مسجد قرطبہ اور اقبال


مسجد قرطبہ میں علامہ محمد اقبال انسانی وجودیت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے اسلامی کے نشیب و فراز پر عشق، ایمان اور فن کی روشنی میں اپنی وجود اور ہونے کا اظہار کرتے میں۔ مسجد قرطبہ کی تاریخ جغرافیہ بے حد تہہ دار ہے جس میں مسلمانوں کی سربلندی اور ثقافت کی زینت کو مغربی ثقافت اور منافقت میں چھپانے کی کوشش کی گی ہے۔ اقبال ایک مسلمان شاعر کے طور پر مغرب کے ثقافتی تشدد کو دیکھ کر دکھ کا شکار ہوتے ہیں، لہذا اقبال کی مسجد قرطبہ کو ایک روحانی تسلی کی ادبی کوشش تصور کیا جاسکتا ہے۔ اقبال کی جانب سے نظم میں متضاد کا استعمال نہ صرف نظم کے بیان کی رفتار کو بڑھاتا ہے، بلکہ انسانی وجود کی معنوی پاکیزگی کے جستجو میں خدا کی آرزو میں پیدا ہونے والی شدید جذباتی اونچ نیچ کا بھر پور انکشاف بھی کرتا ہے۔

تمہید میں علامہ محمد اقبال پراثر لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے مسلمان کی سربلندی اور لطف و مسرت کو بیان کرتے ہیں۔ یہاں اقبال عشق، ایمان اور فن کے درمیان ہونے والے رابطہ کو فلسفہ اور جستجو کرنے کے سفر میں اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اقبال کے لئے مسجد قرطبہ اور ہسپانیہ ایک مقدس اور خصوصی جگہ ہے جس میں اقبال اسلامی حکومت کے عروج و زوال کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان کے ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے : کیسے مسلمان مسجد سے دور ہو سکتا ہے؟

شاعر ویراں مسجد میں اللہ تعالی کی عظمت اور نبی پاک ﷺ کی شان پر غور کرتے ہوئے ایک انجانا سرور و بے خودی محسوس کرتے ہیں۔ اقبال کے لئے اس جدید دور میں لائق ہونے والی پریشانیوں اور الجھنوں کے سامنے صرف اللہ تعالی کی عظمت، بڑائی اور خدائی ہم کو تسلی دے سکتی ہے جس طرح ایک پرسوز گانا سننے یا آب جو پینے کے بعد ہمیں بے چینی اور فکر مطلق سکون مل جاتا ہے۔ علامہ محمد اقبال کی دعاؤں میں اللہ تعالی کی عبادات اور اسلامی حقیقت کو حاصل کرنے کی ”آرزو“ و ”تمنا“ کا حقیقی اظہار موجود ہے۔

پہلے بند میں، شاعر کائنات کے وجود کے راز کو بیان فرماتے ہیں کہ کسی بھی چیز کو ”عروج و زوال“ سے فرار حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔ جبکہ اقبال مسجد کی بدقسمتی پر نوحہ کناں ہوتے ہوئے چاہتے ہیں کہ جلدی سے انہیں سکون حاصل ہو جائے۔ لوگ خواہ مغرب سے ہوں یا مشرق سے یوم قیامت میں انہیں ضرور ”پرکھا“ جائے گا۔ مادی دنیا ایک وہم پید کرتی ہے جس میں انسان اپنے ہنر و فن کے ذریعے دائمی پائیداری حاصل کر سکتا ہے۔ مسجد قرطبہ ایک بہترین اسلامی فن پارہ ہونے کے باوجود صرف ایک ”نقش کہن“ ہے جو مکمل طور پر فانی ہے۔ اقبال کے لیے مغرب کا ثقافتی تشدد بالکل ”بے ثبات“ ہے کیونکہ اس دنیا کی کوئی بھی چیز دائمی و پائیدار نہیں ہے۔ مسجد قرطبہ کا مشاہدہ کرنے کے بعد اقبال بتدریج اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کہ فن اور فنکاری، شان خداوندی کا تعریف کرنے کی واحد رستہ ہرگز نہیں ہے۔

دوسرے بند میں شاعر اس بات کو بیان کرتے ہیں کہ عشق کے جمال و جلال سے وقت کے دھوکے کو افشاں کیا جا سکتا ہے۔ اقبال کی نظروں میں وقت صرف ایک مصنوعی پیمانہ ہے جس نے انسانی تخیل کو قید مین ڈال دیا ہے۔ اللہ پاک کا عشق زمانے کی قید کو توڑتے ہوئے انسان کے ”اصل حیات“ کو فروغ دیتی ہے۔ یہاں شاعر جذباتی لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے سچے اسلامی عشق میں اپنی مستی و مزہ کا اظہار فرماتے ہیں۔ دنیاوی انسانی خوشحالی کو مادی ترقی سے منسوب کیا جا سکنے کے باوجود، اسلامی عشق کے بغیر انسان چاپلوسی کی عادت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسلامی عشق علاقائی، نسلی، طبقاتی تقسیم سے بالاتر ہے اور اسی وجہ سے اسلامی عشق کی صفات بہت مقدس ہیں۔ اقبال کی نظروں میں، اسلامی عشق میں مبتلا ہونے والے اللہ پاک کی عظمت و عبادت میں ایک احساس بے خودی محسوس کرتے ہیں، جس سے انسان بے حد نازک ہو نے کے باوجود مادی دنیا کی قید سے آزادی حاصل کر سکتا ہے۔

تیسرے بند میں شاعر تعریفی لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے اسلامی عشق کے فنکارانہ صفات بیان فرماتے ہیں۔ یہاں شاعر فرماتے ہیں کہ مسجد قرطبہ ایک عام عمارت نہیں بلکہ ایک روحانی جگہ ہے جس کو زمینی مواد کی سادگی اور فنکارانہ الہام کی پیچیدگی کا ایک بہترین امتزاج تصور کیا جا سکتا ہے۔ مسجد قرطبہ میں، شاعر نہ صرف اپنے دل کی آواز سن سکتے ہیں بلکہ کائنات کی لے و تال کو بھی محسوس کر سکتے ہیں جس کی ہم آہنگی ہمیں تنہائی اور پچھتاوے سے آزاد کرتی ہے۔

شاعر کا ذوق و شوق عارضی مبتلائے جوش نہیں، بلکہ دین کی جستجو میں اللہ تعالی کے عشق پر ہے۔ شاعر کے لئے اس مقدس جگہ میں اللہ تعالی کے حضور سجدہ کرنا ایک ان کہی معجزہ سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے جس میں شاعر اس بات کو مکمل طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ انسانیت و کائنات کے تمام پوشیدہ راز اللہ پاک کے عشق کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

چوتھے بند میں شاعر فرماتے ہیں کہ اسلامی روحانی جغرافیہ بے شکل ہے کیونکہ اللہ تعالی کا عشق زمین، زمانے اور زبان سے بالاتر ہے۔ مسلمان ہونا ایک شناخت نہیں بلکہ ایک تقدیر ہے جس میں اللہ تعالی کا جلال و جمال انسانی وجود کا واحد سرچشمہ ثابت ہوتا ہے۔ اللہ پاک کا عشق انسانیت کا ایک ”ستون“ ہے جس کے بغیر انسان مصنوعی زندگی مجبوراً گزارتے ہوئے اندھیروں میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان مشترکہ قسمت ہوتی ہے جس میں اسلامی جستجو کی راہ میں ”مرد سپاہی“ بنے کے واسطے دین کی سربلندی اور اصیل کا دفاع کیا گیا ہے۔ جب اسلامی سچائی کی جستجو انسانی وجود کی واحد آرزو بنتی ہے، تو انسان ہر قسم کی فکر سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اگرچہ دور جدید میں اسلام کی مقبولیت شاید مشرق و سطی تک محدود ہو، لیکن اسلامی کا فنکارانہ اظہار ان جگہوں پر پایا جاتا ہے، جہاں انسانی کوشش، کاوش، تکالیف کا ازالہ سامنے نظر آتا ہے، یعنی ”لا الہ“ ۔

پانچویں بند میں، اقبال انسانی روح کے ظاہر و باطن کو دنیاوی عشق سے منسوب کرتے ہو‌ئے ایک اسلامی نفسیات کے نقطہ نظر کو پیش کرتے ہیں جیسے قناعت جسے انسانی تکالیف کا واحد ازالہ تصور کیا جاتا ہے۔ اقبال کے لئے، اسلامی عقیدہ، تعلیم اور فن انسانی شخصیت کو مصنوعی سانچے میں ڈھالنے کے بجائے انسان کی اصل روح کو بیدار کرنے کا ذریعہ ہے۔ ملحد کو ہمیشہ ایسی غلط فہمی رہتی ہے جس میں اسلامی عقیدہ صرف انسانی آرزوؤں کو دبانے کا نام ہے۔

شاعر کے لئے، ایسی آرزوئیں صرف ایک ”وہم“ ہیں جو ”پرکار حق“ سے باہر ہوتی ہیں۔ اگر انسان دنیاوی فتنہ کی شرارت کو چھوڑ سکے، تو وہ اپنے اصل کردار کو بیدار کر سکتا ہے، جہاں انسان بے نیاز بنتا ہے اور کائنات کی سچائی کی جستجو کو اپنے ”جلیل مقاصد“ کے لیے استعمال کرتا ہے۔ آخر میں شاعر اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اسلامی قوم کی تخلیق لازمی ہے جس میں انسان ”گرمی محفل“ میں زندگی گزارتے ہوئے اپنی روحانی پاکیزگی کے راز کو سمجھ سکتا ہے۔

درحقیقت مشرق اور مغرب کے درمیان پیدا ہونے والے نظریاتی اور سیاسی تضاد کو علامہ اقبال کے ادبی الہام کا سرچشمہ تصور کیا گیا ہے اور شاعر انسانوں کو حق و باطل کے مابین الجھتا ہوا دیکھ کر فرماتے ہیں کہ اللہ پاک کا لازوال عشق انسانیت کی تنزلی کا واحد ازالہ ہے۔ چھٹے بند میں، شاعر مغرب کی منافقت کو دیکھ کر اس حالت پر تنقید کرتے ہیں کہ مغرب کا فکری تکبر مشرق کے خلاف ہونے والے ثقافتی تشدد کا باعث ہے۔ مغرب کی حکومتی حکمت عملی ایسا تاثر دیتی ہے جیسے مغرب تہذیب و تمدن کا واحد مرکز تھا اور ہے۔

شاعر مغرب میں اپنی زندگی گزارتے ہوئے یہ بات اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ مسجد قرطبہ کی تعمیر کی حیثیت بالکل خانہ کعبہ کی تعمیر جیسی مقدس نیت والی ہے، جس کی عمارت بنانے والے مکمل طور پر اللہ تعالی پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ شاعر کے نظریہ کے مطابق مشرق کے خلاف مغرب کا امتیازی رویہ بالکل ناجائز ہے، کیونکہ مشرق کے علم، سائنس اور ہنر نے ہی مغربی تہذیب کی ترقی میں ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ یہ بہت بڑی ستم ظریفی ہے کہ مغربی حکومتوں کے پاس خلافت جیسی طرز حکومت کو اختیار کرنے کا حوصلہ نہیں، جس کی انکساری کی صفات دور جدید کی تمام سیاسی تنازعات کے لئے بہترین ازالہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

ساتویں اور آخری بند میں اقبال انسانی وجود کا حتمی مقصد بیاں کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ صرف روحانی جہاد کے ذریعہ انسان کو ناپائیداری سے آزادی مل سکتی ہے۔ ساتویں میں شاعر بیان کرتے ہیں کہ مذہبی جدوجہد چاہے وہ عیسائیت کے لئے ہو یا اسلام کے لئے کو غیر یقینی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ جہاں اٹلی میں مذہبی جدوجہد نے لوگوں کو ”لذت تجدید“ دیا، وہیں لمنی میں اصلاحات نے لوگوں کو ”کشتی نازک“ میں سوار کروایا۔ چنانچہ آخری بند میں شاعر فرماتے ہیں کہ ہر مسلمانوں کو پوری طرح سے شہادت جستجو کے معنی کو سمجھنا چاہیے۔

مسلمانوں کو کبھی بھی جدوجہد انقلاب سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ان کے بغیر مسلمانوں کا روحانی کلیت ”حساب“ کے تابع نہیں۔ جب اسلام کی نواؤں سے دنیا لبریز ہو جائے گی، مغرب کے ثقافتی تشدد کے باوجود، انسان جہالت سے آزاد ہوتے ہوئے فن، عقیدہ اور انسانی وجود کے درمیاں بہترین ہم آہنگی سے پیدا ہونے والے لطف و کرم کو محسوس کر سکے گا، بالکل ویسے ہی جیسے ہم ”شفق“ کے لمحات کے دوران ”دختر دہقاں کا حسین اور خوبصورت گیت“ سن کر لطف محسوس کرتے ہیں۔

مسجد قرطبہ اردو کی ادبی دنیا میں ایک فلسفیانہ و ادبی جمالیات کا امتیازی نشان ہے جس میں علامہ محمد اقبال انسان کے وجود، دین سے عشق اور فن کی سر بلندی کو ہم آہنگ کرتے ہوئے اپنے ادبی لطف و مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ شاعر الفاظ، معانی اور تال کے درمیان ہونے والے توازن کے طفیل نظم کی رفتار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ نظم کا بے حد مخلص لب و لہجہ نہ صرف شاعر کی روحانی پاکیزگی کی عکاسی کرتا ہے، بلکہ اللہ کی طرف شاعر، تمام مسلمانوں اور اللہ سے عشق کرنے والے تمام لوگوں کے درد کو بیان کرتا ہے۔

علامہ اقبال انسانوں کو خود شعور کی اہمیت اور تہذیبی تبدیلی کے درمیاں جد و جہد کرتے ہوئے دیکھ کر مسجد قرطبہ میں اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کہ دین کی ابدی عزت انسانی وجود کا واحد فلسفیانہ سرچشمہ ہے۔ مسجد قرطبہ جہاں ادبی لطافت کا ایک لازوال اور فلسفیانہ ثبوت فراہم کرتی ہے، وہاں اقبال نے اسے ایک عجیب ادبی علامت بنا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments