روس یوکرین جنگ کے عالمی معیشت پر اثرات


روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ نے ساری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ جنگ سے پیدا ہونے والے مصائب سے انسانوں کا ہر طبقہ اذیت محسوس کرتا ہے۔ جنگ جان و مال، غذائی سلامتی اور بود و باش کو طویل مدت تک متاثر کرتی ہے۔

مغربی ممالک میں روس کے صدر پیوٹن پر زبردست تنقید ہو رہی ہے، جبکہ روس کے صدر بھی تمام تر مغربی مخالفت کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ بے گناہ شہریوں کا جنگ کا ایندھن بننا کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ روسی فوج کی اسٹریٹجی یہی لگتی ہے کہ وہ کیف پر قبضہ کر لے، اگر روس کی فوج نے کیف پر حملہ کیا تو یہاں بھاری جانی نقصان کا خدشہ ہے۔ کیف میں شہری ہلاکتوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی ہے۔ ماریوپول شہر کی 40 فیصد عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں، 5000 ہزار سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

یوکرین کی وزارت اقتصادیات کے مطابق یوکرین کو اب تک 560 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے اور آٹھ ہزار کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوئیں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر روس اور یوکرین کی جنگ پر قابو نہیں پایا گیا اور جنگ بندی کی کوئی سبیل نہیں نکلی تو خام تیل کی قیمت عالمی بازار میں دو سو ڈالر فی بیرل ہو سکتی ہے۔ عالمی تیل کی سپلائی میں روس کی حصہ داری دس فیصد ہے۔ یورپ کی ایک تہائی اور ایشیائی ممالک کی قدرتی گیس اور خام تیل کی بڑی ضرورت روس سے ہی پوری ہوتی ہے۔

یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں دنیا بھر کی معیشتوں پر پڑنے والے ممکنہ اثرات سے یورپی ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جو اپنی تیل اور گیس کی تقریباً 40 فیصد ضروریات کے لیے روس پر انحصار کرتے ہیں۔ تیل کی قیمت 120 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کا فیول امپورٹ بل پہلے ہی تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ ملک مزید اضافے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تیل کی قیمت 5 ڈالرز بڑھنے سے ملک کو 1.2 ارب ڈالرز کا اضافی خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے۔

توانائی کی قیمتوں میں اضافہ عالمی معیشت پر منفی اثرات ڈالے گا۔ یورپ نے حالیہ برسوں میں روسی گیس پر انحصار کم کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، خاص طور پر جرمنی، جس نے جوہری توانائی کو ترک کر دیا تھا، یہاں تک کہ اسے مزید بڑھا دیا۔ جرمنی نے روس سے نورڈ اسٹریم 2 قدرتی گیس پائپ لائن کی فراہمی بھی روک دی ہے۔ تیل اور گیس درآمد کرنے والے ممالک کو اونچی قیمتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تیل کی اونچی قیمتیں امریکی صارفین کو نقصان پہنچائیں گی، جبکہ تیل اور گیس کی صنعت سے منسلک کاروباری اداروں اور کارکنوں کے زیادہ محدود طبقے کی مدد کریں گی۔

قیمتوں میں اضافے سے افراط زر میں بھی اضافہ ہو گا، جو پہلے ہی امریکا، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ معیشتوں میں بلند ترین سطح پر ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کی لہر اور دوسرے انسانی مسائل کے علاوہ اس جنگ سے افراط زد بڑھے گا، جبکہ خوراک اور توانائی کی اشیا مہنگی ہوں گی۔ دنیا بھر میں تجارت اور کاروبار بری طرح متاثر ہوں گے، جبکہ سرمایہ کاروں میں غیر یقینی کی صورتحال بڑھے گی جس سے اثاثوں کی قیمتیں گر جائیں گی۔

روس اور یوکرین دنیا کی 40 فیصد گندم پیدا کرتے ہیں، یوکرین دنیا میں گندم ایکسپورٹ کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں خوراک کے سامان کی قلت کا بھی خدشہ ہے جہاں مصر جیسے ممالک اپنی گندم کا 80 فیصد روس اور یوکرین سے درآمد کرتے ہیں۔ لبنان، ترکی، سوڈان نائجیریا، تنزانیہ، الجیریا، کینیا اور جنوبی افریقہ بھی اپنی ضرورت کی گندم کا زیادہ تر حصہ روس یا یوکرین سے حاصل کرتے ہیں۔ اب تک جنگ کی وجہ سے پیداوار کو خطرات درپیش ہیں، لیکن یہ اثر اس بات پر منحصر ہو گا کہ جنگ کب تک جاری رہتی ہے اور اس میں صورتحال کس حد تک خراب ہوتی ہے۔ روس یوکرین جنگ کو جلد رکنا چاہیے، بصورت دیگر عالمی معیشت اس سے براہ راست یا بالواسطہ ضرور متاثر ہو گی اور کورونا وبا سے پہلے ہی گھبرائی اور پریشان دنیا کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments