’’آخری‘‘ اُمّید کا قتل


جانتے ہو یہ دیوانگی، جنون، سحر زدگی کیوں ہے؟ کیوں کہ ہجوم کو ایک جاں لیوا امید دلائی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ یہ ان کی آخری امید ہے۔ اس وقت بھی کچھ لوگ منع کر رہے تھے کہ ایسا مت کرو، ”آخری“ امید کبھی مت دلاؤ کیونکہ امید اگر آخری ہو تو اس کے بعد صرف مایوسی بچتی ہے۔ یہ آخری کا لفظ نکال دو مگر اس وقت یہی تو وہ جادوئی لفظ تھا جس سے کام نکل سکتا تھا لہٰذا کام نکالا گیا، لفظ نہیں نکالا گیا۔ اس وقت بھی کچھ پاگل سر پیٹ رہے تھے کہ یہ تباہی کا نسخہ ہے، اس جتھے کو دیکھو، اس کی باتیں سنو، یہ کچھ نہیں کریں گے، یہ کچھ نہیں کر سکتے۔

ان میں کچھ وہ ہیں جو جانتے نہیں اور باقی مانتے نہیں۔ یہ تو وہی ہیں جن سے تم منہ موڑ رہے ہو، پھر منہ موڑ کر انھیں کی طرف جا رہے ہو۔ مگر یہاں سنتا کون ہے۔ کتنا کہا تھا کہ عقل استعمال کرو، سوچو، دیکھو، یہ جھوٹ بول رہے ہیں، یہ تو خود استحصال کے کاندھوں پہ سوار ہیں، یہ ناکام ہوں گے۔ کہا تھا کہ جب یہ ناکام ہوں گے، اور یقیناً ہوں گے، تو کون سا لفظ ایجاد کرو گے۔ جب یہ ناکام ہوں گے تو پھر تم کبھی امید نہیں باندھ سکو گے۔ ان کے بعد کوئی سچی امید لے کر آیا تو تم اس کو نہ مانو گے نہ پہچانو گے۔ مگر سنتا کون ہے۔ نہ سننا تھا، نہ سنا۔

اب جو یہ جنون ہے، سحر زدہ لوگوں کا ہجوم ہے جن کے کان، بند، آنکھیں بند، دماغ بند، معلوم ہے یہ کیوں پاگل ہو رہے ہیں؟ اس لیے کہ ان کی آخری امید مر گئی ہے اور انھیں لگتا ہے کہ اس کی موت خود ان کی اپنی موت ہوگی۔ اب ان کے پاس صرف آخری امید کی لاش ہے جسے وہ دفنانے نہیں دے رہے ہیں۔ وہ اس امید کی لاش پر پاگلوں کی طرح چیخ رہے ہیں کہ یہ زندہ ہے، اسے کسی نے چھوا تو وہ اسے مار ڈالیں گے۔ یہ ان کی آخری امید کی مسخ شدہ لاش ہے اور مسخ شدہ لاش کو دیکھ کر اس کے پیاروں کے دل پر معلوم ہے کیا گزرتی ہے؟

یہی گزرتی ہے۔ جسے حبس بے جا میں رکھا گیا ہو، اذیتیں دے کر مارا گیا ہو، جسم کے نازک حصوں کو داغا گیا ہو اور مثلہ کیا گیا ہو۔ اس کا بگڑا ہوا چہرہ، ٹوٹے اعضا اور زخموں سے چور بدن دیکھا نہیں جاتا اور اس کی موت کو قبول کرنے کو نہ دل تیار ہوتا ہے، نہ دماغ۔ وہ پہلے لاش لانے والوں کو یقین دلاتے ہیں کہ انھیں غلط فہمی ہوئی ہے، یہ کوئی اور ہو گا، یہ ان کا پیارا نہیں ہو سکتا۔ وہ یہ کیسے مان لیں کہ انھوں نے اسے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا کیونکہ انھیں تو اس کے اغوا کا بھی یقین نہیں تھا۔

وہ صدمے کی حالت میں ہیں، ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں اور آپے سے باہر ہیں۔ وہ سنتے تو ہیں مگر ماننا نہیں چاہتے۔ ان کے بغیر جنازہ بھی ہو گا اور تدفین بھی اور پھر وہ ہوش میں آ کر کہیں گے کہ انھیں کسی نے بتایا کیوں نہیں حالانکہ انھیں سب یاد ہو گا۔ ان کی آخری امید مر چکی ہے مگر ان کو لگتا ہے کہ یہ لاش پھر اٹھ کھڑی ہو گی۔

کہا تھا نا کہ یہ ایک لفظ ”آخری“ نکال دو، مگر اس کے بغیر تمھارا جادو جو نہیں چلتا۔ بس دعا کرو کہ تعفن اٹھنے سے پہلے یہ لاش دفنا دی جائے اور زندگی قبرستان کے صدر دروازے سے باہر کا رستہ دیکھ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments