ایک اور وزیر اعظم


آخر کار جناب شہباز شریف نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے۔ ان کو پاکستان کے تئیسویں وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ ان سے پہلے یہ اعزاز حاصل کرنے والے بائیس وزرائے اعظم میں سے کسی ایک کو بھی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع میسر نہیں آیا۔

اس کو تاریخ کا ستم کہیں یا بدقسمتی کی داستان کہ مملکت پاکستان کا کوئی بھی وزیر اعظم مدت کی نیا کو پار نہ لگا سکا۔ کسی کو حالات کی ستم ظریفی کھا گئی۔ کوئی غیروں کی گولیوں کا شکار بنا۔ کوئی اپنوں کے ہاتھوں بیج منجدھار رہا۔ کوئی آمریت کا شکار ہوا تو کسی کو پھانسی پہ جھولنا پڑا۔ کوئی پسند نا پسند کی بھینٹ چڑھا۔ کسی کو اٹک قلعہ کی صعوبتوں کو برداشت کرنا پڑا۔ کوئی سیاست کا شکار بنا تو کسی کو جلا وطن ہونا پڑا۔ کسی کے راہ کا پتھر ڈکٹیٹرز کی ڈکٹیشن بنی تو کسی کو اعلیٰ عدلیہ کی ایک منٹ کی سزا نے وزیراعظم ہاؤس چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ کوئی اقامہ کے جال میں پھنسا تو کسی کو عدم اعتماد کی تحریک لے ڈوبی۔

جناب شہباز شریف ایک ایسا سیاسی کردار ہیں کہ جن کے سر پر وزیراعظم کا ہما کئی دفعہ بیٹھتے بیٹھتے رہ گیا۔ اس دفعہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی نے جہاں جناب عمران خان کو وزیراعظم کے طور پر آئینی مدت پورے نہ کرنے دی وہاں جناب شہباز شریف کو سیاسی زندگی میں پہلی بار ایوان وزیراعظم کا اسیر بنا دیا۔

جناب شہباز شریف اس سے پہلے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے طور پر اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا خوب منوا چکے ہیں۔ مگر اس وقت ان کو مرکز سے اپنی پارٹی مسلم لیگ ( ن ) کے دو تہائی اکثریت کے حامل وزیراعظم کی بھر پور حمایت حاصل ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے وہ صوبے کو اپنی مرضی سے چلانے میں خود مختار تھے۔ صوبہ میں ہونے والے ترقیاتی کاموں میں ان کو مرکز یا کسی دیگر ادارے سے کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہ تھا۔

کوئی شک نہیں کہ کسی بھی حکمران کی کارکردگی حالات کی موافقت اور نا موافقت کی مرہون منت ہوتی ہے۔ موافق حالات میں کوئی بھی پرفارم کر سکتا ہے مگر صلاحیتوں کا اصل امتحان نا موافق حالات میں بہترین کارکردگی کا اظہار ہے۔ اور اس وقت مختلف الخیال جماعتوں پر مشتمل انتہائی مخلوط حکومت کے سربراہ کے طور پر جناب شہباز شریف کی انتظامی اور سیاسی صلاحیتوں کا امتحان ہے اور یہ امتحان جناب عمران خان جیسی سحر انگیز شخصیت کے اپوزیشن لیڈر کے عہدہ پر فائز ہونے کی وجہ سے اور بھی کٹھن نظر آ رہا ہے۔

جناب شہباز شریف ان حالات میں قوم کی امیدوں پر پورا اترتے ہیں۔ ملک میں قومی ہم آہنگی و یکجہتی کو فروغ دینے میں کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ ملک کے لئے اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دے سکتے ہیں۔ قانون سازی ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر ملی مفاد میں کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مہنگائی کو لگام دے دیتے ہیں اور الیکشن ریفارمز کروا دیتے ہیں تو ان کا نام ایک کامیاب سربراہ حکومت کے طور پر تاریخ میں جلی حروف میں لکھا جائے گا بصورت دیگر وہ وزرائے اعظم کی فہرست میں ایک اور وزیر اعظم کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments