ہر کمال کو زوال ہے


صرف ساڑھے تین سال پہلے ’پروجیکٹ عمران‘ پاکستانیوں پر مسلط ہوا جو دس اپریل 2022 کو قومی اسمبلی میں اس وقت بری طرح ناکام ہو کر زمین بوس ہو گیا جب اس کی بیساکھیاں چھین لی گئیں۔

پروجیکٹ عمران کیوں لانچ کیا گیا اور یہ کیوں اتنی جلدی اختتام تک پہنچ گیا؟

جمہوریت سے بیزار اسٹیبلشمنٹ کو ہمیشہ اس نظام حکومت کی وجہ سے اپنے اثر و رسوخ میں کمی اور مفادات کا نقصان نظر آیا۔ دس سال کی بلاشرکت غیر مشرف حکومت کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو نئی اور جاندار جمہوری قوتوں سے اپنی طاقت میں کمی دکھائی دینے لگی۔ میثاق جمہوریت کے بعد دونوں بڑی سیاسی قوتوں نے جمہوریت کے استحکام کی خاطر غیرجمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے سے انکار کیا تو ان غیر جمہوری قوتوں نے اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے پروجیکٹ عمران کی ابتدا کی اور اسے ہر قسم کی سیاسی، انتظامی اور مالی مدد کا انتظام کیا۔

اس دوران سیاسی طور پر تاثر پیدا کیا گیا کہ پاکستان میں موجودہ تمام سیاسی قوتیں بدعنوان ہیں اور عمران خان کو بظاہر ایک ایماندار اور محب وطن رہنما کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیا گیا اور اس مقصد کے لیے ابلاغ عامہ کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔

اس بے تحاشا مدد کے باوجود پروجیکٹ عمران 2013 کے انتخابات میں کامیاب نہ ہو سکا تو جمہوری قوتوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ’35 پنکچر‘ جیسے جھوٹ گھڑے گئے اور جائز اور منصفانہ انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی حکومت کو دھرنوں کا نشانہ بنایا گیا۔ پاناما جیسے سکینڈل نکالے گئے اور ان کا استعمال کرتے ہوئے سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے رہنما کو عدالتی جبر کے ذریعے سیاسی عمل سے نکالنے کا انتظام کیا گیا۔

ایک عام تاثر کے مطابق 2018 کے انتخابات میں کسی قسم کا بھی خطرہ نہ لیتے ہوئے پورے انتخابی نظام کے عمل کو مبینہ طور پر یرغمال بنا کے اور آر ٹی ایس نظام کو بٹھا کر پروجیکٹ عمران کی کامیابی کا اہتمام کیا گیا۔ اسے مزید کسی سیاسی مشکل سے بچانے کے لیے کچھ علاقائی جماعتوں کے بازو مروڑ کر انہیں زبردستی اس پروجیکٹ کا حصہ بننے پر مجبور کیا گیا، جس کی گواہی بعد میں مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الٰہی نے بھی دی۔

اتنی بڑی پلاننگ کے بعد تو اس منصوبے کو کامیاب ترین ہونا چاہیے تھا مگر سیاسی بصیرت سے عاری منتظمین کو دہائیوں کے تجربے کے باوجود اب تک سمجھ نہیں آئی کہ سیاسی مسائل اور ان کے حل انجینیئرنگ سے درست نہیں کیے جا سکتے۔ عوام کی امنگوں کے برعکس سیاسی قیادت کچھ دیر تک ہی آگے جا سکتی ہے مگر مکمل کامیابی اسے کبھی نصیب نہیں ہوتی۔ مانگے تانگے کی حکومت کی عمر کبھی طویل نہیں ہو سکتی۔

پروجیکٹ عمران کی اس بنیادی ساختی خرابی کے علاوہ اس کی ناکامی کی بڑی وجہ عمران خان کی گورننس کی ناکامی اور طرز حکومت تھا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پر ایک طفل مکتب کو مسلط کر کے اسے ’وسیم اکرم پلس‘ کا نام دیا گیا۔ اگر یہ صاحب اس قدر ذہین تھے اور آج کل فارغ ہیں تو کیوں نہ عمران خان انہیں شوکت خانم ہسپتال کا ناظم اعلیٰ بنا دیں؟ کیا وہ اپنے اس کامیاب ادارے کو ایک طفل مکتب کے حوالے کرنے کو تیار ہوں گے؟

ان کا یہ فیصلہ ان کی ناقص سیاسی بصیرت کا مظہر تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں گورننس جیسے معاملات کی کوئی سمجھ نہیں تھی اور وہ اپنے کرکٹ میں کپتانی کے کامیاب تجربے کو ملک کو چلانے کے برابر سمجھتے تھے۔ ان کے اس فیصلے نے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ایک انتظامی افراتفری کی صورت حال پیدا کر دی۔

کیونکہ سابق وزیراعظم کرکٹ کی کپتانی کے وقت سے ایک تحکمانہ شخصیت رکھتے ہیں تو انہوں نے اپنی مخلوط حکومت میں شریک جماعت کے رہنماؤں کو اپنا ماتحت سمجھتے ہوئے ان سے رابطے یا ان سے مشورے کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ یہی سلوک انہوں نے اپنی جماعت میں شامل اہم رہنماؤں کے ساتھ اپنایا جس کی وجہ سے ترین، علیم اور دیگر گروپ پیدا ہوئے اور بعد میں جماعت میں بغاوت کا سبب بنے۔ انہیں اپنی برتر معلومات پر بھی بہت فخر تھا اور اسی وجہ سے وہ بہت سارے اداروں کے مشوروں کو نظرانداز کرتے رہے۔

سابق وزیر اعظم کے فیصلوں میں روحانیت کا اثر بھی واضح دکھائی دیا اور ان کے قریب رہنے والے ساتھیوں کی باتوں سے واضح نظر آتا تھا کہ بہت ساری تعیناتیاں قابلیت کی بجائے روحانی مشوروں کی بنیاد پر ہو رہی تھیں۔

اہم تعیناتیوں میں خاتون اول کی روحانی بنیادوں پر دخل اندازی کے بارے میں خبریں پنجاب میں زبان زد عام رہیں اور پنجاب میں سول سروس میں خصوصی مایوسی کا باعث بنیں۔ روحانی مداخلت کی وجہ سے پنجاب میں اہم عہدوں پر تھوک کے حساب سے تبدیلیاں ہوئیں اور ان میں پیسوں کی ادائیگیوں میں سابق خاتون اول کا نام بار بار الزامات کی زد میں آیا۔

حکومت کی معاشی کارکردگی بھی انتہائی مایوس کن رہی اور ایک وقت میں ترقی کی شرح نمو صفر سے بھی نیچے آ گئی۔ لاکھوں نوکریوں کا وعدہ صرف وعدہ رہا بلکہ لاکھوں لوگوں کی نوکریاں جاتی رہیں۔ اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کو حکومت سے کسی قسم کی معاشی بہتری سے مایوس کر دیا۔ اگر معیشت ترقی کر رہی ہوتی تو شاید بڑھتے ہوئے سیاسی مسائل کا مقابلہ کیا جا سکتا تھا۔

پی ٹی آئی حکومت کے تابوت میں آخری کیل فوجی قیادت سے رفتہ رفتہ خراب ہوتے ہوئے تعلقات تھے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے سلسلے میں فوجی قیادت سے عوامی سطح پر سابق وزیراعظم کا اپنے اختلافات کا اظہار کرنا ایک بچگانہ قدم تھا جس نے آخر کار طاقت کے دو مآخذ کے راستے جدا کر دیے۔

پروجیکٹ عمران کی ناکامی میں ہمارے سیاست دانوں اور اداروں کے لیے بہت سے سبق پنہاں ہیں۔ اداروں کے بل بوتے پر پیدا کیے گئے سیاست دان آخرکار آزادی سے سیاسی فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے راستے اداروں سے جدا ہو جاتے ہیں اور ملک دوبارہ سے سیاسی بحرانوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

کیونکہ اب تقریباً تمام سیاسی قوتوں نے اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات اور علیحدگی کا تجربہ کر لیا ہے تو ضروری ہے کہ میثاق جمہوریت کے تحت وہ یہ عہد کریں کہ مستقبل میں وہ اداروں سے نہ مدد مانگیں گے اور نہ ہی ایک دوسرے کو سیاسی نقصان پہنچانے کے لیے ان سے سازباز کریں گے۔

اب جبکہ پی ٹی آئی بیساکھیوں اور سہاروں کے بغیر ہے تو امید ہے کہ ایک اصلی عوامی پارٹی کے طور پر ملکی سیاست میں اپنا مقام بنا سکے گی۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی اب سیاسی انجینیئرنگ کی دکان بند کر دینی چاہیے کیونکہ آخر میں ان کی تمام پیداوار ملکی سیاست میں اپنا مقام بنانے کے لیے آزادانہ سوچ اختیار کرنے لگتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments