریلو تشدد سہ سہ کر زندگی ہار دیتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ کوئی بندوق اور چھری کے ایک وار سے کسی کی جان لے، جان جانے کا عمل اکثر آہستہ ہوا کرتا ہے، جب ہی غم اور تشدد جھیل کر جسم کے اعضاء اپنی موت مرتے رہتے ہیں اور آخر میں الزام متشدد کی بجائے طبعی موت پر آ جاتا ہے۔ کبھی اپنی ماؤں کی لگا تار بیماریوں اور ان پر ہوتے مظالم کی اکیوایشن کو حل تو کریں گے تو مشرق میں فیمنزم کی ضرورت زیادہ شدت سے محسوس ہوگی۔

تعجب کی بات ہے، مغرب پر اسلاموفوبیا کا سوال گھڑتے ہیں مگر مشرق میں عورتیں اپنے پر ہوتے تشدد پر بات کریں تو یہی لوگ روحانی تذلیل کرنے سے باز نہیں آتے۔ یہی ہماری اجتماعی بے توقیری کا سبب ہے مگر نشانیاں پکڑنے والے معدوم ہوچکے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ جو لوگ آپ کی بات سمجھنے کی جرآت رکھتے ہوں، جن کو ظلم برا اور برابری اچھی لگتی ہو، ان کے لئے راستے آساں بنانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ہم سے بہت سے لوگ نالاں رہیں گے، انا کی خاطر راستے جدا کریں گے، بہت سی خواتین ہمیں ناپسند کریں گی مگر اپنے حصے کا دیا جلائے رکھنا چاہیے۔ اس کی لو سے جو اپنا چراغ جلانا چاہے، اس کے لئے ہاتھ بھی جل جائیں تو غم نہیں ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments