کیا عمران خان ایک ناکام سیاستدان ہیں؟


جمہوریت مل کر چلنے کا نام ہے۔ پارلیمنٹ کوئی ایسا جزیرہ نہیں ہوتا جو دنیا بھر سے کٹا ہوا ہوتا ہے۔ ایک وقت میں کئی جماعتیں انتخابات میں حصہ لیتی ہیں۔ کسی کو اکثریت ملتی ہے تو کچھ جماعتوں کے تھوڑے یا زیادہ ارکان اسمبلی میں پہنچتے ہیں۔ جن میں ایک دوسرے کی شدید مخالف جماعتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ اکثریتی جماعت کو اقتدار مل جاتا ہے مگر اس کی بقا کا انحصار سب کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے پر ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی ساری نہیں تو ایک دو اہم جماعتوں سے مسلسل مشاورت اور رہنمائی کا تعلق رکھنے والی جماعت ہی بہترین پرفارمنس دے سکتی ہے۔

عمران خان کے ساتھ مسئلہ یہ ہوا کہ انہیں اقتدار تو ملا مگر وہ جمہوریت کا یہ بنیادی اصول بھول گئے کہ پارلیمنٹ میں موجود دیگر جماعتیں بھی انہی کی طرح عوام کے ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں آئی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب نہیں تو کم از کم ایک بڑی جماعت جیسے پیپلز پارٹی کے ساتھ بہتر تعلقات بناتے۔ مگر انہوں نے تو سب سے کٹی کر لی۔ پہلے دن ہی اپوزیشن رہنماؤں کے پیٹ پھاڑنے کی دھمکیاں شروع کر دیں۔ اور اپنی حالت یہ تھی کہ پہلے دن سے ہی ان کا اقتدار ڈانواں ڈول دکھائی دیتا تھا۔ محض چند ہی ووٹوں کی اکثریت سے ان کی حکومت بن سکی تھی۔ ہر بجٹ یا کسی دیگر قانون سازی کے وقت میں سوچتا تھا کہ اب اپوزیشن اپنی طاقت دکھائے گی مگر خان صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ اپوزیشن کے درمیان اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ بچتے چلے آئے۔

اور پھر تین سال بعد پہلی بار اپوزیشن متحد ہوئی اور ایک ہی جھٹکے میں تحریک انصاف کی اولین حکومت اقتدار سے باہر ہو گئی۔ یہ سراسر عمران خان کی نا اہلی ہے۔ حکمران جماعت کے پاس بے پناہ اختیارات ہوتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اس کے ساتھ مل کر چلنا چاہتی ہیں تا کہ اقتدار میں سے کچھ نہ کچھ حصہ انہیں ملتا رہے۔ آصف علی زرداری نے عمران خان کے حلف اٹھانے کے فوری بعد مل کر چلنے کی پیش کش کی تھی جسے عمران خان نے متکبرانہ انداز میں ٹھکرا دیا۔

چلیں مان لیتے ہیں کہ وہ اس وقت اونچی ہواؤں میں اڑ رہے تھے۔ لیکن پہلے ہی سال جب عدالتوں نے ان کی اکڑ نکال دی۔ اپوزیشن لیڈروں کو پے در پے ریلیف دینا شروع کیے تب بھی عمران خان کو سوچنا چاہیے تھا کہ جب وہ اپوزیشن کا کچھ نہیں بگاڑ پا رہے تو کسی ایک جماعت سے ہاتھ ملانے میں کیا ہرج ہے؟ نون لیگ نہ سہی، پیپلز پارٹی بہترین انتخاب ہوتا۔ زرداری صاحب پرانے الزامات سے بری ہو چکے تھے۔ موجودہ الزامات کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ ڈیڑھ سال قید رکھنے کے بعد بھی نیب نے عدالت سے کہا تھا کہ زرداری کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے بس شک کی بنیاد پر گرفتار کیا ہوا ہے جس پر عدالت نے ان کو ضمانت پر رہا کر دیا۔ سابق صدر عمران خان کی حکومت کا ایک مضبوط سہارا بن سکتے تھے۔ مگر یہ بات عمران خان کی سمجھ سے بالا تر تھی

عمران خان ساڑھے تین سال اپوزیشن جماعتوں کو للکارتے رہے این آر او نہ دینے کے نعرے لگاتے رہے اور ان کی یعنی وزیر اعظم کی عین ناک تلے تمام اپوزیشن رہنما این آر او کی ہر قسم کی سہولت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ عمران خان کسی کا بال بھی بیکا نہ کر سکے۔

عمران خان سیاسی لحاظ سے ناکام رہے۔ ہر اہم سیاسی شخصیت کو اپنا دشمن بنایا حتیٰ کہ دوستوں کو بھی دشمن بنالیا، ان کی حکومت کی بنیاد رکھنے والے لوگ بھی ان کے تکبر کی نظر ہو گئے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر اس شخص کو لا بٹھایا جس نے ان کے اقتدار کا بھٹہ بٹھا دیا۔ پنجاب طاقتور ہو تو مرکز بھی طاقتور ہوتا ہے مگر انہیں یہ بھی سمجھ نہیں آئی۔ آج جب وہ رخصت ہوئے تو کوئی بھی اہم سیاسی شخصیت ان کے ساتھ نہیں تھی۔

چلیں اقتدار سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور آنکھیں بند کر کے چل رہے تھے تو جب عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تب ہی ہوش کر لیتے۔ گنتی ہی کر لیتے کہ میرے پاس کتنے ممبران ہیں۔ اس وقت بھی اپوزیشن کو للکارتے رہے۔ نشانے باندھتے رہے۔ جو چند ایک ساتھ تھے ان کو بھی اپنے سے دور کرتے رہے۔ اتحادیوں کو بھی ناراض کرتے رہے۔

آج جب وہ اقتدار سے محروم ہوئے ہیں تو وہ کسی کو دوش نہیں دے سکتے۔ اگر وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتے تو 2014 کی طرح آصف علی زرداری ان کے ساتھ کھڑے ہوتے اور انہیں گرنے نہ دیتے مگر عمران خان نے تو سب سے پہلا نشانہ ہی زرداری پر باندھا۔ آج زرداری تو شامل اقتدار ہے، خان صاحب کی بندوق راول جھیل میں گر چکی ہے۔ ان کے پاس دو راستے تھے، غیر سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلتے یا پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں سے روابط مضبوط بناتے۔

انہوں نے دوسرا راستہ چنا۔ یہ نہیں سوچا کہ ان سے پہلے نواز شریف متعدد مرتبہ یہی راستہ اختیار کر چکے ہیں اور ہر مرتبہ انہی قوتوں نے ان سے بے وفائی کی۔ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھ سکے۔ آج اقتدار سے الگ ہونے کے بعد بھی وہ کہتے ہیں کہ چوروں ڈاکوؤں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا۔ تو پھر خان صاحب، سیاست چھوڑ دیں۔ یہ لوگ تو یہیں رہیں گے، اگلے الیکشن میں بھی یہی لوگ جیت کر آئیں گے پھر آپ کو ان کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا، یہ کیا بات ہوئی کہ اقتدار آپ کو ملے تو پھر شہباز شریف بطور اپوزیشن لیڈر آپ کو منظور ہے مگر اقتدار کی کرسی پر بیٹھا شہباز شریف آپ کو قبول نہیں ہے۔ یہ جمہوری رویہ نہیں ہے۔ جمہوریت میں تو ہر کسی کے لئے دروازے کھلے رکھنے پڑتے ہیں۔ مخالف جماعتوں سے بھی مکالمہ کرنا پڑتا ہے۔ انہیں سپیس دینا پڑتی ہے۔ یہی تو جمہوریت ہے۔ جو باتیں آپ کرتے ہیں وہ تو سیدھا آمریت کی جانب لے جاتی ہیں۔ آپ ایک بڑے سیاست دان تبھی بن سکتے ہیں جب آپ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔

عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں۔ حضور نبی کریم نے اپنے سب سے بڑے مخالفین سے بھی رابطہ قائم رکھا۔ مسلسل دعوت اسلام دیتے رہے۔ کبھی ایسا رویہ نہیں اپنایا کہ فلاں نے مجھے انکار کیا ہے تو اب میں اس کے پاس دین کی دعوت دینے نہیں جاؤں گا۔ خان صاحب، آپ نبی کریم ﷺ کے اسوہ سے ہی کچھ سیکھ لیں

قائد اعظم نے اپنی سیاسی زندگی میں کبھی ڈائیلاگ سے انکار نہیں کیا۔ چالیس سالوں میں انہوں نے ہمیشہ کانگریسی رہنماؤں سے، انگریزوں سے مسلسل ڈائیلاگ کیا۔ انہیں قائل کیا، تب ہی اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔

اگر عمران خان نے اب بھی تاریخ سے کوئی سبق نہ سیکھا تو وہ آئندہ جب کبھی اقتدار میں آئے تب بھی ناکام رہیں گے۔ عوام ان کے ساتھ ضرور ہے مگر عوام انہیں پارلیمنٹ تک پہنچا سکتی ہے اس کے بعد بندے کے اپنے اوصاف ہی کام آتے ہیں مگر عمران خان بنیادی سیاسی اوصاف و تدبر سے بالکل ہی بے بہرہ دکھائی دیتے ہیں۔ اور ان کی ناکامی کی یہی سب سے بڑی وجہ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments