کیا بالی وڈ کو شائقین کو سینما گھروں تک واپس لانے کا فارمولہ آ گیا ہے؟

پراگ چھاپیکر - سینیئر صحافی، بی بی سی ہندی کے لیے


پہلے او ٹی ٹی پلیٹ فارمز (جیسے نیٹ فلکس) اور پھر کورونا کی مار سے بے حال بالی ووڈ کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ لوگوں کو سینما گھروں تک کیسے لایا جائے۔ اس صورتِ حال نے فلمسازوں کو بڑی پریشانی میں ڈال دیا ہے۔

فلمسازوں کو یہ تو سمجھ میں آچکا ہے کہ ہتھیلی میں سمٹ چکی اس تفریحی دنیا سے لوگوں کو باہر نکال کر سینما گھروں تک لے جانا اتنا آسان نہیں ہوگا اور اس کے لیے کسی کرشمے کی ضرورت ہوگی۔ اور وہ کرشمہ ہوگا ‘لارجر دن لائف’ یعنی عظیم الشان فلمیں۔

درحقیقت حال ہی میں آئی ایس ایس راجامولی کی فلم ’آر آر آر‘ نے واضح کر دیا ہے کہ اب اگر لوگوں کو سینما ہال تک لانا ہے تو اس کے لیے ایسا عظیم الشان سینما بنانا پڑے گا، جس پر وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ اسے دیکھنے کا مزہ بڑے پردے پر ہی ہے۔

اس کے لیے بڑا بجٹ، بڑے ستارے، بڑے بجٹ اور بڑی شان و شوکت کی ضرورت ہوگی۔

بالی ووڈ کے لوگ یہ سمجھ چکے ہیں کہ اگر 600 روپے کا ٹکٹ لے کر تھیٹر جانے والے کو ایک عظیم الشان تجربے کے ساتھ بھرپور تفریح نہیں ملے گی تو وہ او ٹی ٹی کے جال سے باہر نہیں نکل پائے گا۔

ایسا نہیں ہے کہ بالی ووڈ والوں نے کبھی عظیم الشان سینما نہیں بنایا۔ شان و شوکت کے پیمانے مختلف ادوار میں مختلف رہے ہیں۔ ستر اور اسی کی دہائی میں بہت سی ملٹی سٹار فلمیں بنیں اور کامیاب بھی رہیں۔

لیکن 90 کی دہائی کے بعد اس میں کمی آئی اور پھر ایک موقع پر ایسی فلموں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا۔ یش راج، کرن جوہر، سنجے لیلا بھنسالی اور ساجد ناڈیاڈوالا جیسے فلمسازوں نے بڑے بجٹ اور بڑے پیمانے پر فلمیں بنا کر ناظرین کو سینما گھروں تک کھینچنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

اس کے باوجود حالیہ برسوں میں راجامولی کی باہوبلی واحد فلم تھی جسے دیکھنے کے لیے لوگوں نے سینما گھروں میں جانا پسند کیا۔ یہاں سینما ہال سوریاونشی، پشپا، گنگوبائی کاٹھیواڑی اور آر آر آر جیسی فلموں کو دیکھنے کے لیے بھرے ہیں تو اس کے پیچھے کچھ بڑا کرنے کی سوچ ہے۔

فلمی کاروبار کے مشہور ماہر ترن آدرش بتاتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب لوگ کہہ رہے تھے کہ او ٹی ٹی کے آنے سے بڑی سکرین ختم ہو جائے گی لیکن کورونا کے بعد اب پشپا، گنگوبائی کاٹھیاواڑی اور آر آر آر جیسی فلموں کی کمائی دیکھ کر لگتا ہے کہ بڑی سکرین کا جادو پوری طرح ختم نہیں ہوگا۔

’او ٹی ٹی آپ کے گھر میں ہے، آپ اسے کسی بھی وقت دیکھ سکتے ہیں لیکن بڑی فلموں کا مزہ بڑی سکرین پر ہی آتا ہے۔‘

ترن آدرش کا خیال ہے کہ کمیونٹی ویونگ کا جو تجربہ تھیٹر میں ہو سکتا ہے وہ گھر پر نہیں ملے گا۔ بڑی سکرین کا مطلب بڑی فلمیں ہیں۔ آج جب ٹکٹ مہنگے ہیں تو لوگوں کو تفریح کی بھی بہت ضرورت ہے۔

سنی لیونی: ’ایکشن میرے لیے بالکل نیا تجربہ، مگر سلمان، شاہ رخ سے بہت کچھ سیکھا‘

بالی وڈ میں کورونا لاک ڈاؤن کے بعد فلموں پر کام دوبارہ شروع

بالی وڈ میں کورونا لاک ڈاؤن کے بعد فلموں پر کام دوبارہ شروع

عظیم الشان فلموں کی بھی ضرورت ہے اور بڑے ستاروں کی بھی ضرورت ہے۔’ آر آر آر’ کی جانب سے ایک معیار طے کیا گیا ہے۔

اب آنے والی فلموں کو بھی اسی پیمانے پر رکھا جائے گا۔ اس لیے اب بالی ووڈ پروڈیوسرز کو عظیم الشان فلمیں دینا ہوں گی۔ آنے والی فلموں کی فہرست کو دیکھ کر کچھ امید نظر آتی ہے۔

کچھ فلمیں جیسے رنویر کپور- عالیہ بھٹ کی برہماسترہ، پربھاس اور سیف کی آدی پورش، کے جی ایف کا دوسرا حصہ، اجے دیوگن- امیتابھ بچن کی رن وے 34، رنبیر کپور کی شمشیرا، ٹائیگر شراف کی ہیرو پنتی 2 اور شاہ رخ خان کی پٹھان جیسی کچھ فلمیں ہوں گی جو شائقین کو سینما گھروں تک لانے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ ان فلموں کو ‘لارجر دن لایف’ یعنی زندگی سے بڑا بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ حال ہی کی بات ہے جب سلمان خان نے ‘لارجر دن لائف’ فلموں کی وکالت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جنوبی انڈیا کی فلموں کے مقابلے ہماری فلمیں کامیاب نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ لوگ ہیرو ازم کو بہت زیادہ فروغ دیتے ہیں۔‘

درحقیقت بالی ووڈ والوں کو ایک زمانے میں یہ غلط فہمی تھی کہ فلمیں صرف سٹار ویلیو پر چلتی ہیں۔ لیکن شاہ رخ سے لے کر اکشے کمار تک سبھی اس کا خمیازہ بھگتتے رہے ہیں۔

کورونا کے دور کے ابتدائی چند برسوں میں چھوٹے شہروں پر مبنی کہانیوں کا غلبہ رہا لیکن وہ قسم مختلف ہے اور تھیٹروں کو ہاؤس فل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

ہدایتکار سنجے پورن سنگھ کا کہنا ہے کہ ‘میرے خیال میں ناظرین نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب ہم سینما گھروں میں صرف وہی چیز دیکھنے جائیں گے جس کا مزہ او ٹی ٹی یا چھوٹی سکرین پر نہیں۔ اس لیے اب فلمسازوں کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ اگر فلم ایک ایونٹ نہیں بن پائے گی، اگر یہ زندگی سے بڑے ہونے کا احساس نہیں دے گی، تو یہ نہیں چلے گی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ‘ایک وقت تھا جب ہم بڑی ملٹی سٹار فلمیں بناتے تھے، ہم ان کا انتظار کرتے تھے، سینما گھروں میں جاتے تھے اور فلمیں ہِٹ ہو جاتی تھیں۔ ساؤتھ پہلے ہی اس سمت میں آگے بڑھ چکا ہے۔ ہر ایک مہینے میں ان کے پاس ایک پین انڈیا یعنی پورے انڈیا کے لیے ایک فلم ہوتی ہے۔ ایسے میں بالی ووڈ کو کمر کس کے تیار ہونا پڑے گا۔ یہ رجحان کبھی فیشن سے باہر نہیں ہوگا۔ ہم نے 90 کی دہائی سے ایسی فلمیں بنانا بند کر دی تھیں لیکن اب ان کی واپسی ہوگی۔‘

ملک میں سوشل میڈیا کا عروج آیا تو اُسے پبلیسٹی اور پروموشن کا اہم ہتھیار بنا لیا گیا۔ نئے آئیڈیاز اور بے تحاشا پیسہ لگا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ بالکل درست ہے کہ اگر اچھا مواد نہ ہو تو شائقین فلمیں دیکھنے سینما گھروں میں نہیں جائیں گے۔ لیکن انھیں وہاں لانے کے لیے تھیٹر والا احساس کرانا ضروری ہے۔

جب تک فلمیں بڑے پیمانے پر تفریحی نہیں ہوں گی، لوگ او ٹی ٹی تک ہی محدود رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments