آپ نے پارلیمنٹ کو عزت نہیں دی


یوں تو عمران خان حکومت کی ناکامی کی کئی وجوہات گنوائی جا سکتی ہیں۔ مضمون میں کچھ ذیلی لیکن اہم وجوہات اور خان صاحب کی عادات بھی زیربحث آئیں گی جن کی وجہ سے وہ آج اس حال کو پہنچے ہیں۔ لیکن ایک سطر میں بیان کی جا سکنے والی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے پچھلے ساڑھے آٹھ سال میں پارلیمنٹ کو عزت نہیں دی۔

یوں تو عمران خان کے بقول وہ پچھلے چھبیس سال سے سیاسی جدوجہد کر رہے تھے لیکن 2013 کے انتخابات کے بعد ان کا سیاسی قد نظر آنا شروع ہوا۔ اپوزیشن کے یہ پانچ سال بہت اہم تھے اگر عمران پارلیمنٹ کو عزت دیتے۔ کیونکہ اسی پارلیمنٹ میں پہنچنے کی تگ و دو میں تو یہ مصروف تھے، اسی پارلیمنٹ نے انہیں ملک کا اقتدار سونپنا تھا، اسی پارلیمنٹ کے ذریعے انہوں نے ملک و قوم کے مسائل حل کرانے تھے۔

اس بات سے نواز شریف کو بھی انکار نہیں ہو گا کہ عمران خان کرکٹ کے ایک بہت اچھے کھلاڑی رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے انہیں سیاست کی ابجد کا بھی علم نہ تھا لیکن افسوسناک بات یہ کہ اب تک بھی نہیں ہے۔ پارلیمنٹ سیاست سیکھنے کے لئے ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں سیاسی اونچ نیچ، قوانین، خارجہ اور داخلہ تعلقات، معیشت، سیاحت جیسے بیسیوں مضامین سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ آپ بلاول بھٹو زرداری کو دیکھ لیں۔ اس نوجوان کی تقریر، انٹرویوز، بیانات میں دن بہ دن سیاسی نکھار آتا جا رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کچھ چیزیں اسے وراثت میں ملی ہیں، اس کے خون میں میں شامل ہوں گی لیکن اس کی یہ پختگی اور بلوغت پارلیمانی سیاست کی دین ہے۔ اب تک کے سیاسی کیرئیر میں اس نوجوان نے بہت سے بوڑھے سیاستدانوں سے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ (اس پر تفصیلی بحث ہم آئندہ کسی مضمون کے لئے اٹھا رکھتے ہیں ) ۔ دوسری طرف عمران خان پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں بہت ہی کم نظر آئے۔ وہ اپنی انانیت کی وجہ سے سارے سیاستدانوں کو شیطان اور خود اپنے آپ کو اوتار سمجھتے رہے۔ نہ ان کے درمیان بیٹھنا پسند کیا، نہ کسی بحث میں حصہ لیا نہ کسی پارلیمانی کمیٹی کا حصہ بنے۔ نتیجہ یہ کہ سیاست کے بنیادی اصول بھی نہ سیکھ سکے۔

اپنی دو دہائیوں پر مشتمل جدوجہد کو ثمرآور کرنے کے لئے وہ کوئی ہوم ورک کرنے کی بجائے انگلی کے اشارے کے لئے جلسہ جلسہ اور کنٹینر کنٹینر کھیلنے لگ گئے۔ کوئی شک نہیں کہ جلسہ بھی سیاسی جدوجہد کا حصہ ہوتا ہے اور عوام سے تعلق سیاستدان کے لئے ازحد ضروری ہے لیکن موصوف انہی جلسوں میں امپائر کی انگلی کی صورت میں شارٹ کٹ ڈھونڈتے کئی غیر آئینی اقدامات کے مرتکب ہوئے۔ اور روزانہ کی بنیاد پر بجلی کے بل جلانے سے لے کر سول نافرمانی تک کی داستان چھوڑتے گئے۔ امپائر کی انگلی کھڑی نہ ہو سکی اور 2013 کے انتخابات آ گئے۔ لوگوں کو خان صاحب کی بیسیوں دفعہ کی گئی ایک ہی تقریر ازبر ہو چکی تھی۔ وہی تقریر جاری رہی۔ مغرب کو بہتر جاننے کے دعویدار کو مغرب میں موجود شیڈو کیبنٹ کی اہمیت کا علم ہی نہ ہوسکا کہ ہر شعبے کے لئے ان کی ٹیم ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار ہوتی۔ کئی سال گزرنے کے بعد پولے سے منہ سے آسانی سے کہہ دیا کہ ہم ابھی اس کے لئے تیار ہی نہیں تھے۔

بہت سے لوگ اس پراپیگنڈا سے متاثر ہوئے کہ خان محنتی آدمی ہے، سادہ اور پھٹے کپڑے بھی پہن لیتا ہے، کرپشن کی بات کرتا ہے، ٹیم بنانا ہی تو اسے آتا ہے، سات فٹ کا معاشی جادوگر اس کے ساتھ ہے، باہر اس کی کوئی جائیداد بھی نہیں۔ لوگ دو پارٹیوں کے سچے جھوٹے کرپشن کے واقعات سے تنگ تھے۔ پھر انہوں نے مدد کی جنہیں نیوٹرل ہونا چاہیے پھر بھی خان صاحب 2018 میں واضح اکثریت حاصل نہ کر پائے۔

اگر تھوڑا صبر کرتے اور کوئی نیک مشورہ دینے والا ہوتا تو بطور اپوزیشن لیڈر پارلیمنٹ میں بیٹھتے۔ پھر سیکھنے کا موقع ملتا۔ لیکن مطمح نظر دوسرے سیاست دانوں ہی کی طرح اقتدار تھا۔ حالانکہ جس طرح نون لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے پیٹ پھاڑ رہے تھے، مودی کے یار کے طعنے دے رہے تھے، ان کی توانائی ان پانچ برسوں میں ختم ہوتی تو غالب امکان تھا کہ آنے والے انتخابات میں لوگ عمران خان کو شرطیہ دو تہائی اکثریت سے کامیاب کراتے۔ انہیں ”پنجاب کے ڈاکووں اور سندھ کے قاتلوں“ کی بیساکھیوں اور اے ٹی ایم جہازوں کی ضرورت پیش نہ آتی۔ لیکن اقتدار میں آنے کی جلدی نے ہر وہ کام کرایا جس کے شاکی تھے۔ ہر چپڑاسی انہیں گود لینا پڑا، ہر مسخرہ ان کی آنکھ کا تارا ہوا۔ وہ نظریہ جو سیاست میں لے کر اترے تھے ہوا میں تحلیل ہوا اور خان کے حقیقی ساتھی اسے چھوڑنے لگ گئے اور فصلی بٹیرے پکڑ پکڑ کر کرسی پر براجمان کرا دیا گیا۔

عوام کو جو خواب دکھا دکھا کر اقتدار حاصل کیا گیا اس کو چکنا چور بھان متی کے کنبے نے جو کیا سو کیا، خود خان صاحب نے اپنی ہی باتوں کا پالن نہ کیا۔ وہ کمال ڈھیٹ پن سے اپنی ہی کہی باتوں سے روگردانی کرتے رہے اور لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے بہانے تراشتے رہے کہ مجھے فلاں شخص اچھا نہیں ملا یا مجھے فلاں چیز اچھی نہیں ملی۔ فلاں محکمے میں خرابی ہے یا فلاں شخص خراب ہے۔ کہنے والوں نے کہنا شروع کر دیا کہ جناب آپ کو ہر چیز پلیٹ میں رکھی رکھائی اچھی ہی دینی تھی تو آپ کے چیف ایگزیکٹو بننے کا کوئی مقصد؟

ہر چیز کو عجب بے ڈھنگے انداز میں کرنے میں خان صاحب ید طولی رکھتے تھے۔ آخری دنوں میں پراسرار خط کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ انہیں یا تو کچھ مخفی روحانی طاقتوں پہ بے پناہ یقین تھا یا اس بات پہ کہ مجھ انقلابی کے پیچھے پوری قوم کھڑی ہے جو میرے مخالفین کے ارادوں کو نیست و نابود کردے گی۔ افشائے خط سے لے کر عسکری قیادت کی ڈی نوٹیفیکیشن تک (اگر ہوئی ہے تو) ہر کام عجب بے ڈھنگے انداز میں کر کے ہر چال ٹیڑھی چل کے بالآخر رات بارہ بجے کے قریب وزیراعظم ہاؤس سے ہی رخصت ہوئے یا کر دیے گئے۔ (یہ الگ بحث ہے کہ ایک منتخب وزیراعظم کو اگر طاقت کے زور پر رخصت کیا گیا ہے، جیسا کہ کہا جا رہا ہے تو وہ انتہائی قابل مذمت ہے)۔

مان لیا امریکہ خان صاحب کے Absolutely Not پہ یا یوکرین کے دورے کی وجہ سے ناراض ہو گا، اس نے اپوزیشن کو متحرک کیا ہو گا، کچھ لوگ سازش میں یہاں سے شامل ہوئے ہوں گے، پیسے چلے ہوں گے۔ لیکن اس سازش کو ناکام بنانا ایک زیرک اور عقلمند لیڈر کا کام ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان صاحب نے اس کے لئے جو کرنا تھا اس کے آڑے ان کی نرگسیت، انا، بداخلاقی، مردم ناشناسی، عاقبت نااندیشی تھی۔ ان باتوں کے پیش نظر انہوں نے پارلیمنٹ کو عزت نہیں دی، نتیجتاً پارلیمنٹ نے انہیں بے توقیر کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).