بیلا روس سے پاکستان کے تعلقات


اپنے قیام روس کے دوران مجھے کوئی تین بار بیلا روس جانے کا اتفاق ہوا کیونکہ بیلاروس میں پاکستانی سفارتخانے کی عدم موجودگی کی وجہ سے بیلا روس میں پاکستانی مفادات اور وہاں مقیم پاکستانیوں کے معاملات کی نگرانی بھی ماسکو ہی سے کی جاتی ہے۔ پہلی بار جنوری 2014ء میں وہاں کی بڑی نیوز ایجنسیوں، ریڈیو، ٹی وی چینلوں اور فلمی صنعت کے نمائندوں سے ملاقات کے لئے منسک جانا ہوا اور بہت سے شعبوں میں بیلا روس کی ترقی کا براہ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ بیلا روس بھی بالکل روس جیسا لگا بلکہ وہاں سوویت دور کی یادگاروں اور خصوصاً جنگ عظیم دوم سے متعلق یادگاروں کو بڑی محنت اور عقیدت سے محفوظ کیا گیا ہے۔

جنگ عظیم دوئم میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے دو کروڑ ستر لاکھ روسیوں میں سے 23 لاکھ کا تعلق بیلا روس سے تھا اور جرمن سب سے پہلے منسک میں ہی داخل ہوئے تھے جہاں ان کا قبضہ تین سال تک برقرار رہا جس کے دوران ظلم و ستم کی انتہا کر دی گئی مگر پھر بھی عوام کے جذبۂ حب الوطنی کو نہ کچلا جا سکا اور آخر کار جرمنوں کو یہاں سے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔

بیلا روس نے روس سے الگ ہو کر بھی اس کے ساتھ اپنے بہترین تعلقات کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ انہیں مزید گہرا اور ہمہ جہت بنایا ہے جس کا دونوں ملکوں کو اپنی تاریخی، لسانی، نسلی، ثقافتی، سیاسی اور جغرافیائی قربت کی وجہ سے بہت فائدہ ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کے دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات بڑے اچھے ہیں بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سوویت دور سے ہی بیلا روس کا نام آتے ہی ٹریکٹر کی تصویر ذہن میں ابھر آتی تھی جو پاکستان بھر کی سڑکوں پر نظر آتے تھے، اور ہیں۔

2012؁ میں بیلاروس کی ایک میڈیا کمپنی سے پاکستان کی تاریخ، سیاست، ثقافت، معیشت اور تہذیب و تمدن پر ایک مربوط اور جامع ڈاکومینٹری بنانے پر گفت و شنید کی گئی تاکہ پاکستان کو بیلا روس کے عوام سے روشناس کرایا جا سکے۔ اس کمپنی نے بڑی محنت سے یہ ڈاکومنٹری تیار کی اور اسے وقفے وقفے سے نشر کیا جاتا رہا۔ اپنے عمدہ سکرپٹ، بہترین فلم بندی اور اعلیٰ تکنیکی خوبیوں کی وجہ سے اس ڈاکومینٹری نے بیلا روس میں پاکستان کا ایک بہتر امیج پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس ڈاکومنٹری میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے صدر مقام، اہم شہر، سیاحتی مقامات اور قدیم تہذیبی مراکز دکھائے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں اہم پاکستانی سیاسی لیڈروں کے جامع انٹرویو شامل کر کے پاکستان کا سیاسی منظر نامہ پیش کیا گیا ہے

لیکن مجموعی طور پر پاکستان اور بیلا روس کے تعلقات کی نشو و نما سست روی کا شکار رہی۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہاں ہمارے سفارت خانے کی عدم موجودگی بھی تھی۔ جب 2013؁ء میں مسلم لیک۔ ”ن“ کی حکومت برسر اقتدار آئی تو پاکستان کے بیلا روس اور اس علاقے کے دوسرے ممالک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں بہتری آئی۔ خاص طور پر یہ بہتری صدر بیلاروس کے مئی 2015ء میں دو رۂ پاکستان سے ہوئی۔ اس دورے میں پاکستان اور بیلا روس کے درمیان کوئی دو درجن باہمی اشتراک کے معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔

بات یہاں تک محدود نہ رہی بلکہ اسی سال جولائی کے مہینے میں وزیر اعظم نواز شریف نے بیلا روس کا دورہ کیا ان کے وفد میں وزیر تجارت خرم دستگیر، وزیر اطلاعات و نشریات، قومی ورثہ سینٹر پرویز رشید، دفاعی پیداوار کے وزیر رانا تنویر حسین، وزیر خوراک و زراعت سکندر اقبال بوسن کے علاوہ مختلف اداروں کے سربراہان اور وفاقی سیکریٹریوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔

یہاں پاکستانی سفارت خانے کا افتتاح 3 اگست کو ہوا اور 10 اگست کو وزیر اعظم نواز شریف صدر بیلا روس الیگزینڈر لوکا شینکو کی دعوت پر دو روزہ سرکاری دورے پر یہاں آئے۔ منسک کے ہوائی اڈے پر صدر لوکا شینکو اور ان کی کابینہ کے وزرا نے وزیر اعظم اور ان کے وفد کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔

بیلا روس میں پاکستان کے پہلے سفیر ہونے کا اعزاز ہمارے دیرینہ دوست اور بیج میٹ مسعود خان راجہ کو حاصل ہوا اور انہوں نے محدود وقت اور وسائل کے ساتھ اس انتہائی اہم دورے کو پاک بیلا روس تعلقات میں ایک تاریخی سنگ میل بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سفارتخانے کا عملہ بشمول سفیر، چار افراد پر مشتمل تھا چنانچہ دوسرے ممالک سے افسروں اور عملے کو یہاں بھیجا گیا۔ ان ممالک میں روس بھی شامل تھا۔ چنانچہ راقم کو اس دورے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

خوش آئند بات یہ تھی کہ دورے کے تمام تر اہداف اور مقاصد واضح اور متعین تھے اور وفد کے تمام اراکین نے بڑی محنت، مستعدی اور برق رفتاری سے ان اہداف کے حصول کو قابل عمل بنایا۔ اس کامیابی میں بیلا روس کی حکومت خصوصاً صدر بیلاروس کا کردار قابل توصیف ہے جنہوں نے پروٹوکول کی تمام روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستانی وفد کی ہر جگہ رسائی کے لئے نہ

صرف ہر سہولت میسر کی بلکہ ان کی پذیرائی میں بھی کوئی کثر نہ اٹھا رکھی۔ یوں مہینوں اور سالوں کا کام دنوں میں مکمل ہوا۔ پاکستان اور بیلا روس کے درمیان کوئی بیس معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر نہ صرف دستخط ہو گئے بلکہ زیادہ تر پر عمل درآمد کے لئے روڈ میپ اور وقت کے تعین پر بھی مکمل اتفاق رائے ہو گیا۔ زیادہ تر معاہدوں اور مفاہمت کی یاد داشتوں کا تعلق زراعت، تجارت، صنعت اور سرمایہ کاری کے شعبوں سے تھا۔ سیاسی حوالے سے علاقائی امن و سلامتی اور خوش حالی، اور دہشت پسندی و منشیات کے خاتمے کے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ صدر لوکا شینکو نے سی پیک کے منصوبوں میں بھی شراکت کی خواہش کا اظہار کیا

پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات اور بیلاروس کی وزارت ثقافت کے درمیان اسلام آباد میں مئی 2015؂؁ میں ہونے والے معاہدے کے تحت دونوں ممالک مشترکہ فلم سازی کریں گے اور دونوں ملکوں کی فلمیں ایک دوسرے کے ملک میں دکھائی جائیں گی۔ اسی معاہدے کے مطابق منسک کے سٹرالنی سینما میں پاکستان فلم فیسٹیول کا افتتاح 11 اگست کو فلم ’بن روئے‘ کی نمائش سے ہوا۔ ’ہم ٹی وی‘ کی پیش کش اس فلم کو ہم ٹی وی کے ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر اطہر وقار عظیم لے کر آئے تھے جو پہلے پی ٹی وی کے ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر رہے تھے اور اسی زمانے سے ان سے یاد اللہ تھی۔

فلم فیسٹیول کا افتتاح وزیراطلاعات و نشریات و لوک ورثہ پرویز رشید اور بیلا روس کے وزیر ثقافت بورس سویتلو نے کیا۔ دونوں وزرا نے پاکستان اور بیلا روس میں فلم سازی کے مختلف شعبوں میں قریبی تعاون کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ افتتاح کی تقریب کے بعد پرویز رشید صاحب کو ایک اور اجلاس میں شریک ہونا تھا مگر پاکستانی وفد کے باقی لوگوں کو انہوں نے ناظرین کے ساتھ فلم دیکھنے کو کہا کہ ناظرین کی دل شکنی نہ ہو۔

سچ پوچھئے تو ہم سب بھی وطن سے دور وطن عزیز کی ایک فلم دیکھنے کا موقع ملنے پر بہت خوش ہوئے۔ یوں ہمیں فرحت اشتیاق کی تحریر کردہ 116 منٹ طویل اس فلم سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ بیلا روسی ناظرین اس فلم سے بہت متاثر ہوئے۔ خاص طور پر اس کی موسیقی سے۔ ہر گیت پر بہت سے بیلاروسی ناظرین اپنی نشستوں سے اٹھ جاتے اور تال سے تال ملا کر رقص کر کے داد دیتے۔

اسی طرح بعض المیہ مناظر، خاص کر ہیرو (ہمایوں سعید) کی پہلی بیوی کے ساتھ پیش آنے والے کار حادثے کے منظر پر ہال سے ناظرین کی آہیں اور کراہیں بلند ہوئیں، بعد میں یہ فلم جو اصل میں ہم ٹی وی کا ایک ڈرامہ سیریل تھا جسے فلم کی شکل دے دی گئی تھی، میں نے ہم ٹی وی کی وساطت سے بارہا دیکھی۔ یہ منظر واقعی اتنا موثر اور حقیقی طور پر فلمایا گیا ہے کہ کم کم فلموں میں ہو گا۔

ہمارے بڑے بڑے ٹی وی چینلوں کا ڈراموں کو فلموں میں تبدیل کرنے کا تجربہ بہت کامیاب رہا ہے اور اس سے فلمی صنعت کی بحالی میں بہت مدد ملی ہے۔ روس کی یونیورسٹیوں اور دوسرے علمی اداروں کے دوروں کے دوران مجھے بار بار یہ احساس ہوا کہ وہاں کے طلبا اور اساتذہ بھی انڈین فلموں سے خاصے متاثر ہیں۔ اس وقت پاکستانی ڈرامے طویل مدت کے بعد ایک بار پھر اپنے ماضی کی شاندار روایات کی طرف لوٹ رہے تھے لیکن فلمی صنعت کی حالت اب بھی ابتر تھی۔

میں نے پاکستانی فلمی صنعت کی از سر نو جلد بحالی کو اپنی گفتگو کا موضوع بنایا اور روسی دوستوں کو بتایا کہ لاہور غیر منقسم ہندوستان میں بھی فلمی صنعت کا اہم مرکز تھا اور کلکتہ اور بمبئی کے فلمی مراکز کا اہم معاون تھا۔ برصغیر کی فلمی صنعت کے کم ہی ایسے بڑے نام ہوں گے جن کا تعلق لاہور سے نہ رہا ہو۔ ان کے لئے یہ امر بھی حیرت اور دلچسپی سے خالی نہ تھا کہ ہندوستانی فلمی صنعت کے بڑے بڑے اداکاروں، موسیقاروں، ہدایت کاروں و دیگر فلمی شخصیات کا تعلق پاکستان میں شامل علاقوں سے ہے۔

جیسے دلیپ کمار، راج کپور اور مدھو بالا کا تعلق پشاور، برصغیر کے پہلے پہلے سپر سٹار بلراج ساہنی اور شیام کا تعلق راولپنڈی، منفرد اور مقبول عام موسیقار اوم پرکاش نیئر، جس نے برصغیر کی فلمی موسیقی میں بنگالی کے مقابلے میں پنجابی انگ متعارف کرا یا جو آج تک مقبول ہے اور بین الاقوامی شہرت کے مالک ہدایت کار، شاعر، ادیب، کہانی نویس، مکالمہ نویس اور فلم کے ہر شعبے پر دسترس رکھنے والے گلزار کا تعلق دینے، اور راجیش کھنہ کا تعلق جڑانوالہ سے ہے۔ میں نے انہیں اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ آج بھی بہت سی مقبول ہندوستانی فلموں کے گیت پاکستانی گلو کار گا رہے ہیں۔

پاکستانی ڈراموں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے شہ پا کر میں نے یہ دعویٰ بھی داغ دیا تھا کہ بہت جلد ہماری فلمی صنعت بھی ٹی وی ڈراموں کی دیکھا دیکھی بحال ہو کر ترقی کی منزلیں طے کر لے گی کہ دونوں میں بنیادی فرق چھوٹی اور بڑی سکرین اور مزاج کا ہی ہے

آج بیلا روس کے شہر منسک کے سٹرالنی سینما میں اپنے خواب سچ ہوتے نظر آ رہے تھے۔ فلم کے اختتام پر دیر تک ہال تالیوں کی آواز سے گونجتا رہا اور ہال میں موجود ناظرین پاکستانی وفد کے اراکین سے ہاتھ ملاتے اور فلم کی پرجوش انداز سے تعریف کرتے رہے جس کا اندازہ ہمیں ان کے جذباتی تاثرات سے ہوا کہ وہ سارے روسی یا بیلا روسی زبان بول رہے تھے اور ہمارے وفد کا کوئی رکن شاذ ہی اس زبان سے واقف تھا

زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم

وزیر اعظم کے بیلا روس کے دورے میں ذاتی مسرت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ طویل مدت کے بعد وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد سے ملاقات ہوئی۔ سول سروس اکیڈمی میں مشترکہ تربیت کے دوران ان کی صلاحیتیں سب پر کھلیں۔ انہیں کھیلوں سے لے کر علم و ادب تک بے شمار شعبوں میں دسترس حاصل ہے۔ ہماری دوستی کی وجہ شعر و ادب سے لگاؤ تھا۔ ضلعی انتظامیہ سے تعلق رکھنے والی ایک نابغہ شخصیت رشید احمد (2014 میں بطور ایڈیشنل سیکریٹری ریٹائر ہوئے ) ہماری منڈلی کے رکن بلکہ سر براہ تھے اور رات رات بھر ہمارے مشاعرے جاری رہتے تھے۔

فواد صاحب بلا کا حافظہ رکھتے ہیں اور بلاشبہ اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں اشعار انہیں ازبر ہیں، لیکن نہ جانے کیوں وہ اپنی اس صلاحیت کا اظہار نہیں کرتے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ بہت اچھا شعر کہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر ان کی کوئی چھپی ہوئی چیز کبھی میری نظر سے نہیں گزری۔ میرے بار بار کے استفسار سے چھٹکارا پانے اور تجسس کو دور کرنے کے لئے انہوں نے بڑی دلچسپ مگر درست منطق پیش کی کہ وہ ملازمت سے سبکدوشی کے کم از کم پانچ سال بعد اپنا کلام سامنے لائیں گے تا کہ انہیں اپنے کلام کی صحیح قدر و قیمت معلوم ہو سکے۔

اس دورے کے دوران فواد صاحب نے وزرائے کرام سے میرا تعارف کچھ ایسے اچھے انداز سے کرایا کہ لگا کسی اور کا تعارف کرایا جا رہا ہے۔ تعارف تھا کہ شاعری کی صنعت مبالغہ کا کامل اظہار تھا۔ اس کا ایک فائدہ ہوا کہ میں وزرا کے مختلف صنعتی اداروں اور تاریخی مقامات کے دوروں میں پیش پیش رہا اور بیلا روس کی صنعتی ترقی خصوصاً زراعت اور بھاری صنعتوں میں قابل رشک ترقی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وزیر تجارت خرم دستگیر نے دوربینیں بنانے والے ایک پروڈکشن یونٹ کے دورے کے دوران جب چند تکنیکی سوالات کیے تو وہاں کے ایم ڈی نے حیرت سے پوچھا کہ کیا وہ انجینئر ہیں؟ وزیر موصوف کے اثبات میں جواب پر اس نے تفصیل سے تمام معلومات فراہم کیں جس پر وزیر صاحب نے مخصوص خصوصیات کی حامل دوربینوں کی تیاری کے کے لیے باہمی تعاون کے امکان پر بات کی۔ اسی طرح دوسری بہت سی اشیا کی مشترکہ بنیاد پر تیاری کے امکانات کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ دونوں ملکوں میں زرعی اور صنعتی

اشتراک کی وسیع بنیادیں موجود ہیں اور قریبی تعاون کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ضروری جذبۂ خیر سگالی بھی بدرجہ اتم موجود ہے بیلاروسی حکام نے پاکستانی وفد کے اراکین کو منسک میں جنگ عظیم دوم میں بیلا روسی عوام کی تحریک حریت و مزاحمت کی یادگار کے طور پر قائم کیا گیا میوزیم، بالشوئے تھیٹر اور دیگر تاریخی مقامات کی سیر بھی کرائی۔ ہر جگہ پاکستانی وفد کا فقید الامثال استقبال کیا گیا۔ یوں لگتا تھا دورے کے دنوں میں بیلا روسی حکومت اور عوام کو پاکستانی وفد کے استقبال کے علاوہ کوئی کام نہیں۔

دورے کے اختتام پر جب وزیر اعظم اور وفد منسک ائرپورٹ کے لئے روانہ ہوئے تو اس وقت دن کے ساڑھے دس بجے تھے۔ ابھی آدھے راستے میں تھے کہ صدر بیلا روس نے وزیر اعظم اور وفد کو اپنے صدارتی محل میں لنچ پر یہ کہہ کر مدعو کیا کہ اتنی طویل پرواز میں دن کے کھانے کے لیے مناسب وقت دستیاب نہ ہو گا۔ چنانچہ وزیراعظم اور وفد تو صدر صاحب کی رہائش گاہ جب کہ باقی افسران اور عملہ ائر پورٹ کی جانب روانہ ہو گئے۔ کھانا تو لگتا ہے ایک بہانہ تھا صدر صاحب مزید وقت مہمانوں کے ساتھ گزارنا چاہتے تھے کہ کوئی اڑھائی گھنٹے بعد وفد وہاں سے روانہ ہوا۔ کسی سرکاری دورے کے دوران اتنی مہمان داری اور یگانگت کم از کم ہم نے کبھی نہیں دیکھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments