امریکی خط اور دوراہے پہ کھڑی قوم


یہ متنازع خط ہے کیا؟ اپنی تحقیق آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ پڑھنے لکھنے والے اکثر کیونکہ ٹوٹے ہوئے دلوں والے لوگ ہوتے ہیں اس لیے دل کی کرچیاں تھام لیجیے گا۔

جب عدم اعتماد تحریک کا غوغا تھا تو سابقہ وزیراعظم عمران خان صاحب ہمیشہ کی طرح حد سے متجاوز پر اعتماد نظر آرہے تھے اور انہوں نے اس تحریک کو اپنی اللہ سے دعا کی قبولیت قرار دیتے ہوئے دو نفل بھی ادا کیے اور اسے کپتان کی طرف سے اپوزیشن کے لیے بچھایا ہوا جال قرار دے دیا۔ ساتھ یہ بھی کہنا نہ بھولے کہ عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے بعد وہ ان تینوں چوہوں (معذرت لیکن یہ الفاظ بد قسمتی سے ملک کے وزیراعظم کے ہیں ) کا باری باری شکار کروں گا۔

خان صاحب بے اس دوران مختلف جلسے کیے اور 27 مارچ کو اسلام آباد میں تحریک عدم اعتماد پر اسمبلی اجلاس سے قبل ایک حتمی جلسے کا اعلان کیا جس کا نام انہوں نے ”امر بالمعروف جلسہ“ رکھا۔ اور حتمی کا لفظ اس لیے بھی سنسنی خیز تھا کہ اس جلسے میں خان صاحب نے بڑے سرپرائز کا اعلان کیا۔

پاکستان کے طول و عرض سے سیاست سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص نے اس بارے میں اپنی اپنی رائے قائم کی اور اندازوں اور قیافوں کے گھوڑے دوڑائے۔ یہاں تک لوگوں نے کہا کہ خان صاحب شاید آرمی چیف کو ہٹا دیں گے اور پھر شاید مارشل لاء لگ جائے (خدا نخواستہ) کہ اس سے بڑا سرپرائز اور کیا ہو سکتا ہے۔

خیر 27 مارچ کو امر بالمعروف جلسے میں خان صاحب کی تقریر شروع ہوئی تو انہوں نے ایک گھنٹے کی تقریر کے بعد کہا ”نوجوانوں اب خاموشی! کیونکہ اب میں سنجیدہ بات کرنے لگا ہوں“ ۔ یہ بات ان کی درست بھی تھی کیونکہ واقعی پہلے ایک گھنٹے میں کی گئی باتوں کو اگر ان کے دور اقتدار کے عملی اقدامات کی روشنی میں دیکھا جائے تو غیر سنجیدہ، خود پسندی اور نرگسیت سے اٹی ہوئی باتیں ہی لگتی ہیں۔

اسکے بعد انہوں نے کہا کہ اب میں لکھی ہوئی تقریر پڑھ رہا ہوں۔ اور یہی وہ سرپرائز تھا یہی وہ دھماکہ تھا اور پوری قوم کے جسے میں دائرے کا سفر کہہ رہا ہوں وہ یہی تھا کہ خان صاحب نے لکھی ہوئی تقریر کرتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ یہ عدم اعتماد کی تحریک ایک عالمی طاقت کی سازش ہے اور اس کے ثبوت کے طور پر ایک خط اپنی واسکٹ کی جیب سے نکال کر جلسے میں لہرا دیا کہ ہمیں اس خط کی صورت دھمکی ملی ہے اور یہ کہ مجھے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح آزاد خارجہ پالیسی کی سزا ”رجیم چینج“ کی صورت دی جا رہی ہے۔

اور قارئین کرام وہاں سے اس دائرے کے سفر کا آغاز ہوا اور وہ دن اور آج کا دن ہر لمحہ سیاسی افق پر منظر نامے میں یہ خط ہے اور ہم ہیں۔

اس سے بھی بڑا سرپرائز خان صاحب نے 3 اپریل کو اتوار والے دن عین اس وقت دیا جب عدم اعتماد تحریک پر رائے شماری کا اجلاس شروع ہوا۔ اجلاس کے شروع ہوتے ہی وزیر قانون فواد چوہدری صاحب نے اس تحریک ہی کو آرٹیکل 5 کے منافی قرار دیا اور اسے ملکی سلامتی کے خلاف غداری قرار دیا جس کی روشنی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری صاحب نے فوری طور پر اس تحریک عدم اعتماد کو آئین کے منافی قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا اور خان صاحب نے فوری طور پر قوم سے خطاب میں اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کی طرف جانے کے لیے صدر پاکستان کو اپنی سفارش پیش کر دی۔

اپوزیشن کیا پورا ملک کیا پوری دنیا ہکا بکا رہ گئی کیونکہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آئین پاکستان میں واضح طور پر یہ لکھے ہونے کے بعد قانون کے ساتھ اتنا بڑا کھلواڑ کیسے ہو سکتا ہے کہ ”عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی جانے کے بعد وزیراعظم اسمبلیاں نہیں توڑ سکتا“ لیکن بھیا یہ پاکستان ہے یہاں سب کچھ ہو سکتا ہے۔ میری سابقہ سیمنٹ کمپنی کے غیر ملکی چیف ایگزیکٹو کے کہنے کے مطابق A land of Possibilities یعنی ممکنات کی سرزمین۔

امر بالمعروف جلسے میں جو غیر ملکی دھمکی آمیز خط تھا وہ نہی عن المنکر والے قوم سے خطاب میں ایک پیغام اور مراسلہ بن چکا تھا کہ مذہب کارڈ اتنی دیر ہی چلتا ہے۔

یہ بات تو طے ہو گئی کہ امر بالمعروف جلسے میں اسے جان بوجھ کر غیر ملکی خط کہا گیا کیونکہ اس پر آئندہ سیاست کرنی تھی جبکہ دراصل یہ ایک معمول سفارتی کیبل تھی۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ 7 تاریخ کو امریکہ میں مقیم پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد محمد خان امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں۔ ایک انتہائی اہم نقطہ یہ ہے کہ ڈونلڈ لو امریکہ میں اس سے پہلے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں مثبت کردار ادا کرنے کی وجہ سے ہمارے سفیر صاحب کی Good Books میں ہوتا ہے۔ 7 مارچ کو ہمارے سفیر ڈونلڈ لو سے پاک امریکہ سرد مہری کا شکار تعلقات پر بات کرتے ہیں۔ طالبعلم کی تحقیق کے مطابق مختلف لوگوں نے اس گفتگو کو مختلف تناظر میں دیکھا۔

بہرحال اہم یہ ہے کہ حکومت وقت نے اس کو کس تناظر میں اور ”کب“ دیکھا 8 مارچ کو اس ملاقات کا احوال سفیر صاحب اپنے روایتی سفارتی مراسلے میں یہاں فارن آفس بھیج دیتے ہیں۔ اس کے بعد اس امریکی سیکرٹری سے ہمارے سفیر صاحب کی ایک اور الوداعی ملاقات ہوتی ہے کیونکہ ان کا تبادلہ کہیں اور ہو چکا ہوتا ہے۔ 16 تاریخ کو سفیر صاحب اپنے ٹویٹ میں ڈونلڈ لو کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات میں ان کے prospective کا جس کا مطلب مستقبل سے متعلقہ یا ممکنہ ہے۔

اس کے بعد حیران کن طور پر وہی وزیر خارجہ جن کو یہ مراسلہ بھیجا جاتا ہے وہ 23 مارچ کو ہونے والی اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کانفرنس میں امریکی عہدے داروں کو ناصرف مدعو کرتے ہیں بلکہ ٹویٹ میں پاک امریکہ تعلقات کے حوالے بڑی گرم جوشی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یقیناً یہاں پڑھنے والوں کے ذہنوں میں یہی سوالات کچوکے لگا رہے ہوں گے کہ۔

@ جس سفیر نے یہ کیبل بھیجی وہ تو شکریہ ادا کر رہا ہے دوبارہ بھی مل رہا ہے۔ دھمکیوں کا شکریہ؟

@ 8 مارچ کو ملنے والی کیبل کو 23 مارچ اسلامی ملکوں کی ایک کانفرنس میں محض خوش آمد کے لیے اسی امریکہ کو کیوں مدعو کیا گیا؟

@ ڈونلڈ لو تو مبینہ طور پر پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب سے مل کر پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے 1 ملین ڈالر کی قسط دلوانے میں مثبت کردار ادا کرتا ہے پھر اچانک وہ سازشی کیسے ہو گیا۔

@ طالب علم لکھ چکا کہ وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے امریکہ سے چین اور روس کی جانب مبذول و مرتکز ہونے کا حامی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے ہمیں بڑے زخم دیے ہیں۔ بہت سازشیں کی ہیں۔ لیکن یہ پہلی دفعہ امریکہ اتنا اچھا کیسے ہو گیا کہ بتا کے سازش کر رہا ہے وہ بھی ایک ایسے شخص کی حکومت کے خلاف جو جلسوں میں امریکہ یورپی یونین کا باقاعدہ نام لے کر تنقید کرتا ہے۔ تو انہوں نے کیوں نہیں سوچا ہو گا کہ جب ہم اپنی سازش کا خود ان کو جا کر بتائیں گے تو یہ نا صرف اس کا سد باب کر لیں گے بلکہ Absolutely Not والے خان صاحب اس کو اچھالیں گے بھی؟

@ ندیم ملک صاحب نے اپنے پروگرام میں اس مبینہ خط کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا اور جو کام غدار کہلانے والے 196 عوامی نمائندوں کو کرنا چاہیے تھا وہ انہوں نے اپنے پروگرام میں کر دیا جس ویڈیو میں یہی ڈونلڈ لیو پاک امریکہ تعلقات کے ضمن میں خان صاحب کے امر بالمعروف کو سیاسی بنانے والے بیانیے سے بالکل الٹ بات کر رہا ہے۔

@ کیا اس سے یہ صاف ظاہر نہیں ہوتا کہ 8 مارچ کو ملنے والا سفارتی مراسلہ جسے پاکستان کے خارجہ امور کو شدید خطرے میں ڈال کر محض سیاسی بیانیے کے لیے امریکی خط کہا گیا اس کے کم ازکم 23 مارچ تک سیاسی استعمال کا تو دور دور تک ارادہ نہیں تھا؟

@ سیکیورٹی کمیٹی کے منٹس جاری کرنے کے مطالبے پر شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں اس خط کے مرکزی کردار شاہ محمود قریشی صاحب کی آئیں بائیں شائیں بھی کیا بہت کچھ واضح نہیں کر رہی جس میں وہ سیکورٹی کمیٹی کے منٹس جاری کرنے کے شہباز شریف صاحب کے مطالبے کا اعادہ نہیں کرتے۔ کیوں؟

@ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہمارا موقف وہی ہے جو سیکورٹی کمیٹی کا موقف ہے جبکہ اس کمیٹی میں مختلف صحافیوں اور قانون دانوں کے بقول کہیں منظم سازش اور اپوزیشن ارکان کو غدار قرار دیے جانے کا وہ بیانیہ نہیں جو عمران خان صاحب سیکیورٹی کمیٹی کا نام لے کر پھیلا رہے ہیں۔

اسی دن سپریم کورٹ آف پاکستان نے سوموٹو نوٹس لے لیا اور اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنی اپنی درخواستیں جمع کروا دیں۔ پچھلے چار دن سے پاکستان میں ایک آئینی بحران ہے ملک میں کوئی چیف ایگزیکٹو نہیں بارہ کروڑ کے صوبہ پنجاب میں کوئی حکمران نہیں۔

اگر فیصلہ اپوزیشن اور ملک کے بیشتر قانونی ماہرین کے بیانیے کے مطابق آتا ہے تو پھر تو صرف خان صاحب کی انا ہی قربان ہو گی لیکن اگر فیصلہ اس کے برعکس آتا ہے تو پھر اس کے نتائج کے اثرات داخلی اور خارجی طور پر کہاں کہاں تلک پہنچیں گے کسے خبر۔ گیارہ جماعتوں کے 196 ممبران کو غدار قرار دے کر قوم انتخابات میں کیسے جائے گی جو یہ مطالبہ کر چکے کہ اگر ہم غدار ہیں تو ہمیں پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔

پوری قوم کی ناظرین اس وقت سپریم کورٹ کی جانب لگی ہوئی ہیں۔ پانچ ججوں پر مشتمل بینچ دراصل پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کر رہا ہے۔ ان معزز جج صاحبان کے قلم دراصل اس راستے کا تعین کریں گے جس طرف ملک و قوم نے جانا ہے۔ خدایا خیر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments