وزیراعلیٰ کا انتخاب؛ پنجاب اسمبلی اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر پر حکومتی ارکان کا حملہ اور شدید تشدد


وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے آج صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری پر حکومتی ارکان نے حملہ کر کے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔

ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری کی زیر صدارت پنجاب اسمبلی کا اجلاس تاخیر سے شروع ہوا تو ڈپٹی اسپیکر کے کرسی پر بیٹھتے ہی تحریک انصاف کے اراکین نے اسپیکر پر حملہ کر دیا اور ان پر لوٹوں کی بارش کر دی۔ حکومتی اراکین اسمبلی نے ایوان میں لوٹے لہرا دیے۔

سیکیورٹی اہلکار دوست محمد مزاری کو بمشکل بچا کر واپس چیمبر میں لے گئے۔ حکومتی اراکین نے اسپیکر ڈائس پر قبضہ کر کے علیم خان کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے کے نعرے لگائے۔ ڈپٹی اسپیکر پر تشدد کیا گیا۔ حکومتی اراکین نے ڈپٹی اسپیکر کو لوٹے اور تھپڑ بھی مارے۔

رانا شہباز، خیال احمد کاسترو اور دیگر اراکین نے ڈپٹی اسپیکر کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ ڈپٹی اسپیکر کو مکے مارنے والوں میں محمد اعجاز، لاریب ستی، واسق قیوم، تنویر بٹ، رانا شہباز، شجاعت نواز، مہندر پال سنگھ شامل تھے۔ میاں شفیع محمد نے انھیں چھڑانے کی کوشش کی۔ دھکم پیل کی وجہ سے ڈپٹی اسپیکر کو واپس بھیج دیا گیا۔ شجاعت نواز اور مہندر پال سنگھ نے اسپیکر کی میز پر اور ڈائس پر لگے مائک پر لوٹے رکھ دیے۔

پولیس ایوان میں داخل

اراکین کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کے بال کھینچے گئے اور دھکے بھی دیے گئے۔ ہنگامہ آرائی، بدنظمی کے باعث اجلاس روک دیا گیا۔ صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس اسمبلی ہال میں داخل ہو گئی اور پنجاب اسمبلی کو گھیرے میں لے لیا۔ آئی جی پنجاب پولیس راؤ سردار بھی اسمبلی پہنچ گئے۔

آئی جی پنجاب کو ایک ماہ کی سزا دی جائے گی

وزیراعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الہی نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کیسے ایوان کے اندر داخل ہوئی، ملکی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا، اس کا ذمہ دار آئی جی پنجاب ہے اس کو ایوان میں بلا کر ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا، آئی جی کو ایک ماہ کی سزا دی جائے گی۔

پرویز الہی اور حکومتی اراکین کے شدید احتجاج پر پولیس ایوان سے واپس نکل گئی۔

آئی جی کے خلاف تحریک استحقاق جمع

پنجاب اسمبلی کے ایوان میں پولیس کے داخل ہونے پر حکومتی اراکین نے آئی جی پنجاب پولیس کے خلاف تحریک استحقاق جمع کروا دی، جس کے متن میں کہا گیا کہ پولیس کو ایوان کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی، پولیس کو ایوان میں لاکر ایوان کا تقدس پامال کیا گیا ہے، پولیس کی جانب سے آئین اور پارلیمانی روایات پامال کرنے پر جواب طلب کیا جائے۔

اسپیکر ڈائس پر قبضہ

اسپیکر ڈائس پر تحریک انصاف کی خواتین نے قبضہ کر لیا۔ سعدیہ سہیل کی قیادت میں خواتین اراکین اسپیکر کی نشست پر دائیں بائیں قبضہ کر کے کھڑی ہو گئیں۔ حکومتی اراکین کہہ رہے ہیں کہ لوٹوں کو ووٹ کاسٹ نہیں کرنے دیں گے، بلے کے نشان پر جیت کر شیر کو کیسے ووٹ دے سکتے ہیں۔

ن لیگی ایم پی اے عظمی بخاری اور حکومتی ایم پی اے عابدہ راجہ کی لڑائی بھی ہوئی۔ عابدہ راجہ نے عظمی بخاری کو لوٹی نمبر ون کہا۔ دیگر ایم پی ایز نے دونوں میں بیچ بچاؤ کرایا۔

اسپیکر ڈائس کے گرد سیکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد تعینات کردی گئی ہے۔

متحدہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار حمزہ شہباز اور مسلم لیگ ق و پی ٹی آئی کے متفقہ امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان آج وزارت اعلیٰ کے لیے مقابلہ ہو گا۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس دوست محمد مزاری کی زیرصدارت صبح ساڑھے گیارہ بجے ہونا تھا لیکن وقت پر شروع نہ ہوسکا اور تاخیر سے شروع ہو کر پھر دوبارہ روک دیا گیا۔ اجلاس میں صوبے کے نئے وزیراعلیٰ یا قائد ایوان کا انتخاب بھی کیا ہو گا، امیدوار کو کامیابی کے لیے کل 186 ووٹ درکار ہوں گے۔

متحدہ اپوزیشن کے ارکان قافلے کی صورت نجی ہوٹل سے بسوں میں پنجاب اسمبلی پہنچے۔ حمزہ شہباز اور علیم خان سمیت تمام قیادت بس میں آئی۔ بس سے اترتے ہوئے ارکان اسمبلی نے نعرہ بازی بھی کی۔

دونوں امیدوار اپنی کامیابی کے لیے پرعزم ہیں۔ چوہدری پرویز نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں 189 اراکین جبکہ حمزہ شہباز نے دعوی کیا ہے کہ انہیں ترین اور علیم خان گروپ سمیت 200 سے زائد اراکین کی حمایت حاصل ہے۔

اسمبلی نشستوں کے حساب سے اگر بات کی جائے تو پنجاب کے ایوان میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اراکین کی تعداد 183 جبکہ مسلم لیگ نون کے اراکین کی تعداد 166 ہے، اسی طرح مسلم لیگ ق کے ارکان کی تعداد 10، پی پی 7 اور آزاد امیدواروں کی تعداد 4 ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments