عمران خان: ایدھی تا سلطان راہی کا سفر


سیاست میں بدزبان آدمی ریاست مدینہ بنانے کا دعویدار ہو کر بھی رسوا ہو سکتا ہے اور خوش گفتار آدمی مسٹر ٹین پرسنٹ سے بدنامی پا کر بھی فاتح قرار پا سکتا ہے۔ اپنی زبان اور اپنے الفاظ کو قابو میں نہ رکھ پانے والا اپنا آپ دوسروں کے رحم و کرم پر ڈال دیتا ہے۔

عمران خان کی ذات میں ان گنت خوبیاں موجود ہیں اور وہ کرہ ارض پر موجود بہت کم شخصیات میں سے ہیں جنہیں دنیا نے بے انتہا محبت سے نوازا۔ ان کی ایک جھلک دیکھنے کو لاکھوں لوگ تڑپتے رہے ہیں اور ان کی تقریر یا تکریر سننے کے لئے لاکھوں سماعتیں بے برقرار رہتی تھیں۔ مجھ سمیت ایک پوری نسل ان کے سحر میں ڈوبی فریفتگی تک ان سے جڑی رہی ہے۔

مگر خود تمام عمر محبتیں اور خوشامدیں بٹورنے والے عمران خان نے بدلے میں اپنے جانثار نوجوانوں کو محبت، مروت، اور خوش اخلاقی سے پیش آنے کا کون سا عملی سبق دیا ہے؟ کیا انہوں نے پوری ایک باشعور نسل میں نفرت، بدکلامی، بدتمیزی اور تشدد پسند ہونے کا زہر نہیں بھرا؟ اگر نہیں تو آپ ان کے وزرا اور معصوم ذہن فالوورز کی گزشتہ کئی سالوں کی پوسٹس، ٹویٹس، کمنٹس، اور مباحثے دیکھ سکتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب اثاثہ وہ خام مال ہے جس پر ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی جانی تھی۔ اوئے، ابے، چور، ڈیزل، فضلو، نوازو، نانی، بلیک میلر، جھوٹے، جعلی، خائن، کی یہ مالا کئی سال چپنے اور اس کے ورد کا درس دیتے عمران خان اسی مالا کے تمام کرداروں کو قوم پر دوبارہ مسلط کر گئے ہیں جن کی مخالفت کے لئے انہوں نے تمام اخلاقیات، معاشرتی اصول، سیاسی روایات پامال کیں۔

اور جاتے جاتے نوجوان نسل کو یہاں تک مایوس کر گئے ہیں کہ اب وہ ملک کی عدالتوں، اداروں، سیاسی روایات حتیٰ کہ آئین پاکستان تک کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور شاید کسی حد تک بجا اگل رہے ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک نسل کے خواب توڑنے، مایوس کرنے، عدم برداشت پیدا کرنے اور رومانس توڑنے پر ان کا محاسبہ ہو مگر کیا کریں کہ وہ خود بھی اس معاملے میں اتنے ہی مظلوم اور معصوم ہیں جتنے ان کے فالوورز۔ محاسبہ تو ان قوتوں کا ہونا چاہیے جنہوں نے ہمارے عالمگیر ایدھی صفت قومی ہیرو کو سیاست کا سلطان راہی بنا کر پاکستان سمیت پوری دنیا میں ان کو متنازع بنا دیا اور بالآخر ان کے پاؤں تلے سے سیاسی زمین کھینچنے کے لئے بھی اپنا کردار ادا کیا۔

خان صاحب کی سیاست میں بہت ساری خامیاں ہوں گی مگر میری نظر میں ان کے تمام مسائل اور تلخ انجام کے پیچھے دیگر کئی ذیلی عوامل کے ساتھ سب سے بڑا عامل ان کی اپنی اور ان کے وزراء کی غیر ذمہ دارانہ زبان اور بے جا طاقت و اختیار کا استعمال ہے جس نے ان کے تمام سیاسی و غیرسیاسی حریفوں کو اکٹھا کرنے کے ساتھ عوامی اور بین الاقوامی ردعمل کو بھی ان کے خلاف یکجا کر دیا اور اسی عمل کے نادانستہ ردعمل کے کچھ نشان بقول وجاہت مسعود ان کے چہرے پر بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے شاید وہ چند دن کے لئے عوامی منظر نامہ پر نمودار نہ ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments