قوم کو تقسیم کرنے کے کھیل کے مضمرات


کسی بھی ریاست، قوم یا معاشرے کی اصل حقیقی طاقت اس کے داخلی نظام میں موجود تمام فریقین کے درمیان سیاسی، سماجی، مذہبی اہم آہنگی پر مبنی رواداری کا کلچر ہوتا ہے۔ کیونکہ عمومی طور پر ریاست کے داخلی محاذ پر موجود مسائل اور عوام میں ایک دوسرے کے خلاف موجود خلیج کو بنیاد بنا کر دیگر ممالک جو ہمارے بارے میں منفی یا کمزور کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں ان کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ویسے بھی ہماری داخلی کمزوریاں ہی کسی دشمن یا مخالف ملک کی طاقت بنتی ہے۔ ریاستی نظام میں تمام فریقین کے درمیان سیاسی، سماجی، مذہبی بنیادوں پر سوچ اور فکر کے درمیان فرق کوئی انہونی بات نہیں ہوتی۔ یہ عمل ہی معاشرے کا حسن ہوتا ہے کہ اس میں مختلف خیال کے لوگ ایک دوسرے کے بارے میں مختلف سوچ اور فکر کے باوجود اکٹھے رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

پچھلے کچھ عرصہ سے پاکستان کی ریاست کو ایک بڑا چیلنج سوشل میڈیا کے تناظر میں قوم کو تقسیم کرنے یا اداروں کے خلاف منفی مہم کی بنیاد پر بڑی مخالفانہ مہم کا سامنا ہے۔ اس مخالفانہ مہم کے پیچھے جہاں کچھ داخلی سطح پر افراد یا گروہ ہیں وہیں اس کھیل کے بڑے تانے بانے پاکستان مخالف ممالک کے ساتھ بھی جڑے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ اس طرز کی مہم کی بنیاد محض ردعمل تک محدود نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک خاص منصوبہ بندی کی بنیاد پر ترتیب دی جاتی ہے جس کا بڑا مقصد قوم میں انتشار اور غیر یقینی کی صورتحال کو پیدا کر کے ریاستی نظام کو کمزور کرنا ہوتا ہے۔ عمومی طور پر اس طرز کی مہم کو ہم ففتھ جنریشن وار یا ہائبرڈ وار کا نام دیتے ہیں۔ یعنی اب جنگوں کی بنیاد ہتھیاروں سے زیادہ ابلاغ کے محاذ پر لڑی جاتی ہے جس میں سیاسی مقاصد کو بنیاد بنا کر اپنے مخصوص ایجنڈے کو ایک بڑے بیانیہ کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے۔

پاکستانی ریاستی نظام کو داخلی سطح پر جو ایک بڑا چیلنج درکار ہے اس میں سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر فرقہ وارانہ، لسانی، علاقائی تقسیم کی بنیاد پر انتہا پسندی یا شدت پسندی شامل ہے۔ اس مہم میں جہاں نفرت انگیز سوچ اور فکر کو غلبہ ہے وہیں بالخصوص ریاستی اداروں کو بنیاد بنا کر ان کو نظام میں متنازعہ بنانے کا کھیل بھی اہم ترجیح ہوتی ہے۔ بالخصوص فوج اور عوام میں خلیج پیدا کرنا یا ان میں تقسیم کی سوچ اور فکر کو نمایاں کرنا کچھ مخصوص داخلی و خارجی عناصر کا اہم ایجنڈا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت 79 ویں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں روایتی اور غیر روایتی خطرات کا جائزہ اور ان سے نمٹنے کی مختلف حکمت عملیوں پر غور کیا گیا۔ یہ اجلاس ایک غیر معمولی اجلاس تھا جس میں حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف چلائی جانے والی مہم پر خاصی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ فوجی قیادت کے بقول اس طرز کی مہم کا مقصد سوسائٹی اور ادارے کے درمیان خلیج پیدا کرنا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ریاستی ادارے سوشل میڈیا پر پاکستان میں انارکی پھیلانے کے اس کھیل کو ختم کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی کے نظام کو ترتیب دے رہے ہیں۔ فوجی قیادت کے بقول پاکستان کے خلاف منفی اور من گھڑت خبریں پھیلانے اور گمراہ کن مخالفانہ مہم کرنے والی ہزاروں ویب سائٹس کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں جو پاکستان کو ہر محاذ پر کمزور کرنے کا ایجنڈا رکھتا ہے۔

فوجی قیادت کی جانب سے اداروں سمیت پاکستان مخالف مہم پر ایسے افراد یا اداروں کو سخت پیغام دیا گیا ہے کہ ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی نرمی نہیں برتی یا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ عمومی طور پر ریاستی یا حکومتی پالیسی پر تنقید کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور یہ حق اسے آئین دیتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں افراد اور ادارے تنقید اور تضحیک کے پہلو کے درمیان فرق کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا جان بوجھ کر اس کو نظر انداز کر کے نفرت انگیز یا تضحیک آمیز سوچ اور فکر کو پروان چڑھاتے ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ریاستی محاذ پر اداروں پر ہونے والی تنقید کو خاص طور پر تضحیک کے پہلو کی بنیاد پر دیکھا جا رہا ہے اور اس کھیل کے پیچھے سیاسی مقاصد ہیں۔ ایک وجہ افراد کا لاشعوری طور پر اس طرز کی منفی مہم میں حصہ بننا ہوتا ہے جبکہ تشویش کا پہلو شعوری طور پر اس منفی مہم کو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت چلانا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرز کی منفی مہم میں موجود افراد یا گروہ سے کیسے نمٹا جائے۔ عمومی طور پر یہ ہی دلیل دی جاتی ہے کہ ایسے لوگوں کو طاقت کی بنیاد پر کچلنا اور ریاستی رٹ کو قائم کرنا ہوتا ہے۔

انتہا پسندی، شدت پسندی یا اداروں کے خلاف جاری منفی کھیل کا یہ ایجنڈا محض انتظامی نوعیت پر مبنی نہیں اور نہ ہی اسے محض انتظامی یا قانونی بنیاد یا طاقت کی بنیاد سے نمٹا جاسکتا ہے۔ اس مسئلہ ایک حل انتظامی یا قانونی نوعیت کا ہوتا ہے لیکن دوسرا اہم اور سنجیدہ مسئلہ قومی سطح پر نئی نسل کی عقلی، علمی و فکری بنیادوں پر ذہن سازی سے جڑا ہوا ہے۔ ہمیں نئی نسل کی فکری بنیادوں پر تربیت کرنی ہے اور ان میں ریاستی مفادات کی اہمیت سمیت تنقید اور تضحیک کے پہلو کے فرق کو نمایاں کرنا اور ان کو ریاستی نظام میں جوڑے رکھنے سے جڑا ہوا ہے۔

ان کو یہ باور کروانا ہو گا کہ نفرت انگیزی پر مبنی یہ سوچ اور فکر محض ان کے لیے ہی نہیں بلکہ ملکی سلامتی کے لیے بھی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ اب سوشل میڈیا ابلاغ کی دنیا میں ایک نئی سیاسی حقیقت اور طاقت بن گئی ہے۔ اس سوشل میڈیا کی دنیا کو نظرانداز کرنا اور اسے طاقت کی بنیاد پر کمزور یا بند کرنا مسئلہ کا حل نہیں۔ آج جو ففتھ جنریشن وار یا ہائبرڈ دار دنیا میں ایک بڑے خطرناک ہتھیار کی بنیاد پر کھیلی جا رہی ہے اس کا موثر ہتھیار سوشل میڈیا کی دنیا ہے۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس قوم میں سیاسی تقسیم کی جڑیں کافی گہری ہو گئی ہیں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت ان کی قیادت نے محاذ آرائی کو بنیاد بنا کر جو سیاسی ایجنڈا قومی سیاست پر غالب کیا ہے اس نے بھی سیاسی تقسیم کو بدنما بنا دیا ہے۔ ہم اختلاف رائے یا دوسری سوچ یا نقطہ نظر کو تسلیم کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی دشمنی، شدت پسندی، انتہا پسندی اور ملک دشمنی کی بنیاد پر اپنی رائے کو قائم بھی کرتے ہیں اور اسے اپنے سیاسی مقصد کے لیے بطور ہتھیار پھیلاتے بھی ہیں۔

سیاسی قیادت اپنے سیاسی مقصد کے حصول کے لیے ریاستی اداروں کو بھی اپنی حمایت اور مخالفت کے طور پر استعمال کر کے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت کو پیدا کرتے ہیں۔ یہ کھیل اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب ہمارے سامنے ریاستی یا ملکی مفاد کے مقابلے میں اپنا ذاتی یا جماعتی مفاد اہم ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کی سطح پر کوئی ایسی تربیت کا نظام نہ اپنے لیے اور نہ ہی کارکنوں کے لیے قائم کیا ہوتا ہے جہاں ان میں ایک ذمہ دار سیاسی کارکن کی بنیاد پر تربیت دی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی قیادتیں اپنے ہی سیاسی کارکنوں میں جذباتیت کی بنیاد پر ایسی سوچ اور فکر کو پیدا کرتی ہیں جو ان کے ذاتی کھیل کو فائدہ پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔

قوم کو تقسیم کرنے کا سوشل میڈیا کی مدد سے جاری کھیل میں سیاسی کارکن ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے مختلف طبقات اور بڑے بڑے سرکردہ نام بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس بڑے چیلنج یا خطرہ سے نمٹنے کے لیے فوج یا اسٹیبلیشمنٹ تن تنہا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے انتظامی بنیاد کے ساتھ ساتھ علمی اور فکری محاذ پر بھی ایک ٹھوس جامع حکمت عملی درکار ہے۔ بیس نکات پر مبنی نیشنل ایکشن پلان، پیغام پاکستان، دختران پاکستان سمیت نئی نیشنل سیکورٹی پالیسی جیسے اہم دستاویزات ہماری مجموعی قومی پالیسی کے ساتھ جڑی ہونی چاہیے۔

بالخصوص تعلیمی نظام وہ رسمی ہو یا غیر رسمی یا رسمی ادارے ہوں یا مدارس کا نظام سمیت میڈیا جس میں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے نظام میں اس کی سیاسی سطح پر جڑت کو یقینی بنانا ہو گا۔ علمی و فکری ماہرین، تعلیمی ادارے، نصاب، استاد کی تربیت اور بالخصوص رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا ادارہ کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس محاذ پر ایک بڑے سپاہی کے طور پر کام کریں۔ نئی نسل کو طاقت سے دبانے کی بجائے ان کی تربیت کو اس انداز سے کیا جائے کہ وہ خود آگے بڑھ کر اس انتہا پسندی، شدت پسندی اور اداروں کی تضحیک کے خلاف ایک بڑے سفیر کے طور پر خود کو پیش کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments