سری لنکا: بدترین بحران کا شکار کیسے ہوا؟


سری لنکا کا سیاسی و معاشی بحران اب خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہاں افراط زر یا مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور دال چاول اور تیل جیسی بنیادی اشیائے صرف بھی عام لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ آخر یہ چھوٹا سا ملک اس بحران کا شکار کیسے ہوا۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو خود سری لنکا کے حکم رانوں کی بد اعمالیاں ہیں، بدعنوانیاں، اقربا پروری اور ضرورت سے زیادہ اخراجات ہیں جب کہ قرضوں پر زیادہ انحصار اور آمدنی میں کمی بھی معیشت کو  لے ڈوبی ہے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ سری لنکا کی حکومت نے درآمدات پر شدید پابندیاں عائد کردی ہیں، تا کہ زر مبادلہ بچایا جا سکے، مگر اس کے نتیجے میں بنیادی اشیائے صرف کی قلت بھی پیدا ہو گئی ہے۔ مثلاً دودھ کے پاؤڈر اور چاول کی قلت نے عوام کو بہت متاثر کیا ہے۔ سری لنکا کی معیشت کا بڑا انحصار سیاحت پر بھی رہا ہے اور دو سال قبل کورونا وائرس کے آنے سے سیاحت بہت متاثر ہوئی، جو زر مبادلہ حاصل ہوتا تھا وہ خاصا کم ہو گیا۔ دو سال تو کسی طرح معیشت چلتی رہی، مگر اب اس کی بچی کچی استطاعت بھی ختم ہو گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے اور عوامی احتجاج نے حکومت کے لیے پریشان کن صورت حال اختیار کر لی۔

حکمرانوں کی بد اعمالیاں، بدعنوانیاں، اقرباپروری، ضرورت سے زیادہ اخراجات، قرضوں پر انحصار اور آمدنی میں کمی، معیشت کو بھی لے ڈوبی۔

ویسے تو سری لنکا کا نام ڈیموکریٹک سوشلسٹ ری پبلک ہے لیکن اس میں جمہوریت اور سوشلزم دونوں کی کمی رہی ہے۔ یہ 1815 سے 1848 تک برطانیہ کے قبضے میں رہا اور آزادی کے بعد 1972 تک ڈومی نین تھا جب اسے ری پبلک بنا دیا گیا۔ لیکن حالیہ تاریخ میں یہ 26 سال خانہ جنگی کا شکار رہا، جو 1983 سے 2009 تک جاری رہی جب کی مسلح افواج نے لبریشن ٹائیگرز اور تامل ایلام نامی مسلح تنظیم کو شکست دے کر نیست و نابود کر دیا۔ اس خانہ جنگی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ سری لنکا ایک کثیر القومی ملک ہے، مگر ریاست مختلف ثقافتوں، زبانوں اور نسلی گروہوں کو برابر کے حقوق دینے سے گریزاں رہی ہے۔

سری لنکا: بدترین بحران کا شکار کیسے ہوا؟

چوں کہ سنہالی لوگ اکثریت میں ہیں اس لیے تامل اقلیت کو اس سے بڑی شکایات رہی ہیں۔ مذاہب کو دیکھا جائے تو ستر فی صد آبادی بدھ مت پر یقین رکھتی ہے جب کہ ہندو، مسلم اور مسیحی تقریباً دس دس فی صد کے تین بڑے گروہ ہیں۔ آبادی تقریباً سوا دو کروڑ ہے یعنی کراچی کی آبادی کے برابر۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی سری لنکا سے تقریباً دس گنا زیادہ ہے لیکن پاکستان کی فی کس پیداوار سالانہ صرف تیرا سو ڈالر ہے جب کہ سری لنکا کی تقریباً چار ہزار ڈالر کو چھو رہی ہے۔

پچھلے ستر سال میں سری لنکا بھی دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے زیر اقتدار رہا ہے۔ سری لنکا فریڈم پارٹی ( SLFP ) کے بانی بندرا نائیکے تھے جو بائیں بازو کے تھے۔ مگر انہیں صرف تین سال اقتدار ملا یعنی 1956 سے 1959 تک جب انہیں صرف ساٹھ سال کی عمر میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے مقابلے میں یونائٹڈ نیشنل پارٹی دائیں بازو کی جماعت ہے جو پچھتر میں سے تقریباً چالیس سال اقتدار میں رہی ہے۔

اسی پارٹی نے 1977 سے 1994 تک سترہ سال مسلسل حکومت کی تھی۔ سری لنکا کی تاریخ میں دو شخصیات بڑی اہم رہی ہیں، ایک سری ماوو بندرا نائیکے اور دوسری جے وردھنے۔ سری ماوو بندرا نائیکے اپنے والد کے قتل کے بعد 1960 میں سری لنکا کی وزیراعظم بنیں اور انہیں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ وہ 1970 سے 1977 تک وزیراعظم رہیں۔ جب دائیں بازو کے جے وردھنے وزیراعظم بنے اور انہوں نے ایسا صدارتی نظام متعارف کروایا جس میں وزیراعظم صدر کے تابع رہتا ہے۔

جے وردھنے 1977 سے 1989 تک کل بارہ سال اقتدار میں رہے، ایک سال بحیثیت وزیراعظم اور گیارہ سال صدر کے طور پر، ان کے بعد دائیں بازو کی یونائٹڈ نیشنل پارٹی مزید پانچ سال اقتدار میں رہی جب 1994 میں سری ماوو بندرا نائیکے کی صاحب زادی چندریکا کمارا ٹنگا 2005 تک یعنی گیارہ سال صدر رہیں۔ اسی دوران ان 1994 سے 2000 تک ان کی والدہ بندرا نائیکے کے پاس وزیراعظم کا عہدہ رہا۔ 2000 میں اپنی وفات کے وقت وزیراعظم بندرا نائیکے کی عمر چھیاسی برس تھی۔ اس سے قبل تین بار وہ کل اٹھارہ برس وزیراعظم رہ چکی تھیں۔ چندریکا کمارا ٹنگا کی بدقسمتی یہ تھی کہ جب وہ صرف چودہ برس کی تھیں تو ان کے والد کو قتل کیا گیا اور پھر 1988 میں ان کے شوہر جو ایک فلمی اداکار تھے انہیں بھی چندریکا کی آنکھوں کے سامنے گھر کے باہر قتل کیا گیا۔ دو ہزار چھ میں سری لنکا فریڈم پارٹی کی قیادت چندریکا کے ہاتھ سے نکل کر مہندرا راجا پکسا کے ہاتھ میں آ گئی، جس کے بعد راجا پکسا خاندان کا عروج شروع ہوا، انہیں صدر اور وزیراعظم کے عہدے ملتے رہے۔ اب موجودہ صورت حال کے پس منظر کو دیکھیں۔

ہوا یوں کہ سری لنکا فریڈم پارٹی مہندرا راجا پکسا 2005 سے 2015 تک دس سال صدر رہے۔ اس دوران میں انہوں نے 26 سال سے جاری خانہ جنگی کو سختی سے کچل دیا، اسی دوران سنگین جنگی جرائم کے مرتکب بھی ہوئے، مگر 2015 میں انتخاب ہار گئے، جس کے بعد سری سینا کی حکومت رہی جو فریڈم پارٹی اوریو این پی، کی مخلوط حکومت تھی۔ لیکن پھر 2019 میں مہندرا راجا پکسا کے بھائی گوٹا بایا راجا پکسا صدر بن گئے جن کے دور میں حالات خراب ہوئے اور اب سری لنکا تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔ اس وقت صدر گوٹا بایا کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک سابق فوجی افسر ہیں جو اپنے بھائی کے دور صدارت میں 2005 سے 2015 تک وزارت دفاع کے سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ انہوں نے صرف بیس سال فوج میں کام کرنے کے بعد بیالیس سال کی عمر میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے سے ہی جلد ریٹائرمنٹ لے کر کاروبار شروع کر دیا تھا۔

پھر صورت حال یہ بنی کہ راجا پکسا خاندان سری لنکا کا سب سے با اثر سیاسی خاندان بن گیا۔ اب یہ خاندان 2018 کے بعد سے پھر اقتدار میں ہے ایک بھائی صدر ہے اور دوسرا وزیراعظم۔ ان دونوں بھائیوں نے بے تحاشا قرضے لیے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بہت کم کر دیا، پھر ٹیکس میں بہت چھوٹ دی گئی اور پھر اس معاشی بحران میں اب تک پوری کابینہ استعفیٰ دے چکی ہے لیکن خود صدر اور وزیراعظم اپنے عہدے چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔

اب سری لنکا دیوالیہ ہونے کے دھانے پر کھڑا ہے کیوں کہ اس کے پاس صرف دو ارب ڈالر کے ذخائر بچے ہیں۔ جب کہ سری لنکا کو چار ارب ڈالر کے قرضے ادا کرنے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک ارب ڈالر کے بین الاقوامی بانڈ کی ادائیگی بھی کرنی ہے۔ اگر سری لنکا کے ملکی اور بین الاقوامی قرضے ملا لیے جائیں تو بہت جلد اسے کل نو ارب ڈالر تک ادا کرنے ہوں گے۔

اس بحران میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا بھی ہاتھ ہے کیوں کہ اس نے ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو گیارہ فی صد سے بڑھا کر پندرہ فی صد کر دیا اور جن شعبوں کو چھوٹ میسر تھی وہ ختم کرا دی۔ پھر دھڑا دھڑ نوٹ چھاپنے شروع کر دیے۔ اب بجٹ کا خسارہ بہت بڑھ چکا ہے جس کے نتیجے میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے۔ صرف اپریل 2022 کے پہلے ہفتے میں سری لنکا نے ایک سو بیس ارب روپے کے نوٹ چھاپے۔ اس وقت سری لنکا کا بین الاقوامی قرضہ مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً ڈیڑھ سو فی صد ہو چکا ہے۔ کچھ لوگ الزام لگا رہے ہیں کہ ایسا چینی قرضے کے باعث ہوا ہے جب کہ چین کا کہنا ہے کہ اس کا قرضہ سری لنکا کے مجموعی قرض کا صرف دس فی صد ہے۔ پھر چین قرض کی ادائیگی میں بار بار سہولتیں بھی دیتا رہا ہے۔

اس دوران میں حکومت نے ایک بے وقوفی یہ کی کہ ایگرو کیمیکل کی کھاد پر پابندی لگا دی اور کہا کہ کسان صرف قدرتی کھاد استعمال کریں جس سے زرعی پیداوار پر بڑا اثر پڑا اور کسانوں کی آمدنی کم ہو گئی یعنی غربت پھیلنے لگی اور غذائی اشیاء کی قلت ہونے لگی۔ چائے کی پیداوار گھٹنے سے برآمدات بھی کم ہو گئیں پھر سری لنکا کو راشن کا نظام دوبارہ لانا پڑا۔ روس اور یوکرائن کی جنگ سے بھی وہاں جانے والی برآمدات بہت کم ہو گئیں اور آمدنی گھٹ گئی۔

اس طرح اب سری لنکا اپنی تاریخ کے بدترین بحران میں مبتلا ہے۔ پارلیمان کے چالیس ارکان حکمران مخلوط حکومت کو چھوڑ چکے ہیں۔ ایندھن اور بجلی کی شدید قلت ہے، احتجاج بڑھ رہے ہیں۔ کاغذ کی قلت کے باعث بچوں کی کتابیں اور کاپیاں تک مشکل سے مل رہی ہیں جن کی وجہ سے کئی علاقوں میں سکول بھی بند کرنے پڑے اور امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔

دواؤں کی قلت کے باعث بیمار پریشان ہیں۔ زرمبادلہ نہ ہونے باعث کئی ممالک میں سری لنکا کے سفارت خانے کام بند کرچکے ہیں۔ اپریل 2022 کے ابتدائی دس دنوں میں نجی کاروباری اداروں نے درخواست کی ہے کہ سری لنکا کے رہ نما ان کے مسائل حل کریں ورنہ تمام کاروبار اور صنعتیں بند ہوجائیں گی۔ اب عوام کا صرف ایک مطالبہ ہے اور وہ یہ کہ راجا پکسا خاندان یعنی صدر اور وزیراعظم بھائی استعفے ٰ دے دیں۔ بینروں پر لکھا ہے ”سری لنکا کو راجا پکسا خاندان سے بچاؤ“ اس مطالبے میں اب تمام جماعتیں اور شعبہ زندگی کے لوگ شامل ہیں۔

اب بہتر سالہ صدر گوٹا بایا راجا پکسا کا اقتدار شدید خطرے میں ہے اور ان کی تین سالہ صدارت کا سوج غروب ہوتا معلوم ہو رہا ہے گو کہ ان کی جماعت کو پارلیمان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے لیکن وہ ان کے کسی کام کی نہیں۔ ان کے خاندان کے کم از کم آدھا درجن لوگ حکومت کے اہم ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں مگر اب یہ سب ان کے ہاتھوں سے نکلنے والے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments