ہماری زبان میں ایک حرف ہے ٹ


ہماری زبان میں ایک حرف ہے ٹ، نہ جانے کیوں ٹ ذہن میں آتے ہی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ اسی کے ذریعے سے ہم کسی چیز کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں یعنی ٹائیں ٹائیں فش۔ اسی سے باتیں ٹالی جاتی ہیں اور اسی کے ذریعے ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے۔ اگر کسی شے کو آپ صرف ٹٹول کر دیکھیں گے تو آپ اس کا پورا ادراک نہیں کر سکتے یعنی ادھورے پن کا احساس رہ جائے گا۔ اس سے ایک لفظ ٹھس بھی ہوتا ہے اور آپ کو علم ہو گا کہ جو ٹھس ہو وہ کسی کام کا نہیں ہوتا۔

اسی ٹ سے اکثر ٹھیس بھی لگ جاتی اور رہ رہ کر دل میں ٹیسیں بھی اٹھتی ہیں۔ اسی سے ایک جگہ ٹمبک ٹو بھی ہے جہاں سے آنے والوں کو بے وقوف اور احمق سمجھا جاتا ہے۔ اسی سے ٹھٹھول بھی ہوتا ہے جو کہ عامیانہ مذاق کی ایک قسم ہے۔ اسی سے ایک جانور بھی ہوتا ہے ٹٹو جو کسی کام کا نہیں ہوتا پھر بھی لوگ اسے کرائے پرلے لیتے ہیں۔ محفل میں ٹھٹھہ مار کر ہنسنا بھی بد تہذیبی یا تہذیب کے خاتمے کی علامت ہے۔ بچھانے کے لیے سب سے کم قیمت بچھونا ٹاٹ ہوتا ہے اور کبھی کبھی کمخواب میں پیوند لگانے میں استعمال ہوتا ہے اور کمخواب کی اہمیت کو ختم کر دیتا ہے۔ اسی ٹاٹ کو بوریا بھی کہتے ہیں جو کبھی کبھی محبوب سے لگائی گئی امیدوں کے خاتمے کا سبب بن جاتا ہے بقول چچا غالب

ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

اسی سے ٹوپی بھی ہوتی ہے جو خود پہنی جائے تو اچھی بات ہے لیکن اگر کسی کو پہنائی جائے تو، تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ اسی ٹ سے لوگ طوطے کی طرح ہر وقت ٹائیں ٹائیں کرتے رہتے ہیں اور اس ٹائیں ٹائیں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اور تو اور گولی بھی ٹھاکر کے ماری جاتی جو زندگی کے خاتمے کا سبب بنتی ہے۔ امیر لوگ اسی ٹ کی مدد سے غریبوں کو ٹھوکر پر رکھتے ہیں۔ راستے کے پتھروں کو بھی یہی ٹھوکر لگائی جاتی ہے۔ راستے کے ذکر پر یاد آیا کہ ٹول بھی اسی ٹ سے ہے جو آپ کی جیبیں خالی کر دیتا ہے۔

ایک لفظ ٹکٹکی بھی اسی ٹ سے شروع ہوتا ہے جو عشاق کے وژن کا خاتمہ کر دیتا ہے کہ وہ ٹکٹکی باندھ کر صرف اور صرف معشوق کو ہی دیکھتے رہتے ہیں ادھر ادھر نہیں دیکھتے۔ اسی ٹکٹکی پر چڑھا کر ضیا صاحب نے اپنے سب مخالفوں کو ختم کیا تھا کوڑوں سے ان کی کمر کی دھجیاں اڑا کر۔ اسی ٹ سے کبھی ٹانگیں کانپا کرتی تھیں مگر اب اس محاورے کا بھی خاتمہ ہو چکا ہے اور اب کانپیں ٹانگتی ہیں۔ اسی سے وہ ٹانگنا بھی ہوتا ہے جس طرح بھٹو کو ٹانگ کر ختم کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ آج تک نہ صرف زندہ ہے بلکہ ہر گھر سے نکل آتا ہے جیسا کہ زرداری کے گھر سے۔

اسی ٹ سے مخالفوں کی ٹھکائی کر کے مخالفت ختم کی جاتی ہے۔ اسی ٹ سے ٹرخایا جاتا ہے، ٹالا جاتا ہے، ٹانگ کھینچی جاتی ہے، ٹوہ لی جاتی ہے اور ان سے تعلقات کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اسی سے ٹیلا بھی ہوتا ہے جس کے اوپر سے کسی کو دھکا دیا جاتا ہے۔ اگر آپ کی گاڑی سڑک کے حادثے میں تباہ و برباد ہو جائے تو اسے بھی کہتے ہیں کہ ٹوٹل ہو گئی یعنی مکمل خاتمہ۔ ہماری اردو زبان میں تین الفاظ ایسے بھی ہیں جو آئے انگریزی سے ہیں لیکن اب ہماری زبان کا حصہ ہیں اور ان کے آ جائے سے بہت کچھ ختم ہوجاتا ہے ۔

ایک نوٹ کہ اگر کسی کم ظرف کے پاس زیادہ آ جائیں اور آئے بھی نئے نئے ہوں تو ایمان ختم، تہذیب ختم، رواداری ختم اور اور بھی بہت کچھ ختم۔ دوسرا ہے ووٹ کہ اس کے غلط استعمال سے ہمارے معاشرے میں سکون ختم، امن ختم، بھائی چارہ ختم، گورننس ختم اور 1972 میں ملک ختم۔ تیسرا ہے بوٹ کہ یہ جہاں آ جائیں وہاں سب کچھ ختم۔ آپ نے غور کیا کہ ان تینوں الفاظ میں ٹ بھی آخر میں آ رہی ہے یعنی خود ٹ ختم۔ انہوں تینوں نے تو ٹ کو بھی کوٹ کے رکھ دیا۔

جنید اختر
Latest posts by جنید اختر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments