موجودہ بحران : اب یہ چورن بیچنا بند کریں


آج اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہونی تھی۔ ساری قوم غور سے کارروائی دیکھ رہی تھی کہ اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اونٹ کی مثال بہت مناسب ہے کیونکہ اس کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی۔ بہر حال اونٹ نے بیٹھنے سے انکار کر دیا بلکہ کھڑا ہو گیا۔ پہلے وفاقی وزیر فواد چوہدری صاحب نے عدم اعتماد کی اس قرارداد کو آرٹیکل 5 کے خلاف قرار دیا۔ اور ڈپٹی سپیکر صاحب نے سپیکر صاحب کی ایک رولنگ پڑھی جس میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ یہ قرارداد واقعی آئین کے خلاف ہے۔

اس لئے اس قرارداد پر رائے شماری نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ان کے مطابق اس قرارداد کی سازش کسی بیرونی طاقت نے تیار کی تھی۔ وزیر اعظم صاحب نے فوری طور پر ٹی وی پر آ کر قوم کو مبارکباد دی اور صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ بھجوا دیا۔ صدر محترم بھی تیار بیٹھے تھے۔ انہوں نے اس مشورے کی تعمیل میں قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ اب سب کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہیں۔

کسی بحث میں الجھنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 5 کے اصل الفاظ کیا ہیں؟

” 1۔ مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے

2۔ دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر ایسے شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو [واجب التعمیل ] ذمہ داری ہے۔ ”

گویا اس رولنگ کا مطلب یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت جو کہ اس وقت اپوزیشن کی نشستوں پر براجمان ہو کر وزیر اعظم پر عدم اعتماد کرنے کے لئے بے قرار تھی وہ مملکت پاکستان کی وفادار نہیں تھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے اس ایوان کی اکثریت ہی غدار تھی۔ اپوزیشن نے فوری طور پر سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کیا۔ اور اب پاکستان پوری دنیا میں تماشا بنا ہوا ہے۔ کیونکہ صورت حال یہ ہے کہ یا تو صدر، وزیر اعظم اور سپیکر صاحب سمیت پاکستان کی ساری حکومت آئین شکنی کی مرتکب ہوئی ہے یا دوسری صورت میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی اکثریت ہی ملک سے غداری کی مرتکب ہوئی ہے۔ یہ نوبت کیسے آئی؟ اس المیہ نے ایک دو سال میں جنم نہیں لیا۔ یہ روز سیاہ ہمارے کرتوت کے نتیجہ میں دیکھنا پڑا ہے۔

میں اس موضوع پر پہلے ایک کالم لکھ چکا ہوں کہ پاکستان میں جو چورن سب سے زیادہ آسانی سے بکتا ہے وہ یہی ہے کہ اپنے مد مقابل کو بد عنوان، غدار، بیرونی طاقتوں کا ایجنٹ اور کافر قرار دے دو۔ اور اب اس فہرست میں توہین مذہب کے الزام کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے بعد کسی ثبوت دینے کی ضرورت نہیں۔ جس بیچارے پر الزام لگا ہے وہ کانپ کانپ کر صفائیاں پیش کرتا رہے گا۔

اور یہ سلسلہ شروع سے چل رہا ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان صاحب کا حسین شہید سہروردی صاحب سے اختلاف ہوا تو انہوں نے انہیں ایسا پاگل کتا قرار دے دیا جسے ہندوستان نے چھوڑا تھا۔ یہ علیحدہ بات کہ بعد میں وہی سہروردی صاحب پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ اس کے بعد خواجہ ناظم الدین صاحب وزیر اعظم بنے تو ان کے دور میں احمدیوں کے خلاف شورش شروع ہوئی۔ اس شورش میں خواجہ ناظم الدین صاحب کو جلسوں میں علی الاعلان قادیانی یا قادیانی نواز قرار دے کر قتل کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔

جب پورے پاکستان میں ایوب خان صاحب کے مارشل لاء کا آغاز ہوا تو ایبڈو کے قانون کا نفاذ کیا گیا۔ اس کے تحت سیاستدانوں تھوک کے حساب سے بد عنوان قرار دے کر ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کا راستہ کھولا گیا۔ اس قانون میں یہ راستہ بھی کھولا گیا تھا کہ اگر زیر الزام سیاستدان اچھا بچہ بن کر خاموشی سے گھر چلا جائے تو اس پر یہ شرط ہو گی کہ وہ آٹھ سال تک سیاست میں حصہ نہیں لے گا۔ یہ ہتھیار اتنا موثر تھا کہ تین سابق وزراء اعلیٰ یعنی میاں ممتاز دولتانہ، خان عبد القیوم صاحب اور ایوب کھوڑو صاحب سمیت ستر سیاستدانوں نے آٹھ سال کے لئے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور مقدمات کا سامنا نہیں کیا۔ البتہ سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی صاحب نے مقدمہ لڑا اور فیصلہ ان کے خلاف آیا۔

ایوب خان صاحب کا دور ختم ہوا تو بھی سیاستدان ایک دوسرے پر پہلے سے بھی بڑھ کر غدار ایجنٹ اور چور ہونے کے الزامات لگاتے رہے۔ ستر کی دہائی میں جس سے حساب برابر کرنا ہو اسے سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار قرار دے دیا جاتا تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی کی بیگم نسیم ولی صاحبہ اور جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور صاحب اور میاں طفیل صاحب نے بھٹو صاحب کو ملک توڑنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ خواجہ آصف صاحب کے والد خواجہ صفدر صاحب نے بھی بھٹو صاحب نے ملک توڑنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ حنیف رامے صاحب اور ملک سلیمان صاحب جیسے سیاستدان جو کہ پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر گئے تھے اور سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت بھٹو صاحب کے گیت گا رہے تھے وہ بھی علیحدہ ہونے کے بعد بھٹو صاحب کو ملک توڑنے کا مجرم قرار دینے لگ گئے۔

آج خود حکومت پاکستان یہ اعلان کر رہی تھی کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کی اکثریت ایک غیر ملکی سازش کے آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ اور اس بنیاد پر یہ عجیب الخلقت فیصلہ کیا گیا کہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری نہیں ہو سکتی۔ لیکن کیا یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ یہ ہماری قومی عادت بن چکی ہے کہ اپنے مد مقابل کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دے دو۔ ستر کی دہائی میں بہت سے علماء نے ایک دوسرے کو امریکی ایجنٹ قرار دیا۔ جمیعت العلماء پاکستان فضل الرحمن صاحب کے والد مفتی محمود صاحب، ایوب کھوڑو صاحب اور مخالف صحافیوں نے بھٹو صاحب کو سی آئی اے کا اینٹ قرار دیا تھا۔ اور اس کے جواب میں پیپلز پارٹی نے اپنے مخالف اتحاد پر الزام لگایا تھا کہ وہ غیر ملکی طاقتوں کے اشارے پر ملک میں خانہ جنگی برپا کر رہے ہیں۔

آج پوری پارلیمنٹ ان الزامات کی زد میں ہے۔ لیکن اسی پارلیمنٹ میں عقیدہ کی بنا پر پاکستانی شہریوں پر اس قسم کے الزامات لگائے گئے تھے۔ جب 1974 میں پوری قومی اسمبلی پر مشتمل سپیشل کمیٹی میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے کارروائی ہو رہی تھی تو پیپلز پارٹی کے ملک جعفر صاحب نے یہ مطالبہ کیا کہ احمدیوں کے بیرون ملک روابط پر تحقیق کی جائے اور یہ جائزہ لیا جائے کہ انہیں باہر سے مالی مدد مل رہی ہے۔ کسی نے اس وقت کھڑے ہو کر ان سے ثبوت کا مطالبہ نہیں کیا۔

اسی کارروائی میں ایک اور ممبر خواجہ جمال محمد کوریجہ نے احمدیوں کو گالیاں دینے کے بعد یہ مطالبہ کیا کہ جو احمدیوں سے لین دین بھی کرے اسے بھی پاکستان سے نکال دینا چاہیے۔ کسی ممبر نے اٹھ کر یہ سوال نہیں کیا کہ کس قانون کی بنیاد پر یہ مطالبہ کر رہے ہو کہ پاکستانی شہریوں کو ملک سے نکال دیا جائے۔ اس موقع پر اپوزیشن نے جو قرار داد پیش کی تھی اس میں احمدیوں کو پاکستان میں ایک تخریبی گروہ قرار دیا گیا تھا۔ ساری کارروائی میں اس الزام پر کسی تحقیق کی زحمت نہیں کی گئی۔ الزام لگا دیا گیا تھا۔ بس یہی کافی تھا۔

اس دشنام طرازی اور الزام تراشی کی طویل تاریخ کا کیا نتیجہ نکلا؟ آج معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں کوئی حکومت نہیں ہے۔ حکومت نے پارلیمنٹ کی اکثریت کو غیر ملکی سازش میں ملوث قرار دیا تو اپوزیشن نے حکومت کو آئین کا غدار قرار دے دیا۔ اور پارلیمنٹ کی اکثریت نے اعلان کر دیا کہ وزیر اعظم اب عہدے سے برطرف ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم کے مشورہ پر صدر نے قومی اسمبلی کو برطرف کر دیا اور یہ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا کہ اب عمران خان صاحب وزیر اعظم نہیں رہے۔

اس جوتم پیزار کے ماحول میں اب معاملہ سپریم کورٹ میں جا چکا ہے۔ یہ الفاظ لکھتے ہوئے رات کی تاریکی چھا چکی ہے۔ کل سورج تو نکلے گا لیکن روشنی ہوتی ہے کہ نہیں یہ وقت بتائے گا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے جو فیصلہ آئے گا وہ تو آئے گا لیکن لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اب پوری قوم ایک فیصلہ کرے۔ اور وہ یہ کہ ہم ایک دوسرے کو غدار اور ایجنٹ قرار دینے کی روایت ترک کر کے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالیں۔

میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments