پنجاب اور اسٹیبلشمنٹ۔ حقائق یہ ہیں


گو کہ ولی خان نے بارہا کہا تھا کہ جس دن پنجاب اسٹیبلشمنٹ کے مقابل آیا تو اسی دن سے پاکستان صحیح ٹریک پر آنا شروع ہو جائے گا۔ لیکن یہ اشارہ پنجابی لیڈر شپ کی طرف تھا کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ولی خان جیسے جہاندیدہ سیاستدان پنجاب کے سیاسی مزاج اور تاریخی حقائق سے واقفیت نہ رکھتا۔ کئی عشرے پہلے دور اندیش اور تجربہ کار سیاستدان ولی خان کا تجزیہ اس وقت حقیقت کا روپ دھار گیا جب پنجابی لیڈر یعنی نواز شریف کھل کر اسٹیبلشمنٹ کے مقابل آیا۔

میں ذاتی طور پر اس رائے سے قطعاً اتفاق نہیں کرتا کہ گزشتہ چند سالوں میں پنجاب پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کے مخالف سمت میں کھڑا ہے کیونکہ تاریخی حقائق اور پنجاب کا سیاسی مزاج اس سے یکسر مختلف ہیں۔ اس حوالے سے ہم تھوڑا سا ماضی میں جھانکتے ہوئے پنجاب کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر پنجاب پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ عسکری منطقوں کو سب سے زیادہ قوت پنجاب نے فراہم کی جس کی وجہ سے وہ (عسکری منطقے ) اپنے آئینی حدود سے باہر نکلے تو یہ الزام سراسر بے بنیاد ہے کیونکہ آبادی کے تناسب سے پنجاب کی نمائندگی خیبر پختونخوا کی نسبت کافی کم ہے۔

لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پاکستان میں مارشل لاء لگانے والے چاروں ڈکٹیٹروں میں سے کسی کا تعلق بھی پنجاب سے نہیں تھا بلکہ دو ڈکٹیٹر ضیاء الحق اور پرویز مشرف انڈین مہاجر جبکہ ایوب خان اور یحیی خان خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے تھے۔ اور ویسے بھی آمرانہ طرز عمل کا الزام پنجاب پر جینیاتی حوالے سے اس لئے نہیں دھرا جا سکتا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر بھارتی فوج میں مشرقی پنجاب کی اکثریت ہونے کے باوجود وہاں رویہ آمرانہ طرز عمل کی بجائے جمہوری اقدار کے احترام کا کیوں ہے؟

حالانکہ دونوں طرف پنجابی ہیں جو جینیاتی اور نفسیاتی حوالوں سے ایک ہیں۔ در اصل آمرانہ طرز فکر قومی کی بجائے ادارہ جاتی نفسیات سے جڑا ہوتا ہے اور اس کا الزام کسی صوبے یا قومیت پر لگانا یا تو زیادتی ہے یا حقائق سے بے خبری! دوسری بات یہ کہ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے قوم پرست لیڈروں اور تحریکوں نے ماضی میں مسلسل پنجاب کو اپنے حقوق کا غاصب قرار دے کر اسے (پنجاب ) کو ٹارگٹ کیا۔ حالانکہ پنجابی عوام کو اسٹیبلشمنٹ سے فائدہ پہنچنے کی بجائے ہمیشہ نقصان ہی اٹھانا پڑا۔

لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ طرز عمل (پنجاب پر حقوق کی پامالی کا الزام ) قوم پرستوں کی نادانی تھی یا اس اسٹیبلشمنٹ کا منصوبہ جو بذات خود حقوق کی پامالی کا اصل ذمہ دار تھا اور پنجابی عوام کو طاقتور طبقے کے ہاتھوں خود بھی دوسری قومیتوں جیسے استحصال کا سامنا تھا۔ اسی طرح آمریتوں کے خلاف جدوجہد میں بھی پنجاب نے ہمیشہ صف اول کا کردار ادا کیا۔ ایوبی مارشل لاء کے خلاف گو کہ خیبر پختونخوا اور سندھ میں خصوصاً بائیں بازو کی جماعتوں نے بہت اہم اور دلیرانہ کردار ادا کیا حتی کہ پولی ٹیکنیک کالج پشاور کے ایک طالبعلم (ہاشم خان ) نے ڈکٹیٹر ایوب خان پر ایک جلسے میں فائرنگ بھی کی لیکن اس تحریک کو اصل طاقت پنجاب خصوصاً راولپنڈی کے طالبعلموں نے اس وقت فراہم کی جب پولی ٹیکنیک کالج راولپنڈی کا ایک طالبعلم پولیس فائرنگ سے مارا گیا جس کے بعد مزاحمت کی ایک طاقتور لہر اٹھی جسے نوابزادہ نصر اللہ خان ولی خان اور مولانا مودودی جیسے دور اندیش رہنماؤں کی بصیرت اور رہنمائی حاصل رہی اور بالآخر ایوب خان کو استعفی دے کر گھر جانا پڑا۔

70 کے الیکشن میں بھٹو آمرانہ قوتوں کو للکارتا ہوا انتخابی میدان میں اترا تو پنجاب نے اسے نہ صرف پذیرائی کی طاقتور لہر فراہم کر دی بلکہ ایک مبالغہ آمیز انتخابی سبقت بھی دلا دی۔ اگر چہ بھٹو کے آبائی صوبے خصوصاً دیہی سندھ نے بھی بھٹو کی پیپلز پارٹی کا پورا پورا ساتھ دیا لیکن خیبر پختونخوا میں پلڑا اسٹیبلشمنٹ نواز جماعت مسلم لیگ (قیوم اور کنونشن مسلم لیگ ) جبکہ بلوچستان میں قوم پرست اور مذہبی طبقے کا بھاری رہا۔

یعنی اسٹیبلشمنٹ مخالف پیپلز پارٹی کی طاقت کا اصل محور بھی پنجاب ہی تھا۔ انیس سو ستتر میں بھٹو کی حکومت پر ضیائی مارشل لاء نے شب خون مارا تو پنجاب ڈٹ کر اسی بھٹو کے ساتھ کھڑا نظر آیا جسے اسٹیبلشمنٹ کی عداوت اور جنرل ضیاء کی خوفناک آمریت کا سامنا تھا۔ کچھ عرصہ بعد بھٹو کو فوجی حکومت کی دباؤ پر پھانسی کی سزا سنائی گئی تو پنجاب کا ردعمل اس حد تک خوفناک تھا کہ لاہور کے کسی چوراہے پر اچانک کوئی کارکن نمودار ہوتا اور خود پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دیتا۔

ردعمل اور مزاحمت کی ایسی مثال پاکستان کے کسی اور گوشے سے تو چھوڑیں بھٹو کا اپنا صوبہ یعنی سندھ بھی فراہم نہ کر سکا۔ طویل مارشل لاء کے دوران ہزاروں کارکنوں کی گرفتاریاں کوڑے اور جرمانے بھی سب سے زیادہ پنجاب ہی کے حصے میں آئے ( تاہم دوسرے صوبوں خاص کر سندھ میں بھی ایجی ٹیشن کی طاقتور لہر اٹھی اور ہزاروں سیاسی کارکن ریاستی جبر کا نشانہ بنے ) لیکن بد ترین آمریت اور انتقامی کارروائیوں کے باوجود بھی پنجاب اپنی سیاسی موقف سے پیچھے نہیں ہٹا۔

یہی وجہ تھی کہ دس سالہ آمریت کے اختتام پر بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا تو اس کی نگاہ انتخاب سندھ ( کراچی ) کی بجائے لاہور (پنجاب ) ہی بنا۔ یعنی بے نظیر بھٹو کو سب سے زیادہ اعتماد پنجاب پر ہی تھا جس کا پنجاب نے بھرم بھی رکھا۔ کیونکہ جب دس اپریل انیس سو چھیاسی کو اسٹیبلشمنٹ مخالف بے نظیر بھٹو لاہور ائرپورٹ پر اتری تو دس لاکھ سے زائد افراد نہ صرف شاہراہوں پر اس کے استقبال کے لیے کھڑے تھے بلکہ اگلے الیکشن میں حسب روایت پیپلز پارٹی کو بھاری مینڈیٹ دے کر اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف پر قائم رہنے کا عملی مظاہرہ بھی دہرایا۔

گویا انیس سو ستر ( بلکہ ایوبی مارشل لاء یعنی انیس سو اٹھاون ) سے انیس سو نوے تک پنجاب کا عمومی سیاسی رجحان اسٹیبلشمنٹ مخالف ہی رہا۔ ( اگر چہ فاطمہ جناح کا ساتھ نہ دینے کا طعنہ پنجاب کو سننا پڑا لیکن در اصل فوجی آمریت پنجاب کے انتخابی راستے اس حد تک مسدود کر چکا تھا کہ رائے عامہ کو اپنی اصل شکل کی بجائے فوجی اور انتظامی مداخلت کے ذریعے ایک غیر فطری اور مصنوعی شکل میں سامنے لایا گیا) ۔ بے نظیر بھٹو کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی پہلی بار پنجابی لیڈر شپ یعنی نواز شریف منظر پر ابھرے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی ریشہ دواں نیوں اور پیپلز پارٹی کی پے درپے غلطیوں نے سیاسی ڈائنامکس اور معروضی حالات پر بنیادی اثر ڈالا جس سے پہلی بار پنجاب کی اپنی لیڈر شپ نے جنم لیا۔

یہی وہ وقت تھا جب نواز شریف برق رفتار انداز میں مقبولیت اور اقتدار کی طرف بڑھ رہا تھا اور صرف دو سال بعد انیس سو نوے میں وہ ملک کا وزیراعظم بنا۔ اس مختصر عرصے میں اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب پہلی بار ایک ہی پیج پر نظر آئے لیکن انیس سو ترانوے میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ اور نواز شریف حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی پنجاب پھر سے اپنی پرانی پوزیشن یعنی اسٹیبلشمنٹ مخالف سمت میں چلا گیا۔ اگلے دو عشروں میں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کا ٹکراؤ کسی نہ کسی صورت جاری رہا لیکن پنجاب سیاسی کرداروں کی تبدیلی کے باوجود بھی اپنی وہ تاریخ دہراتا رہا جو ماضی میں بھٹوز کی حمایت اور ضیائی مارشل لاء کے خلاف مزاحمت میں اس (پنجاب ) نے سیاسی حوالے سے رقم کی تھی۔

یعنی پنجاب مسلسل سول لیڈر شپ کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ اور یہی وجہ تھی کہ بد ترین ریاستی جبر جلا وطنیوں اور قید و بند کے باوجود بھی نواز شریف کی مقبولیت نہیں گری۔ اس دوران پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف وکلاء تحریک کا منبع اور مرکز بھی پنجاب ہی رہا۔ اور پھر آخری بار جب نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا تو ایک گھاگ اور تجربہ کار سیاستدان کے طور پر نواز شریف پنجاب کے سیاسی مزاج اور رویے سے بخوبی واقف ہو چکے تھے اس لئے شدید دباؤ اور مخالفت کے باوجود بھی وہ سول سپرمیسی کا خوفناک لیکن غیر روایتی نعرہ بلند کرتے ہوئے پنجاب کی سڑکوں پر نمودار ہوئے۔

یہی وہ وقت تھا جب نہ صرف پورے پنجاب نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا بلکہ عوامی سطح پر ایسی مبالغہ آمیز سیاسی طاقت فراہم کر دی کہ نواز شریف کو تاریخی حوالے سے پہلی بار اسٹیبلشمنٹ مخالف رائے عامہ کی تخلیق اور اٹھان میں ایک حیرت انگیز کامیابی ملی جس سے سول سپر میسی کا طاقتور اور ناقابل شکست بیانیہ تشکیل پایا۔ یہی وہ منظر نامہ ہے جس نے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو عوامی سطح پر نہ صرف تنہا کرتے ہوئے پیچھے کی طرف دھکیلا بلکہ ریاستی طاقت اور کنٹرول کے حوالے سے مستقبل میں مقتدر قوتوں کے کردار کو سوالیہ نشان بھی بنا دیا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس رائے کو تاریخی حقائق اور شواہد قطعاً قبول نہیں کرتے کہ پنجاب پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کے مقابل آیا بلکہ اس کا اصل پس منظر یہی تھا کہ پنجاب لیڈر شپ کے معاملے میں دوسرے صوبوں سے کہیں بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ کیونکہ ایک طرف چھوٹے صوبوں کے پاس بھٹو ولی خان غوث بخش بزنجو اکبر بگٹی نواب خیر بخش مری اور جی ایم سید جیسے جہاندیدہ اور تجربہ کار سیاسی لیڈرز موجود تھے۔ تو دوسری طرف پنجاب جیسا بڑا صوبہ لیڈر شپ کے حوالے سے فقدان کا شکار رہا جس کی وجہ سے رائے عامہ کو ٹھوس بنیادوں پر استوار ہونے اور سامنے آنے میں مسلسل دشواری کا سامنا رہا۔

یہی وہ حقائق اور شواہد ہیں جس پر میرا یہ دلیل استوار ہے کہ پنجاب کے بارے میں عمومی تاثر (اسٹیبلشمنٹ کی مدد ) کا الزام بے جا اور حقائق سے بے خبری کی بنیاد پر ہے۔ بلکہ پختون ہوتے ہوئے بھی میں حیرت سے دو چار ہوں کہ پنجابی انٹیلیجنشیا اس طعنے ( اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ) پر مسلسل خاموش کیوں رہا۔ حتی کہ بیرونی حملہ آوروں کو خوش آمدید کہنے کا طعنہ بھی لا پروائی کے ساتھ ہمیشہ سہتے رہے۔ ورنہ غاصب قوتوں کے خلاف راجہ پورس سے دلا بھٹی اور احمد خان کھرل سے موجودہ منظر نامے تک پنجاب کا تاریخی ٹریک ریکارڈ کافی حد تک قابل اطمینان بھی ہے اور قابل فخر بھی۔ لیکن کوئی حقائق کی کھوج میں نکلے تو سہی۔

 

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments