صلائے خاص ہے یاران نکتہ داں کے لئے


سفر کسی سطح اور کسی نوعیت کا ہو، اس کے مختلف مدارج اور مراحل ہوتے ہیں اور اس عمل کو شعوری اور غیر شعوری طور پر طے ہونا ہوتا ہے خواہ اس سے دوچار اس سے کتنے ہی بے خبر اور لاتعلق ہوں۔ ارتقا اپنی رفتار سے اپنے تمام تر اثرات کے ساتھ جاری و ساری رہتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس سفر کے شریک، اگر اس صورت حال کو سمجھنے، جاننے اور اس کے مطابق خود کو ڈھالنے کی اہلیت سے ہمکنار ہوں تو یہ رفتار متوازن اور متواتر ہو کر مسلسل آگے کی سمت کا رخ اختیار کر سکتی ہے جسے ہم مختصر الفاظ میں، ترقی، تعمیر اور ٹھہراؤ کا نام دے سکتے ہیں۔

اگر ان مراحل اور مدارج کے تقاضوں سے، صرف نظر کیا جائے تو غیر محسوس طریقے سے اس سفر میں وہ رکاوٹیں اور اندیشے اپنی جگہ بنا لیتے ہیں جن کی بہ دولت سفر، بہ ظاہر جاری دکھائی دیتا ہے، مگر راستے ( اور فاصلے ) طے نہیں ہو پاتے۔ وقت تھمتا نہیں، مگر پیش رفت، عنقا ہو جاتی ہے۔ الفاظ، جگہ جگہ نمایاں نظر آتے ہیں اور مفہوم سب سے پردہ کر لیتا ہے۔ نام نہاد نعروں اور دعووں کے شور میں حقیقی معاملات، ترجیحات اور موضوعات، صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے، دم سادھ لیتے ہیں۔

یہی وہ صورت حال ہے جس میں سفر کی سمت کو متاثر کرنے اور اسے ہدف سے دور لے جانے کی پوری اہلیت اور توانائی موجود ہوتی ہے اور سلجھانے اور سدھارنے کی تدابیر میں ہونے والی تاخیر، لمحہ بہ لمحہ اپنے ممکنہ نتائج کی افزائش میں سرگرم عمل رہتی ہے۔ بالائی سطح پر نظر رکھنے اور فوری مقاصد کے حصول کی تڑپ، اس دوران جلتی پر تیل کا کام دکھاتی ہے اور بگاڑ کی شکل کو مزید بگاڑتی چلی جاتی ہے مگر اس آتش زدگی سے بھسم ہونے والے خواب اور ان کے ساتھ جل جانے والی خواہشات، کہیں آگے جا کر خود کو ظاہر کرتی ہیں، جب تلافی کے تمام تر امکانات رسائی سے دور ہو چکے ہوتے ہیں۔

انسانی فیصلوں سے جنم لینے والے مسائل کا حل بھی انسانی فیصلوں میں ہی پوشیدہ ہوتا ہے، مگر حالات سے مطابقت رکھنے والے دانش مندانہ اور حقیقت پسندانہ فیصلوں تک پہنچنے میں بعض انسانی خصلت کے سبب پیدا ہونے والی یہ دشواری عام طور پر اپنا بھرپور رنگ دکھاتی ہے جسے مفادات، خود غرضی اور خوش فہمی کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی دیوار کا روپ دھار لیتی ہے جس کے در آنے سے منظر دھندلا جاتا ہے اور واقعات اور حالات کی کڑیوں کو عقلی اور منطقی طور پر جوڑنا اور خوش اسلوبی سے نتیجہ خیزی کی طرف بڑھنا، کافی حد تک محال ہو جاتا ہے۔

اس دوران مختلف حوالوں سے مختلف فکری مغالطوں کا پیدا ہونا یا پیدا کیا جانا صورت حال کو مزید الجھاؤ سے دوچار کرتے ہوئے پیچیدگی میں اضافے کی بنیاد بن جاتا ہے۔ فکری مغالطے سے نکلنا، تب اور مشکل اور کٹھن ہو جاتا ہے جب بل واسطہ اور بلاواسطہ، نقطہ نظر بنانے، سنوارنے اور نکھارنے والے ذرائع، بہ وجوہ، خود ابہام کا شکار ہو چکے ہوں۔ یہ جمع، ضرب اور تقسیم کا وہ حساب ہے جس میں محض اضافہ اور اضافے کا ہی اندراج ہوتا ہے۔ یہاں یہ قیاس کرنا قطعی مشکل نہیں کہ اس طرح کی گنجلک صورت حال بلاشبہ مزید مشکلات کو دعوت دے سکتی ہے ( اور دیتی ہے ) ۔

مشکل حالات سے نکلنے کا آسان طریقہ کیا ہو سکتا ہے، اس رہنمائی کے لئے تاریخ بھری پڑی ہے، مگر تاریخ اس سے بھی آگاہ ہے کہ تاریخ کے تجربوں سے روگردانی انسانی سرشت کی ناقابل اصلاح، عادت ثانیہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

فیصلہ ساز، شاید اسی لئے اپنے طے کردہ انتخاب کو تاریخ کی کسوٹی پر پرکھنے سے گریز کرتے ہیں کہ وہ اپنی دانست میں آج کو آج کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی بہتر قدرت رکھنے کے دعویدار ہو جاتے ہیں اور کل، ان کے خیال میں، جیسے معاملہ فہم اور سوجھ بوجھ رکھنے والوں سے عاری تھا۔ یہ اعتماد، اطمینان اور یقین، درحقیقت عملاً اس کوتاہ اندیشی کا مظہر ہوتا ہے جس میں دوسروں فریقوں اور گزشتہ مثالوں کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا اور یوں کھی کبھی یہ طرز عمل معاشرے کو اس موڑ پر لے آتا ہے جہاں سے واپس مڑنا پھر اختیار میں نہیں رہتا۔

سو دانش مندی کی صلاح یہی ہو سکتی ہے کہ قومی سفر کے وہ فیصلے جنہیں کسی مشکل اور آزمائشی صورت حال میں پیش قدمی تصور کیا جائے، انھیں کھلے دل اور صاف ذہن سے بار بار اور کئی بار نظر ثانی کا حقدار سمجھا جائے، مبادا عمل کے میدان میں، وہ توقع اور ضرورت کے برعکس پسپائی سے ہمکنار ہوں۔

ہماری خواہش ( اور کوشش ) ہونی چاہیے کہ متحرک وقت کے ساتھ، راستے بھی کٹتے جائیں اور فاصلے بھی طے ہوں۔ ہدف حاصل کرنے کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments