آئین پاکستان کے گرے ایریا


بلوچستان کے ان گائیڈڈ میزائل قاسم سوری نے تمام سیاسی جماعتوں، وکلا، عدلیہ، سول سوسائٹی سمیت تمام اداروں کو ایک بہترین موقع فراہم کر دیا ہے کہ آئین پاکستان میں موجود گرے ایریا پر نظر ثانی کی جائے اور ان کی ازسرنو تشریح کی جائے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کی حکومت نے جب نیا آئین تیار کیا تو اس پر چھوٹے صوبوں کی جماعتوں کے بہت سارے تحفظات تھے۔ اس وقت ذوالفقار بھٹو کی جماعت پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی اور باقی صوبوں کے سیاستدانوں کو آئین پاکستان پڑھنے کے بعد یہ تاثر ملا کہ شاید ذوالفقار بھٹو ہمیں نظرانداز کر رہے ہیں۔

اس موقع پر ذوالفقار بھٹو نے کہا آئین پاکستان تمام صوبوں کے لئے برابر ہو گا اس میں کسی سے کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔ تمام صوبوں کو برابری کی سطح پر حقوق اور اختیارات ملیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دس سال بعد آئین پاکستان پر نظر ثانی کی جائے گی۔ ذوالفقار بھٹو کے انتقال کو چار دہائیوں سے زائد عرصہ گزر گیا ہے آئین میں ترامیم تو ہوتی رہی ہیں لیکن اس میں موجود گرے ایریا پر نظر ثانی نہیں کی گئی اور نہ ان کی تشریح کی گئی ہے۔

جیسے کل شہباز شریف اپنی پریس کانفرنس میں کہہ رہے تھے کہ سپیکر کے اختیارات اتنے بھی لامحدود نہیں ہیں کہ وہ یہ بھی کہہ دیں گے ایوان میں جو خاتون برقعہ پہن کر آئے گی اس کا ووٹ گنتی میں شمار ہو گا یا خاتون کا ووٹ آدھا شمار ہو گا۔ اسی طرح این ایف سی ایوارڈ کا معاملہ بھی بہت پیچیدہ ہے۔ ہر حکومت کے دور میں چھوٹے صوبے ہمیشہ ایک ہی ایشو اٹھاتے ہیں کہ ہمیں این ایف سی ایوارڈ کے مطابق حصہ نہیں ملتا۔ چھوٹے صوبوں کے ساتھ نیا سوشل کنٹریکٹ کرنا چاہیے۔

آزاد کشمیر اور گلگت کا بجٹ بھی بڑھانا چاہیے۔ آزاد کشمیر کا آخری مرتبہ اسحاق ڈار نے بجٹ بڑھایا تھا۔ پنجاب کے علاوہ پورے ملک کے اس وقت تین بڑے مسئلے ہیں۔ صحت کی اچھی اور معیاری سہولیات ناپید، اچھے تعلیمی اداروں کا نہ ہونا اور سڑکوں کا مسئلہ تو سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس لیے پورے ملک سے طلبہ تعلیم کے حصول کے لئے اور مریض علاج کے لئے پنجاب اور سندھ کے بیشتر ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ ہر وزیراعظم کے لئے سب سے بڑا امتحان اس وقت پیدا ہوتا ہے جب آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا معاملہ آتا ہے۔

اگر آرمی چیف کی تعیناتی بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طریقہ کار کے مطابق ہو یعنی سینیارٹی کے مطابق ہو تو یقیناً ہر وزیراعظم اس مشکل مرحلے سے با آسانی گزر سکتا ہے جبکہ میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی بھی یہی دیرینہ خواہش کی تھی کہ آئی ایس آئی کا سربراہ بھی دیگر ایجنسیوں کی طرح سول کپڑوں میں ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ملک کو اس وقت عدالتی اصلاحات، فوجداری اصلاحات، تعلیمی اصلاحات، معاشی اصلاحات، پولیس اصلاحات اور زرعی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

یہ تمام آئینی ترامیم اور اصلاحات وہی حکومت کر سکتی ہے جس کے پاس دو تہائی اکثریت ہو۔ سادہ اکثریت والی اور بیساکھیوں کے سہارے کھڑے حکومت اتنے بڑے آئینی معاملات حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھ سکتی۔ بظاہر یہ بڑے معاملات بھی نہیں ہیں کیونکہ ان آئینی ترامیم، آئین کی تشریح اور اصلاحات ملک و قوم اور تمام ملکی اداروں کی بہتری کے لئے ہیں۔ اگر تمام ملکی سیاسی جماعتیں، ادارے اور متعلقہ سٹیک ہولڈر ان پر متفق ہوجائیں تو پھر پاکستان حقیقی معنوں میں آزاد، خود مختار اور معاشی طور پر مضبوط ملک بن سکتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام پیچیدہ معاملات کو سنجیدہ ہو کر اور ایک ہو کر حل کر لیا جائے۔ ہماری تین نسلیں پہلے ہی یہ جنگ لڑتے لڑتے دنیا سے چلی گئی ہیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ ہماری آنے والی تین نسلیں بھی اسی کشمکش میں ہی دنیا سے چلی جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments