یہ پیج اتنا آسان نہیں


تحریک انصاف کی حکومت جب سے برسر اقتدار میں آئی ہے تب سے اس بیانیے کا شورش بپا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں تمام وزرا اور بالخصوص عمران خان صاحب خود اس بیانیے کو ہر ہفتے دھرا کر یہ اعلامیہ دینے کی کوشش کرتے تھے کہ فی الحال پیج بھی ایک ہے ہم بھی اسی پیج پر ہیں اور ابھی پیج الٹنے کا وقت بھی نہیں آیا۔ اسی طرح محترمہ مریم نواز صاحبہ بھی اس بات کا اعادہ کرتے نظر آتی تھیں کہ یہ پیج کبھی ہمارے پاس ہوتا تھا ہم مل کر اس پیج پر اپنے حریفوں اور سیاسی شرفاء کی کردار کشی تحریر کرتے تھے مگر اچانک کہیں سے زور دار آندھی آئی اور پیج الٹ گیا اور اب عمران خان اور پہلے سے موجود سیاسی انجنئیر اس پیج پر آ گئے اور پہلے یہی کویتا ہم لکھتے تھے اب اپ اور آپ کو اس پیج پر لانے والے لکھ رہے ہیں۔

مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آج بھی انقلاب اور عوامی شعور کی بات کرنے والے اس بات کا ادراک ہی نہیں کرتے کہ یہ پیج نہ حکومت کاہے نہ اسٹیبلشمنٹ کا ۔ یہ پیج عوام کا ہے۔ پھر ہواؤں کا رخ بدلتا ہے اور پی ٹی آئی جس پیج کی باتیں ہر خاص و عوام میں کرتی تھی وہ پیج الٹ گیا۔ تحریر بدلنے گی عنقریب یہ ہو گا کہ تاریخی اوراق بھی بدل دیے جائیں گے۔ جو کل محب وطن، پاکستان کی آن، پاکستان کی شان تھا آنے والوں دنوں میں غداری، آئین شکنی جیسے الزامات کا سامنے کرے گا۔

تحریک عدم اعتماد ہو یا منتخب وزرائے اعظم کی تنزلی اس طرح کے سانحات پہلی دفعہ نہیں ہو رہے اس سے قبل سنہ 1985 میں محمد خان جونیجو نے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تاکہ اپنی اکثریت ثابت کر سکیں۔ محمد خان جونیجو کے بعد آنے والی حکومتوں میں بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز شریف، میر ظفر اللہ جمالی، چوہدری شجاعت حسین، شوکت عزیز اور یوسف رضا گیلانی کو بھی اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت پڑی۔ پھر سنہ 1989 میں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی۔ سنہ 2006 میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف بھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ پاکستان کی آئینی تاریخ میں اس طرح کے واقعات پہلی دفعہ رونما نہیں ہو رہے۔

مگر اب کے بار معاملہ کچھ اور ہے وہ یہ کہ قائد ایوان کی اپنی صفوں سے ہی لوگ نکل کر دوسری طرف چلے گئے ہیں بحیثیت طالبعلم ہر نوجوان جو کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھتا ہے یا پھر اپوزیشن سے اسے یہ سوال اٹھانے ہوں گے اور انہیں سمجھنے کے لئے اس پیج کو پڑھنا ہو گا جس پیج کی جگہ آج کل ہم کاربن کاپی والا پیج اپنی نوجوان نسل کو پڑھا رہے ہیں یا سمجھا رہے ہیں۔ اب اس کاربن کاپی کی جگہ ہمیں اصل پیج کو پڑھانا ہو گا وہ پیج ہے پاکستان کا آئین یہ وہ پیچ جس میں حاکمیت اعلیٰ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور طاقت کا سر چشمہ عوام ہے۔

پھر آپ کو ان سوالات کو اٹھانے اور سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ وہ سوالات یہ ہیں کہ وہ اراکین اسمبلی منتخب وزیراعظم کے ساتھ کیوں ٹھہرتے؟ ، وہ کیوں پاسبان بن کر منتخب وزیراعظم کے گرد جمع نہیں ہو جاتے؟ ، وہ کیوں عالمی و اندرونی سازشوں کا حصہ بنتے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی بجائے اراکین اسمبلی اور اپوزیشن کو مورد الزام ٹھہرانے لگے۔ اگر ان سوالات کا جواب آئین پاکستان کے پیج سے سیاسی جماعتیں ڈھونڈھنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تب انہیں اپنی صفوں میں ہی جھانکے اور تبدیلی لانے اور اپنے سیاسی وقار کو بلند کرنے اور اپنی سیاسی تنظیم سازی کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔

سن 2018 کے عام انتخابات میں جس طرح سے دوسری پارٹیوں سے لوگوں کو توڑ کر تحریک انصاف میں شامل کیا جا رہا تھا۔ اسی وقت عمران خان صاحب کو ان سوالات کو دہرانے کی ضرورت تھی کہ خدانخواستہ اگر عمران خان کو کسی مشکل مرحلے سے گزرنا پڑے تو تحریک انصاف میں شامل ہونے والے ان نوزائیدہ کارکنوں کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔ کیا جس طرح انہوں نے دہائیوں کی رفاقت کو پس پشت ڈال کر آج تحریک انصاف کا لحاف پہن لیا کیا اس وقت یہ پھر ن ق لام ج کا لحاف تو نہیں اوڑھ لیں گے۔

مگر اس وقت عمران خان بڑے پرجوش انداز میں یہ بتا رہے ہوتے تھے کہ یہ دیکھیں ایک نئی وکٹ گر کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گئی ہے۔ کیا اس وقت ان کا آنا ضمیر کی آواز تھی اور آج ان کا جانا غداری ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ: میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے۔ نہ جھکاؤ تم نگاہیں کہیں رات ڈھل نہ جائے۔ اگر اس وقت نظر لگاتے تو یہ سماں نہ دیکھنے کو ملتا۔

اس وقت پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کے اندر انٹراپارٹی ڈیموکریسی نہیں ہے۔ کل بھی حنیف رامے اور معراج خالد کی جگہ صادق حسین قریشی کو دی جاتی تھی۔ آج بھی فوزیہ قصوری اور اکبر ایس بابر کی جگہ صادق حسین قریشی کے بھتیجے شاہ محمود اور گوہر ایوب کے فرزند عمر ایوب نے لے لی ہے۔ جب آپ خود اپنی پارٹی کو اندرونی سازش کا شکار کر دیتے ہیں تو پھر عالمی یا بیرونی سازشوں کو مورد الزام کیوں ٹھہراتے ہیں۔ دوسرا اس وقت سب سے بڑا ظلم جو سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔ وہ سیاسی کارکنوں کا آئین پاکستان سے انحراف ہے۔

ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کا ضامن ایک ہی پیج ہے وہ پیج ہے آئین پاکستان جس کی آبیاری قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے کی جس کی تزئین و آرائش مفتی محمود مولانا شاہ احمد نورانی نے کی جس کی سرخی نوابزادہ نصراللہ نے سنواری جس کا سہرا فیض اور جالب نے لکھا جس کی نقب کشائی خان عبدالغفار خان میر حاصل بزنجو عطاءاللہ مینگل نے کی اور جس کی پلکیں ہر دور کے عوامی نمائندوں نے عوامی فلاح وبہبود کے لئے سنواریں۔

اس پیج سے آج کی مظلوم بنی ہوئی اپوزیشن کی کچھ جماعتیں بھی انحراف کرتی اور کرواتی آئی ہیں اور موجودہ حکومتی جماعت بھی۔ یہ وہ پیج ہے سب کے حقوق کا ضامن ہو سکتا ہے اگر اس کے آگے سر اطاعت تسلیم خم کر دیا جائے۔ یہی پیج ناراض بلوچوں کی عزت و تکریم کا امین ہے یہی پیج ہے جو پختونوں کی سلامتی کا محافظ ہے یہ وہ پیج ہے جو کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے بلندوبالا عزم وہمت کے پیکر شہیدوں اور غازیوں کے لہو کا امین ہے یہ وہ پیج ہے ہے جس سے وادی مہران کی سلامتی اور ترقی کی ضمانت وابستہ ہے یہ وہ پیج ہے جو پنجاب کو بڑے بھائی ہونے کی عزت دلواتا ہے۔

رہ گئی ہے تو بات صرف یہ کہ پیج پر کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ والا پیج عوام کا ہے اور اس پیج پر عوام اور عوامی نمائندے ہوں گے باقی تمام ادارے اور حکومتیں اس پیج کی تابعداری کا حلف اٹھاتے ہیں اور اس پیج کے سائے تلے رہ کر عوامی فلاح اور ترقی کے سنگ میل طے کرتے ہیں اور یہ پیج صرف اور صرف عوامی رائے سے الٹا جاتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ اس پیج سے وفاداری اور تابعداری کا حلف اٹھانے والے اس پیج کو الٹتے آئے ہیں اور عوامی نمائندوں کو ہٹا کر قیدوبند اور سولیوں پر چڑھا کر اس پیج کی بے حرمتی اور بے توقیری کرتے آئے ہیں اور متبادل پیج نکالتے اور بند کرتے آئے ہیں۔

افسوس تو یہ ہے کہ اب تو منتخب نمائندے بھی اس کی بے توقیری کے در پے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلوچستان جل رہا ہے پشتون در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے سندھ خون کے آنسو رو رہا ہے کشمیر کھو چکا ہے پنجاب میں نفرت و انتقام کی بو آ رہی ہے عوام روٹی کپڑے اور مکان کو ترس رہی ہے ادارے ٹکراؤ کا شکار ہیں معیشت سرنگوں ہے انفرادی خود مختیاری تار تار ہو چکی ہے آزادی اظہار رائے کا گلہ گھونٹا جا چکا ہے کسان مزدور اور ملازمت پیشہ افراد استحصالی اور تنگدستی کا شکار ہیں نوجوان بے روزگاری اور افراتفری کا شکار ہیں علم و ہنر بدحالی سے دوچار ہے صنعتیں بند ہیں مہنگائی سر چڑ کر بول رہی ہے اور ارباب اختیار نئے پیج بنانے اور الٹانے کی راہ تک رہے ہیں مگر پیج ہمیشہ ایک قائم و دائم رہا ہے جس پر سب کو آنا ہو گا اور یہی پیج خوشحالی اور امن و شانتی کا ضامن ہے وہ پیج عوام کا پیج ہے اور وہ آئین پاکستان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments