جس ”دھج“ سے کوئی مقتل کو گیا!


25 جولائی 2018 کی شب، آر۔ ٹی۔ ایس کی مرگ ناگہانی کے بعد ، و تعز من تشآء و تذل من تشآء کے یادگار ٹویٹ کے جلو میں، فتح و کامرانی کے پھریرے لہراتے ہوئے خان صاحب کی باضابطہ سہرا بندی کے لئے 18 اگست کی تاریخ طے پائی۔ نواز شریف اور مریم نواز کئی ماہ پہلے جیل ڈالے جا چکے تھے۔ عمران خان گزشتہ کئی برس سے نواز شریف اور ان کے خاندان کو تختہ مشق بنائے ہوئے تھے۔ 2014 کے شہرہ آفاق چار ماہی دھرنوں کے بعد سے الزامات اور مغلظات کا طوفان تھمنے میں نہیں آ رہا تھا۔

پانامہ کا ہنگامہ اٹھا اور معاملہ جسٹس (ر) آصف سعید کھوسہ کے توسط سے سپریم کورٹ پہنچا تو اس سارے ناٹک کے مرکزی کردار خان صاحب ہی تھے۔ صبح و شام نواز شریف کے خلاف تبریٰ ان کا معمول تھا۔ مسلم لیگی راہنما اور نواز شریف کے معتمد خاص ممنون حسین منصب صدارت پر فائز تھے۔ انہیں تردد ہوا کہ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف آگ اگلنے اور اخلاقیات کے ادنٰی قرینوں تک کو پامال کرنے والے شخص کو وزارت عظمیٰ کا حلف کس طرح دیں۔

ایک ملاقاتی کے ذریعے انہوں نے اڈیالہ جیل میں قید، نواز شریف کو اپنے اضطراب سے آگاہ کیا اور پوچھا۔ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ نواز شریف نے واضح اور دو ٹوک جواب دیا، ”آپ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں اور ضرور حلف لیں“ ۔ ممنون حسین نے، عمران خان کو بھرپور عزت دی۔ فاروق عادل (جو ان دنوں ایوان صدر میں فرائض سرانجام دے رہے تھے ) نے حال ہی میں، یوم حلف کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان کے مطابق عمران خان مضطرب لگ رہے تھے۔ ایوان صدر کے پنک روم میں انہوں نے صدر سے کہا کہ وہ حلف آہستہ آہستہ پڑھیں تاکہ وہ آسانی سے دوہرا سکیں۔ شستہ مزاج صدر نے ایسے ہی کیا۔ اس کے باوجود خان صاحب کے لئے خاتم النبیین کی ادائیگی ممکن نہ ہوئی۔

ممنون حسین، نواز شریف اور خان صاحب کی یہ داستان پرانے پاکستان سے تعلق رکھتی ہے۔ تب بھی سیاست کے سینے میں دل نہیں تھا۔ البتہ آنکھ میں کچھ حیا باقی تھی۔ گزشتہ چوالیس ماہ کے دوران نیا پاکستان پورے طمطراق کے ساتھ طلوع ہو چکا ہے۔ شہباز شریف کو ایوان نے اپنا وزیراعظم منتخب کیا تو صدر عارف علوی علیل ہو گئے۔ خان صاحب نے فرمان جاری کیا کہ عارف! اس چور، ڈاکو سے حلف نہیں لینا۔ یہ فریضہ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو بجا لانا پڑا۔ عارف علوی، شہباز شریف اور عمران خان کی یہ داستان، نئے پاکستان کی کہانی ہے۔ بلاشبہ پاکستان برق رفتاری سے روشن جمہوری اقدار و روایات کی طرف بڑھ رہا تھا کہ امریکی سازش نے وطن عزیز کو ایک بار پھر پستیوں کی طرف دھکیل دیا۔

پونے چار سال کچھ کم عرصہ نہیں ہوتا۔ امریکی صدر کی تو آئینی میعاد ہی چار سال ہے۔ خان صاحب نے اس طویل عرصے میں کیا کیا؟ اس سوال کا جواب ان کے لئے ممکن ہے نہ ان کے گز گز بھر لمبی زبانیں رکھنے والے ترجمانوں کے لیے۔ خان صاحب کے نامہ اعمال میں کچھ ایسا ہے ہی نہیں جسے سر اٹھا کر عوام کی بارگاہ میں پیش کیا جا سکے۔ گالیاں، الزامات، تہمتیں اور مغلظات کا لہجہ کتنا ہی بلند آہنگ کیوں نہ ہو، کسی حکومت کی کار گزاری کا حسن نہیں بن سکتا۔ سیاسی حریفوں کو کتنے ہی ریفرنسز، مقدموں، تھانوں، کچہریوں، عدالتوں، پیشیوں، سزاؤں اور جیلوں میں کیوں نہ الجھا دیا جائے، کسی حکومت کی مانگ میں سندور نہیں بھرتا۔ ساری دنیا میں ازل سے ایک ہی پیمانہ ہے۔ اپنے منشور پر عمل، اپنے وعدوں اور دعووں کی تکمیل، ملکی ترقی و خوش حالی، خلق خدا کی فلاح و بہبود اور مسلمہ جمہوری اقدار کی پاسداری۔ انہی اجزاء سے کسی حکومت کی کارکردگی کی تصویر ابھرتی ہے۔

خان صاحب خوش بخت ٹھہرے کہ ان کا سفر حکمرانی شروع ہونے سے پہلے ہی ان کے تمام سیاسی حریفوں، بالخصوص نواز شریف اور ان کے پورے خاندان کو نشان عبرت بنا دیا گیا تھا۔ میڈیا کی مشکیں کس کر خان صاحب کی چاکری پر لگا دیا گیا۔ چھوٹے بڑے تمام ادارے قطار اندر قطار دست بستہ کھڑے ہو گئے۔ حافظ برخوردار کے بقول گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے (گلیاں ویران ہو جائیں جن میں میرا محبوب بے خوف و خطر گھومتا پھرے ) کا منظر بنا دیا گیا۔ عمران خان سات دہائیوں سے کچھ اوپر کی تاریخ کے سب سے طاقتور اور سب سے با اختیار وزیراعظم بن گئے۔ پونے چار برس تک سنجیاں ہو جانے والی گلیوں کا مرزا یار بنے رہے لیکن ان کی شاخ اقتدار پر پھل تو کیا آتا کوئی شگوفہ بھی نہ پھوٹا بلکہ وعدوں اور دعووں کے سبز رنگ پتے بھی خزاں رسیدہ برگ زرد کی طرح ہواؤں میں اڑنے لگے۔

کوئی کچھ بھی کہتا پھرے، ساری داستان کو صرف ایک جملے میں سمیٹا جا سکتا ہے کہ ”وہ قومی تاریخ کے سب سے طاقتور اور سب سے ناکام حکمران نکلے۔“ اتنی طاقت و توانائی تو کسی سیاہ رنگ پتھر میں بھر دی جائے تو اس سے بھی کونپلیں پھوٹ نکلیں لیکن ستم یہ ہوا کہ اپنے سامنے امکانات اور ممکنات کا ایک جہان نو کھل جانے کے باوجود خان صاحب کی سوچ اندھے، گونگے اور بہرے غیظ و غضب میں لتھڑی رہی جسے وہ احتساب کا نام دیتے شریف خاندان پر تازیانے برساتے اور نہال ہوتے رہے۔

پونے چار برس یہی ان کا مشن رہا۔ ان کی ریاست مدینہ کی ساری توانائیاں، تمام دعوے، تمام وعدے اور تمام نعرے، سفاک احتساب کی اندھیر نگری کا رزق ہو گئے۔ ان کے لئے یہ باتیں سامان تسکین نہ تھیں کہ ملک میں سرمایہ کاری آئی، معیشت کو کتنا سنبھالا ملا، روزگار کے کتنے مواقع نکلے، مہنگائی میں کتنی کمی آئی، عوام کے کتنے زخم بھرے، پاکستان کے چہرے پر کتنا نکھار آیا اور بیرونی دنیا میں پاکستان کے نام و مقام میں کتنا اضافہ ہوا۔ ان کے دل کی آسودگی ان باتوں میں تھی کہ نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ نواز، کیپٹن (ر) صفدر اور خاندان کے دیگر متعلقین پر کتنے مقدمات قائم ہوئے؟ کتنوں میں سزا ہوئی؟ نہیں ہوئی تو کیوں نہیں ہوئی؟ فلاں کو ہتھکڑی کیوں نہیں لگائی گئی؟ فلاں کو بی کلاس کیوں دی گئی؟ فلاں کا کھانا گھر سے کیوں آیا۔

ان کی نیندیں قوم و ملک کو درپیش مسائل کی وجہ سے نہیں، اس وجہ سے حرام رہتی تھیں کہ ان کا فلاں حریف ابھی تک آزاد کیوں پھر رہا ہے۔ وہ مسلسل چور ڈاکو کا ورد کرتے اور بتاتے رہے کہ یہ لوگ اربوں کھربوں لوٹ کر باہر لے گئے ہیں۔ میں ان سے ایک ایک پائی واپس لئے بغیر چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ اس کی جھلک چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی بریفنگ میں ملتی ہے جو دو دن قبل قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو دی گئی۔ جس ادارے کو نیچے کے ادنی اہلکار سے لے کر چیئرمین تک، شریف خاندان اور دیگر سیاسی حریفوں کی کرپشن کھنگالنے اور لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کا فریضہ سونپا گیا، اس کا کہنا ہے کہ نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کل آٹھ سو بیاسی ( 882 ) ارب روپے بازیاب کرائے ہیں۔ سیاستدانوں سے برآمد کی گئی کل رقم صرف سینتالیس کروڑ روپے ہے۔

چوالیس ماہ کے کارہائے نمایاں اور ترجیحات تو ایک مقالے کا موضوع ہیں۔ سیاسیات کے کسی طالب علم کو اس پر ضرور کام کرنا چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں کو پتہ چلے کہ ان کے اسلاف میں کیسے کیسے نابغے گزرے ہیں۔ لمبی کتھا کو یہیں چھوڑتے ہوئے خان صاحب کی اس درخشاں تاریخ پر ایک نظر ڈالیے جو انہوں نے تحریک عدم اعتماد کا ناقوس بجنے کے بعد رقم کی۔ پہلے پھیپھڑوں کی پوری قوت کے ساتھ نعرہ لگایا کہ ”اللہ تو نے میری سن لی۔ یہ میرے نشانے پر آ گئے ہیں۔ میں ایک بال پر تین وکٹیں اڑا دوں گا۔ میں ان کے ساتھ وہ کروں گا جو یہ سوچ بھی نہیں سکتے۔“ پے در پے جلسوں میں اپوزیشن کو بے نقط سنائیں۔ انہیں طرح طرح کے تحقیری ناموں سے پکارا۔ چوہے قرار دیا۔ موجوں کا اضطراب بڑھتا گیا۔ کشتی کے تختے چرچرانے لگے۔ ساتھی چھلانگیں لگانے لگے۔ کسی نے سمجھانے بجھانے کی کوشش کی تو رعونت سے جھٹک دیا۔ پوٹلی میں کارکردگی کی پونجی نہ تھی کہ عوام کو یاد دلاتے۔

سورج سوا نیزے پر آ گیا تو امریکہ میں پاکستانی سفیر کی ایک جائزہ رپورٹ والا کاغذ فضا میں لہرایا اور کہا کہ امریکہ نے میرے خلاف سازش کردی ہے اور ساری اپوزیشن ڈالر لے کر امریکہ سے جا ملی ہے۔ یہ خط پچھلے بیس روز سے معمول کی ڈاک کے طور پر آیا پڑا تھا۔ پھر اصول پسندی کو ہوس اقتدار کی بھٹی میں جھونکتے چلے گئے۔ چودھری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار نامزد کر دیا۔ صرف اس لیے کہ ان کے پاس پانچ ووٹ تھے۔ بات پھر بھی نہ بنی تو پونے چار برس تک ”این۔ آر۔ او نہیں دوں گا“ کے فلک شگاف نعرے لگانے والے کپتان نے روایتی اسٹیبلشمنٹ کو پکارا کہ مجھے اپوزیشن سے این آر او دلوا دو۔ یہ کہانی آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل بیان کر چکے ہیں۔

اپوزیشن نے پیش کردہ تینوں تجاویز مسترد کر دیں۔ سوئے مقتل قدم بڑھانا نا گزیر ہو گیا۔ ”جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔“ لیکن مقتل کے تصور سے ہی خان صاحب کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ وہ قربانی کے لئے زیر خنجر لائے جانے والے جانور کی طرح تڑپنے، پھڑکنے اور پاؤں پٹخنے لگے۔ یہاں سے ان کا وہ چہرہ سامنے آیا، جس پر آئین، قانون، جمہوری روایات، اقدار اور اخلاقیات کا کوئی ادنیٰ سا عکس جمیل بھی نہ تھا۔

یہ یقین ہو جانے کے بعد کہ میں پارلیمانی اکثریت کھو چکا ہوں، ووٹنگ کرانے میں حتٰی الامکان تاخیر کی۔ ووٹنگ کی تاریخ سر آن پڑی تو ڈپٹی اسپیکر کو حکم صادر ہوا، ”قرارداد عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش کے ساتھ جوڑ کر مسترد کر دو۔“ قاسم سوری نے یہی کیا۔ خان صاحب نے اسے اپنی طلسمی پٹاری کا ”سرپرائز“ قرار دے کر اپوزیشن کا مضحکہ اڑایا۔ پلک جھپکنے میں قومی اسمبلی تحلیل کر دی۔ سمری پر دستخط کرنے کے لیے صدر عارف علوی کو پہلے ہی وزیر اعظم ہاؤس لا بٹھایا گیا تھا۔

معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا۔ ایک نہایت واضح، دو ٹوک اور غیر مبہم فیصلہ صادر ہوا۔ عدم اعتماد کے لئے تاریخ اور وقت کا تعین بھی ہو گیا۔ خان صاحب نے فرمان جاری کیا۔ ”تعطل پیدا کرتے رہو۔ ووٹنگ نہیں کرانی“ ۔ صبح ساڑھے دس بجے سے شروع ہونے والا اجلاس وسط شب تک چلتا رہا۔ کئی کئی گھنٹوں کے وقفوں کے دوران ”آخری بال تک لڑوں گا“ کے نعرے گونجتے رہے۔ یہاں تک کہ عدالتوں کے دروازے کھلنے اور فضاؤں میں ہیلی کاپٹر اڑنے لگے۔ معلوم نہیں خان صاحب نے ”آخری بال“ کھیلی یا نہیں لیکن میچ ہار گئے۔ وہ شہباز شریف کو وزیر اعظم بننے سے تو نہ روک سکے لیکن صدر عارف علوی کو سختی سے روک دیا کہ وہ نو منتخب وزیر اعظم سے حلف نہ لیں۔ کیا یادگار عہد تھا کہ امر ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments