تصادم جنون اور قانون کا؟


جو یہ کہتے ہیں عمران خان کی ناکامی کا سبب فلاں فلاں ہیں، اہل نظر ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ لیڈر عمران خان ہے بابر اعوان، فواد چوہدری یا شیخ رشید نہیں، نہ لیڈر شہباز گل اور شبلی فراز ہی تھے، یہ سب سیاسی قوال تھے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ، لیڈر تو بند گلی سے راستہ بناتا ہے، لوگوں کو، مشیروں کو، وزیروں کو اور قوالوں کو پیچھے لگاتا ہے، پیچھے لگتا نہیں! اس میں قوالوں کا کیا قصور گر لیڈر 1 کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر، اور اپوزیشن کو ہمیشہ کے لئے اندر نہیں دے سکا۔

اور، جو یہ کہتے ہیں عمران خان کی حالیہ کامیابی کا سبب اسٹیبلشمنٹ ہے، وہ یہ کیوں بھول گئے، کہ خان کی سابقہ کامیابی کا سبب بھی تو اسٹیبلشمنٹ تھی!

جو یہ کہتے تھے، کہ پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت کا گناہ عظیم کیا، وہ آج کوچہ و بازار میں میثاق جمہوریت کی علامت بننے میں کوشاں ہیں، نعرے لگا رہے ہیں، اپنے ان محسنوں کے خلاف جنہوں نے عمران کو فرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھا دیا۔

جو یہ کہتے تھے کہ، زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کر کے غداری کو تقویت پہنچانے کا فعل کیا ہے، وہ آج کس کے خلاف بغاوت کا علم اور ”غصے کا الم“ بلند کیے ہوئے ہیں؟

اور، تو اور، جو کہتے تھے کہ، گلیوں میں کہاں ’ووٹ کو عزت دو‘ کی گردان کرتے پھر رہے ہیں، آج وہی گلی گلی میں دوربین اور خوردبین اٹھا کر ’ووٹ کو عزت دو‘ کی خاک چھان رہے ہیں! سنا ہے کہ قائد اعظم جناح کے بعد قائد عوام بھٹو کی خودداری پر بات کرنے والا اب نواز شریف کا ایجنڈا اٹھا کر نکلا ہے کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ ۔ یہی بات جب پیپلز پارٹی کرتی تھی عاشق مزاج سنتے بھی نہ تھے، یہی بات جب نواز شریف نے کی تو لوگوں نے سنی، مگر جو آج عمران خان کہنے لگے ہیں، تو کچھ سمجھنے بھی لگے ہیں، اسے ارتقا کہئے یا زنجیر عمل؟

وہ جو کہتے تھے، یہ بی بی کیا کہتی پھرتی ہے کہ ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ آج وہ روتے ہیں اور چپ نہیں ہوتے، اور اوپر سے یہ بھی اب کہتے ہیں کہ ’جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے‘ ۔ اب انہیں کون کہے ”او کون لوگ او تسی؟“

جو کہتے تھے یہاں دیار غیر میں بھی مہنگائی بہت ہے خان کا کیا قصور، وہ اپنی انکم اور سہولتوں کی فہرست تو کبھی نہ بھیجتے تھے، اور بھول گئے وہ حلف بھی جو انہوں نے شہریت کے لئے دیا تھا۔ وہ لوگ بہت معصوم ہیں دراصل، اور ہم بہت کمال کے گیس لائٹر! بس اتنی بات ہے جاناں جسے سمجھنا آساں نہیں!

جو مرضی کوئی کہتا پھرے، صداقت عامہ یہی ہے کہ جو گروپ یا جتھے آئین اور قانون کا احترام کرتے ہیں وہ قوم بن جاتے ہیں، اور یہی قوم اگر ڈیو پراسس اور فیئر ٹرائل کو مقدم جان لے تو ترقی یافتہ قوم بن جایا کرتی ہے۔ اور جو قوم ریاست میں آئین اور قانون کو پس پشت ڈال دے تو وہ ریاست بنانا ریاست بن جاتی ہے، اور ایسے لیڈران جو اپنے فالوورز کو آئین شکنی کے بعد حرص و ہوس شاہراہ پر گامزن رکھیں تو انہیں فاشسٹ کہتے ہیں!

ریاست کی بدقسمتی اس وقت اپنی انتہا پر پہنچ جاتی ہے جب کوئی پاپولر منفی حربوں سے نکیل اقتدار تک پہنچ جائے اور بعد ازاں قول و فعل کے تضاد علمبردار کہلانے لگے، قول و فعل کے تضاد کا حامل اصلاحات کا بوجھ اٹھا سکتا ہے اور نہ داخلی و خارجی امور کی کریڈیبلٹی ہی اس کے مقدر کا حصہ بن پاتی ہے، محسن کشی ایسی قیادت کی فطرت کا نمایاں حصہ ہوتا ہے۔

ممکن ہے عمران خان میں بے شمار خوبیاں ہوں مگر ضد اور تکبر نے اسے بطور سربراہ حکومت پنپنے ہی نہ دیا، وہ بھول گئے نفرت پھیلا کر، لوگوں کی کمزوریاں بتا اور پگڑیاں اچھال حکومت تک تو پہنچا جاسکتا ہے، لوگوں کی تاریخ کا چہرہ مسخ کر بیان کرنے اور لوگوں کو امید اور فریب کا آمیزہ دے کر حکومتی منزل تک پہنچا تو جاسکتا ہے مگر زمام حکومت سنبھالنے کے بعد بلف بلنڈر بن جایا کرتا ہے، اقتصادیات اور خارجی و دفاعی و داخلی امور جھوٹ کی بنیاد پر چلنے ممکن ہی نہیں ہوتے۔ پیپلز پارٹی سے مقابلہ اور موازنہ کے لئے 1973 کے آئین اور 18 ویں ترمیم جیسے امور میں آگے بڑھنا اور چمکنا ضروری تھا، ضروری تھا کہ این ایف سی ایوارڈ اور سی پیک کی سی ابتدا کو آغاز بخشا جاتا، کسی اسٹیل مل کسی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے پراجیکٹ کو منظر عام پر لایا جاتا، خارجی امور پر ایران و سعودیہ سے امریکہ و روس کے سامنے صلاحیتوں کا لوہا منوایا جاتا، کسی جوہری توانائی سا جوہر دکھایا جاتا یا کسی میزائل ٹیکنالوجی کی تاریخ رقم کی جاتی۔ بے شمار اور بھی کام تھے جن میں لوہا منوایا جاسکتا تھا، مگر نہ وہ ڈیم خشت اول ہی پا سکے جن کا وعدہ تھا، نہ وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز میں یونیورسٹیوں کو شروعات مل سکی، ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھر تو کیا بننے تھے، نوجوانوں کو قرض کا اعلان دے کر بینکوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا، بے نظیر انکم اسپورٹ کو احساس کارڈ میں بدلنے کی تیس مارخانی کرنا کہا کا کمال تھا، سندھ حکومت کے کئی کاموں اور کارڈوں کا نام بدل کر مرکز میں تجربات کی سطحی کوشش ضرور کی۔ پھر نواز لیگ کو طعنے مارنے اور طنزیہ تیر چلانے بجائے امن کی طرز کی ویسی تدبیر لائی جاتی، کوئی موٹر ویز اور ہائی ویز جیسے پراجیکٹ شروع کیے جاتے، لوٹے بنائے اور پھنسانے کے بجائے ڈویلپمنٹ کے کام کیے جاتے، جیسے نون لیگ نے بجلی پوری کر کے ملک کو روشن کیا، کچھ تو پی ٹی آئی والے بھی کوئی ایسے کام کرتے!

محض تقاریر، امریکہ مردہ باد ریلیاں اور ملین مارچ تو پہلے بھی پاکستان میں ناکام سیاست دانوں کا وتیرہ رہا ہے، یہ سب تو سیاسی یوٹرن ہیں اور سیاست چمکانے کے فارمولے ہیں۔

کام وام کچھ نہیں کیا تاہم عمران خان معاشی و سیاسی بارودی سرنگیں ضرور بچھا گئے ہیں، اور ایسے زخم دے گئے جو سماجی و سیاسی و جمہوری ناسور بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بموں کے نہ پھٹنے اور زخموں کے بھرنے کیے مفاہمت، مصالحت اور مشاورت کی عمل انگیزی کو تقویت بخشنا لازم ہو گیا ہے، ازسر نو کسی میثاق جمہوریت کی اشد ضرورت ہے، اور نجات درکار ہے یو ٹرنرز، جمہور مخالفوں اور آئین شکنوں سے جو سوائے گیس لائٹنگ کے کچھ نہیں جانتے! آئین شہریوں اور ریاست کو تسبیح کے دانوں کی طرح پروتا ہے اور جمہوریت عوامی سر پر چھت اور اردگرد کی ان حفاظتی دیواروں کا نام ہے جو روشن دان رکھنے کے علاوہ آمرانہ آتش و آہن سے بچائے رکھتی ہیں۔ جمہوریت جنون اور قانون کے درمیان ہم آہنگی کا پل تعمیر کرتی ہے نا کہ تصادم!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments