زبان اور سماج


ہر زبان کے پس منظر میں ایک سسٹم ہوتا ہے جو سماج کی نشاندہی کرواتا ہے اندرونی لحاظ سے بھی اور بیرونی لحاظ سے بھی اسے جاننا بے حد ضروری ہے تب ہی وہ سماج و افراد کے مابین تعلق استوار ہے۔ کوئی بھی ریاست یا قوم زبان کے اس پس منظر کو جب تک نہ سمجھے اس کی کامیابی کے راستے ہموار نہیں ہوتے۔ بیسویں صدی سے قبل فرد کو مرکزی حیثیت حاصل تھی جو سماجی، کلچر کی ایک ناکامی بھی تھی۔ جو وقت نے کروٹ بدلی تو تبدیلی چاروں طرف رونما ہوئی یہی ایک فرد کو مرکزی حیثیت کی بجائے افراد مل کر سماج کو بناتے ہیں اس پر زور دیا جانے لگا۔ معاشرے اور افراد کے مابین جو بنیادی تعلق استوار جس کے ذریعے ہوا اسے زبان کہا جانے لگا۔

زبان علامتوں کا مجموعہ ہے، کسی جگہ، شخص یا چیز کو نام دینا یہ بنیادی لسانیات میں ہے اور اسی سے آگے سماج میں ترقی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں جب افراد مختلف طریقوں سے آپس میں ان علامتوں کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ علامتیں علمی اعتبار سے سماج میں مرکزی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔

جب کوئی ادیب یا شاعر غزل، نظم یا فن پارہ کہتا ہے تو اس کے پیچھے ایک ریاضت ہوتی ہے جو سماج کے عوض وقوع پذیر ہوتی ہے۔ سوسیر نے زبان کی تشخیص کے لیے دو مراحل بیان کیے ہیں :

1۔ لانگ 2۔ پارول

ان دونوں مراحل کا تعلق داخلیت کے اعتبار سے اور خارجیت کے اعتبار سے سماج سے جڑا ہوتا ہے اور اسی سماجی عمل سے زبان ترقی کرتی ہے۔ کارل مارکس نے معاشی تعلق سے سگمنڈ فرائیڈ نے جینز کے تعلق سے اس کی وضاحت کی ہے۔ کیونکہ ہر زبان کی ایک سماجی ساخت ہوتی ہے اس لیے زبان سیکھی جاتی ہے، سنی جاتی ہے اور بولی بھی جاتی ہے یہ تمام مراحل جہاں سے جنم لیتے ہیں اسے سماج کہتے ہیں۔

علمی لحاظ سے، سائنسی لحاظ سے، سوچنے کے اعتبار سے ایک ادبی رجحان جو پیدا ہوتا ہے وہ سماج کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ اس لئے اس کو دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں، سماج ہی ایک باقاعدہ زبان کی تخلیق اور تشخیص کرتا ہے کیوں کہ سماج کی بنیادی اکائی فرد ہے، جب مختلف افراد مل کر سماج میں رہتے ہیں تو وہ اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں، اس عمل میں انہیں ایک زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اپنا موقف دوسروں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اس امر کے لئے افراد کو زبان سیکھنا بھی پڑھتی ہے، سننا بھی پڑتی ہے۔ یہی زبان آگے چل کر چیزوں کے نام متعین کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پھر ان چیزوں کے مختلف نام دے دیے جاتے ہیں جو بنیادی طور پر سماج کے قانون اور قوانین کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔

یہی نام آگے چل کر اس قوم اور سماج کے مابین ایک تعلق استوار کرتے ہیں جو اس قوم کی تہذیب و تمدن، چال ڈال، مذہب، زندگی گزارنے کے طور طریقے اور رسم و رواج متعین کرتے ہیں۔ اس کو مجموعی طور پر قوم کا چال چلن کہا جاتا ہے۔

اس تحقیق سے یہ ثابت ہوئی بات، سماج اور افراد کے مابین جو چیز بنیادی اہمیت کی حامل ہے وہ زباں ہے۔ کیوں کہ زبان اس سماج کو سمجھنے اور آگے بڑھنے میں معاون اور مددگار ہوتی ہے۔

سائنسی اعتبار سے، مذہبی اعتبار سے، معاشی اعتبار سے اور دیگر اہم پیغام رسانی کے لیے سماج کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ زباں نہیں ہے۔

جتنے بھی اس وقت ترقی یافتہ ممالک و اقوام ان کی بنیادی ترقی زبان ہے۔

اس بات کو سائنس نے بھی ثابت کر دیا ہے ایک فرد سے دوسرے فرد تک یا ایک نسل سے دوسری نسل تک اپنا موقف پہنچانے کے لیے زبان ہی سہارا دیتی ہے۔ جو اس سماج اور رنگ و نسل کی نشاندہی کے طور پر بھی سامنے آتی ہے۔ ہمیں بھی آج بطور پاکستانی اور ایک قوم اس امر کی ضرورت ہے جو قومی اعتبار سے سماج میں ترقی کے راستے ہموار ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments