شخصی اقتدار اور اصطلاحات کا منجن


بین الاقوامی سیاست اور اس سے جڑے تمام پہلوؤں کو اگر بنظر غائر دیکھا جائے، تو یہ بات ہم پر عیاں ہوتی ہے کہ وہ تمام ممالک جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں، ان کی ترقی کا سب سے نمایاں سبب قومی وحدت اور اجتماعی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دے کر، ایسے منصوبہ جات کا اجراء ہے جو محض کسی خاص گروہ یا شخص سے ہٹ کر پورے ملک اور قوم کے واسطے مفید ہو۔ ہم اپنی نجی محافل یا علانیہ طور پر، ان کی تہذیب، عادات اور طرز زندگی پہ حرف گیری بھلے کر لیں، مگر اس مسلمہ حقیقت کو عقل ہرگز نہیں جھٹلا سکتی، کہ ہم نے مذہب کی آڑ لے کر جس طرح شخصی مفادات کی تکمیل کی ہے، یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج ہم ترقی پذیر ممالک کی بجائے، غریب اقوام کی صف میں شامل ہو کر گندم سے لے کر ویکسین تک کے لئے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔

ہمارے تنزل کی داستان دراصل ایک ایسے مسافر کی کتھا ہے، جو بغیر تیاری کے سفر پر روانہ ہو جائے، اور اثناء سفر اسے رہ رہ کر یہ یاد آتا رہے کہ سفر کے لئے درکار زاد راہ تو دستیاب ہی نہیں، اور یوں وہ کبھی کارواں میں شریک ایک مسافر کی جانب التجائیہ نظروں سے دیکھ رہا ہوتا ہے تو کبھی دوسرے کی جانب، اس امید کے ساتھ کہ شاید وہ مجھے شریک طعام کر لے اور یوں میرا سفر کٹتا رہے۔ مگر اس امر کا نتیجہ تو بدیہی ہے کہ، ایسے مسافر کی نہ تو کارواں والوں کی نظر میں کوئی وقعت ہوتی ہے، اور نہ کوئی وقار۔

چنانچہ وطن عزیز کا بھی جو اقوام عالم میں مقام ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ اس سرزمین میں نہ تو قدرتی وسائل کی کمی ہے، نہ افرادی ہنر مندوں سے یہ خطہ خالی ہے، مگر قومی عصبیت کا فقدان، جہالت، شعور سے بے بہرہ پن، ذاتی مفادات کی ترجیحات، بصیرت کی کمی اور شخصی اقتدار کی بے پناہ حرص نے اس کی تمام خوبیوں کو گہنا کے رکھ دیا ہے۔

وطن عزیز کی اس حالت زار کا اگر عقل و شعور کے ساتھ جائزہ لیا جائے، تو اس بات کا احساس شدت سے ہوتا ہے کہ یہاں تقسیم کے بعد باگ ڈور ان افراد کے ہاتھوں میں آ گئی، جو ذاتی مفادات کے حصول کے لئے کسی بھی پستی تک جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ اس کی ایک مثال تو سن ترپن کے وہ فسادات ہیں، جن میں پنجاب کے دو جاگیردار دولتانہ اور ممدوٹ نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور عنان اقتدار پہ قبضہ جمانے کے لئے ختم نبوت کا کارڈ کھیلا، اور یوں حکومت کو محدود مارشل لاء لگا کر حالات کو قابو میں لانا پڑا۔

تاہم اس فساد میں جو جانی اور مالی نقصان ہوا، اس پہ اظہار تاسف کی توفیق نہ دولتانہ کو ہوئی اور نہ ممدوٹ کو۔ اس کے بعد شخصی اقتدار کو دوام بخشنے اور ملک کے دستور کو گھر کی لونڈی بنانے والوں میں ایک نام ملک غلام محمد کا آتا ہے، جو اسکندر مرزا اور ایوب خان کی مدد سے اس ملک کی تقدیر سے کھیلتا رہا، اور ایک منتخب حکومت کو اس جرم پہ برطرف کر دیا، جو گورنر جنرل کے لا محدود اختیارات کو محدود کر کے ایک متوازن نظام کی خواہاں تھی۔

اس پہ مولوی تمیز الدین جیسا غیرت مند شخص چپ نہ رہ سکا، تاہم جسٹس منیر جیسے کردار نے نظریہ ضرورت کا سہارا لے کر ایسی تمام آوازوں کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا۔ غرض یہ اور ان جیسے دوسرے اقدامات نے ملک کو سیاسی طور پہ ایک ایسی صورت حال پہ پہنچا دیا، جہاں ذاتی مفادات کو قومی مفادات کی خوشنما گولی میں لپیٹ کر عوام کے جذبات سے کھیلا گیا، اور اس کے لئے کبھی مذہب کا سپاہی، کبھی پڑوس کی جارحیت، کبھی ملکی سالمیت کا خطرہ اور کبھی نظریاتی تشخص جیسی مجہول ال مفہوم اور بے معنی مگر ثقیل اصطلاحات کا چورن بیچ کر ہر بار اپنے شخصی اقتدار کو دوام بخشنے کی سعی فرمائی جاتی رہی۔

اگر ان سب اصطلاحات کی تزویراتی گہرائی میں جایا جائے، تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس ملک پہ مسلط ہونے والے ہر آمر نے عوام کے اندر اپنا مثبت تاثر بنانے، موت تک حکومت کرنے کی خواہش اور اپنی بے پناہ ہوس زر کو پورا کرنے کے لئے ان کا سہارا لے کر عوام کی مرضی، ان کے حق ملکیت، ان کے حقوق اور خواہشات کو اپنے پاؤں تلے روندا۔ اور ان آمروں کے ساتھ موجود خوشامد پرست ٹولے اور درباری ملاؤں کے جھوٹے اور جعلی پروپیگنڈے کے طفیل یہ آمر ملک کی تقدیر سے کھیل کر اس ملک کو تباہ کرتے رہے۔

افغانستان میں روس آیا، تو اسلام کو خطرہ پاکستان میں لاحق ہو گیا، اور یوں امریکہ سے ڈالر لے کر جہاد کا منجن اس خوبی سے بیچا گیا کہ اس کے اثرات آج تک قوم بھگت رہی ہے۔ اس جنگ میں غرباء کے بچے لقمہ اجل بنے، اور آمروں کے اکاؤنٹ سوئس بینکوں میں۔ مگر حیرت ہے کہ آج تک اس جنگ کے کرتا دھرتا دنیوی اور دینی افراد نے اپنے اس فعل پہ ندامت محسوس کر کے قوم سے معافی مانگنے کی ضرورت محسوس کی ہو۔

یہ اس وطن عزیز کا شاید مقدر ہے کہ جہاں کی عوام ان کو برباد کرنے اور ملک کی عزت کا سودا کرنے والوں تک کو معاف کر دیتے ہیں۔ لیکن قوم کے اندر اگر قومی لحاظ سے سیاسی اور معاشی شعور موجود ہوتا تو وہ ان آمروں کے احتساب کا بیک زبان ہو کر مطالبہ کرتے۔ مگر ذاتی مفادات اور ترجیحات کے ہم اس قدر اسیر ہوچکے ہیں، کہ اس کے سامنے ملک کا وقار، اس کا آئین، اس کا تشخص، اس کی سالمیت اور اس کی خوشحالی کوئی معنی اور وقعت نہیں رکھتی۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا ہر بار ایک نئی اصطلاح کا سہارا لے کر ہمیں مداری کا تماشا دکھا کر خاموشی سے ہماری جیبیں صاف کر کے چلا جاتا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ لہذا اس سے قبل کہ ایک نیا آمر ایک نئی خوشنما اصطلاح لے کر ہمیں لوٹنے آئے، ہمیں اس سے پہلے جاگنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments