دئر از نو فری لنچ


سیاست میں کہتے ہیں کہ وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ازل سے تا بہ ابد بہتے وقت میں سے کوئی لمحہ پکڑ کر ایک حقیقی سیاستدان اس پر اپنی سیاسی جدوجہد کی بنیاد رکھتا ہے اور پھر اس کو مستحکم کرتا جاتا ہے۔ اس صبر آزما عمل میں اینٹ سے اینٹ جوڑ کر سیاستدان اس لمحے کے اثرات کو لے کر آگے بڑھتا ہے تاآنکہ وہ لمحہ آ جاتا ہے جب وہ اپنی جدوجہد کے فلک بوس عمارت پر کھڑا ہو کر اپنے عوام کا شکریہ ادا کرتا ہے اور آنے والے دنوں میں بہتری کی نوید دیتا ہے۔

عوام اپنے سیاسی رہنما کے اس جدوجہد میں اس کے ساتھی ہوتے ہیں، مشکلوں سے نکل کر جب رہنما اختیار و اقتدار کی منزل پر پہنچتا ہے تو اس کے لوگ اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں کہ اس طرح وہ اختیار و اقتدار میں خود کو شریک محسوس کرتے ہیں، فیصلہ سازی کے مراحل میں ان کا وجود نہیں ہوتا لیکن روحانی طور پر وہ اس میں شریک ہوتے ہیں۔

عمران خان کی سیاسی جدوجہد میں یہ کامیابی کا یہ لمحہ عمران خان کے نزدیک 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد آیا تھا لیکن درحقیقت عمران کی سیاسی جدوجہد کی دیواریں 2013 میں ایک مضبوط قلعے میں تبدیل ہونا شروع ہوئی تھیں جب مینار پاکستان پر پی ٹی آئی کا جلسہ تھا۔ ایک نہایت مستعد، فعال لیکن تکنیکی کمزوریوں سے بھرپور الیکشن مہم عمران خان کو مرکز میں اقتدار تو نہ دلوا سکی لیکن کے پی کے میں اس کی جماعت نے کامیابی ضرور حاصل کی۔

اس لمحے عمران کو تمام تر زمینی حقائق ایک طرف رکھ کر پورے تندہی سے کے پی کے میں پانچ سالہ حکومت کی منصوبہ بندی کرنی تھی لیکن وہ عوام کو چھوڑ کر اقتدار کے مراکز کی طرف راغب ہو گئے۔ ملک بھر میں ایک بھرپور سیاسی جدوجہد اور پختونخوا میں فلاحی حکومت برپا کرنے کے بجائے عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کھیلنے لگے۔ نواز شریف سے جان چھڑانے کے بعد بھی انتخابات سے قبل اقتدار کے واسطے سمجھوتوں پر سمجھوتے کرنے لگے۔ اقتدار تو مل گیا لیکن ہاتھ پاؤں زنجیروں میں جکڑ گئے۔ اس طریقے سے وزیراعظم بن کر اس کا سیاسی سفر ایک محدود دائرے میں چکر کاٹنے لگا جس سے بشری۔ عمران۔ فرح جیسا نادر مثلث ہی برآمد ہونا تھا۔

تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو عمران خان کے فیصلے حالات و واقعات کے ساتھ واجبی تال میل سے بھی مکمل طور پر عاری نظر آئے۔ تھوڑی سی سیاسی بصیرت عمران خان کے پاس ہوتی تو عدم اعتماد کی تحریک کو غیبی مدد سمجھ کر اس کو ناکام بنانے کے لئے ہر حد پار نہیں کرتے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اگر عمران اعلی اخلاقی معیار کو اپنا اثاثہ بناتے تو عوام سب کچھ بھلا کر اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے اور عمران خان کافی حد تک الیکٹیبلز پر انحصار کرنے سے آزاد ہو جاتے۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کی ایسی خواہش تو کبھی ویلج کونسل کے کونسلرز میں بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔

عمران خان اگر موجودہ حالات میں اعلی اخلاقی معیار کو اپنا ہتھیار بناتے تو آج اقتدار کے لئے اس کی بچگانہ حرکتوں کے بجائے حمزہ شہباز کی وزرات اعلی کے لئے نامزدگی موضوع بحث ہوتی۔ لوگ بجا طور پر سوال کرتے کہ کیا مسلم لیگ نون میں اپنی عمریں کھپانے والوں میں ایک بھی بندہ نہیں ملا جو پنجاب کی وزارت اعلی کا امیدوار بننے کے لائق ہو؟ عمران خان کی بچگانہ حرکتوں اور اقتدار کے لئے بچوں کی طرح ضد کرنے کی روش نے کوئی سپیس چھوڑی ہی نہیں کہ لوگ باپ کی وزارت عظمی اور بیٹے کی وزارت اعلی پر تنقید کریں۔

لگتا ہے عمران خان کو اقتدار سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ ان کے کرتوت لوگوں پر آشکار نہ ہو جائیں۔ صاف لگ رہا ہے کہ بشری عمران اور فرح کا مثلث ایک نہیں ہے بلکہ ایسے کئی مثلثیں اور مستطیلیں آشکار ہونے کو ہیں۔ عمران خان اگر اقتدار سے محروم ہوا تو لگتا ہے وہ بھی مشرف کی طرح بقایا زندگی پاکستان سے باہر گزارے گا۔ میرا گمان ہے کہ بنی گالا سے نکل کر عمران خان مغرب کے کسی جزیرے میں پائے جائیں گے۔ سنا ہے فرح واحد کردار نہیں ایسے اور بھی کئی کردار ہیں۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ جس بندے کے نام پر اربوں روپے کی ہیرا پھیری ہو رہی ہو وہ اس سے باخبر نہ ہو اور انگریزی میں کہتے ہیں کہ دئر از نو فری لنچ۔ کیا واقعی ایسا ممکن ہے کہ جس کے نام پر لوٹ مچی ہو تو اس کا حصہ نہ ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments