آئین شکنی اور ملک کی بحرانی کیفیت


پہلے سنا تھا کہ ڈکٹیٹرز اور ان کے آلہ کار آئین کو سبوتاژ کرتے ہیں اب افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ملک میں عوام کا منتخب ہونے والے وزیراعظم نے بھی اپنی انا، ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے پارلیمنٹ کے اندر ہی سے آئین پر ایسا وار کیا ہے جس سے نہ صرف پارلیمنٹ اور آئین کی توہین ہوئی بلکہ یہ ملک آہستہ، آہستہ سے ایک مضبوط جمہوری اور آئینی پروسس کی طرف جا رہا تھا وہ کمزور پڑھ گیا ہے۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک ایسے لیڈر ہیں جنہوں نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے بھی ضد اور ہٹ دھرمی دکھائی اور تین سال تک ایک انا پرست حکمران بنے رہے اور جب ان کی حکومت اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے سامنے ہچکولے کھا رہی تھی تو اس وقت ایک جمہوری پراسس کا سامنا کرنے کی بجائے اپنی انا کو ترجیح دی۔ اقتدار میرے لئے ہے اب میرا نہیں رہا تو کیسی کا بھی نہیں رہے۔ عمران خان کے اس گھناؤنے جرم کے موقعے پر متحدہ اپوزیشن نے جو صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور اینٹھ کا جواب پتھر سے دینے کی بجائے آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہوئے اور اور اس کی حفاظت کرنے کا جو علم اٹھایا ہے اس پر متحدہ اپوزیشن کے لیڈران بلاول بھٹو، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن مبارک باد کے مستحق ہیں۔

جمہوری لوگوں کا رویہ اسی طرح آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ ایک جمہوری سیٹ اپ میں اپوزیشن یا پارلیمنٹ کے ممبران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب بھی چاہیے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے بلکہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے لیکن آج ایک انا پرست وزیراعظم کی وجہ سے ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے جس میں نہ آئین ہے نہ پارلیمنٹ اور کابینہ ہے۔ یہ اپوزیشن کی سنجیدہ قیادت کی دور اندیشی ہے کہ اس نازک وقت میں جلسے جلوس کر کے ملک میں بے یقینی پیدا کرنے کی بجائے عدالتوں کے دروازے کھڑکھڑا رہی ہیں۔

خان صاحب کہتے ہیں کہ ان کے خلاف عدم اعتماد اپوزیشن اور امریکہ کی گھڑ جوڑ سے آئی ہے۔ امریکہ ایک سپر پاور ہے اس کو کیا ضرورت ہے آپ کے خلاف سازش کرنے کی۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے دو سال پہلے ہی آپ کے خلاف پی ڈی ایم بنائی تھی یہ کیسی ایک نقطے پر متفق نہیں ہونے کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد نہیں لا سکے تھے اب جب کہ اپوزیشن کا تحریک عدم اعتماد پر متفقہ فیصلہ ہوا تو پیش کردی گئی۔

آج کل خان صاحب کے لوگ شہباز شریف کے اس بیانئے کو ہائی لائٹ کر رہے ہیں کہ ہم بھکاری ہیں جب ہاتھ میں کشکول ہو تو وہ قوم بھکاری ہی سمجھی جاتی ہے۔ شہباز شریف نے قوم سے جھوٹ بھولنے کی بجائے حقیقت بتائی ہے۔ قوم اس وقت نظریاتی، غیرت مند اور اپنی آزاد خارجہ پالسی رکھ سکتی ہے جب وہ معاشی لحاظ سے مضبوط ہو۔

اب اقتدار نہ رہا تو خان پھر سے کنٹینر میں کھڑے ہو کر نظریہ، خودداری اور غیرت مندی کا چورن بیچ رہے ہیں۔ آپ کو اس قوم نے پونے تین سال تک آزماتی رہی ہیں آپ نے اپنے دور اقتدار میں قوم کو بھوک، افلاس اور بے روزگاری کے سواء کچھ بھی نہیں دیا ہے اور آخر میں آپ نے اس آئینی اور عوامی پارلیمنٹ پر بھی وار کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جو عوام کی حق رائے دہی اور خود مختاری کی ایک علامت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments