کپتان کے انداز حکومت کا پوسٹ مارٹم۔ آخری حصہ


اپنی محدود استعداد و صلاحیت اور طاقت کو قبول نہ کرنا تکبر کی نشانی ہے۔ عمران خان کو یہ معلوم تھا کہ بڑے بڑے قدیم کرپٹ سیا ست دانوں کو کیفر کردار تک پہچانے کے لیے جوڈیشل سسٹم میں تبدیلیاں کرنی پڑیں گی، سوراخوں اور چور دروازوں کو بند کرنا پڑے گا اور یہ سب کرنے کے لیے موزوں حکمت عملی، قابل ٹیم اور متعلقہ اختیارات درکار ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں عمران خان نے احتساب کے عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کون سی منصوبہ بندی و حکمت عملی تیار کی تھی؟

کون سی عظیم ٹیم عمران خان کے زیر سایہ تیار ہوئی تھی؟ عمران خان کی منصوبہ بندی و حکمت عملی ”میں نہیں چھوڑوں گا“ تھی اور اس کی ٹیم پر تبصرہ کرنے کی سردست ضرورت نہیں ہے۔ اب جہاں تک اختیارات کی بات رہی تو خان کے مداح شور مچاتے ہیں کہ ہمارے کپتان کو لنگڑا لولا اقتدار اور آدھی ادھوری طاقت دی گئی اور اس وجہ سے عمران خان کرامات کر کے نہ دیکھا سکا۔ درحقیقت عمران خان پاکستان کا مضبوط ترین وزیراعظم تھا۔ ”موکلات“ نے اس وزیراعظم کی آسانیوں کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔

آدھی اپوزیشن جیلوں میں چلی گئی، سڑکیں ٹھنڈی پڑ گئیں، میڈیا کو قابو میں رکھا گیا۔ صاحب بہادر کے خلاف جب پہلی دفعہ عدم اعتماد کی تحریک آئی تو اسے منیج کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ تاریخ میں کسی وزیراعظم کو اتنی سہولتیں نہیں دی گئیں اور اس سب کے عوض عمران خان نے کارکردگی دکھانی تھی۔ اگر عمران خان اپنے مشیر ہی بہتر رکھ لیتا اور صرف کارکردگی کو ٹارگٹ بناتا تو لوگ مریم نواز کا نام تک بھول جاتے، شہباز و نواز کا کہیں تذکرہ نہ ہوتا اور پیپلز پارٹی مرحومہ ہی رہتی۔

کپتانی حکومت نے جو فلاحی کام انتہائی غریب لوگوں کے لیے شروع کیے وہ قابل ستائش ہے لیکن عوامی فلاحی اقدامات کی بقا مضبوط اور ترقی پر گامزن معیشت کے ساتھ مشروط ہوتی ہے، اگر معیشت ہی ڈوب جائے تو پھر فلاحی منصوبے بھی ڈوب جاتے ہیں۔ معیشت کی مستقل بنیادوں پر بحالی اور بہتری کے بغیر چلنے والے فلاحی منصوبے کچھ عرصے بعد کھنڈرات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ سابقہ حکومتوں نے بھی سستی شہرت کے لیے ایسے منصوبے شروع کیے جن کا آج نام و نشان نہیں ملتا۔

اس کی ایک مثال نون لیگی حکومت کی سستا تنور سکیم تھی جہاں دس روپے میں غریب آدمی کھانا کھا سکتا تھا۔ عمران خان کی حکومت کے پاس کوئی معاشی پلان نہیں تھا صرف تقریریں، بلند و بانگ وعدے تھے۔ عمران خان افسانوں اور کوہ قافی قصوں کا ہیرو تھا جو حقیقتوں میں ولن ثابت ہوا۔ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کی بجائے خودکشی کرنے کو ترجیح دینا کیسا غیرت مندانہ بیان لگتا ہے لیکن جب لفاظی و چرب زبانی حقیقت سے ٹکرائی تو یہی عمرانی حکومت گھٹنوں کے بل آئی ایم ایف کے پروگرام میں گئی۔

اگر عمران خان کے غیر حقیقی، بے منطق اور لچھے دار وعدوں کو الیکشن جیتنے کا حربہ مان لیا جائے تو باقی سیاستدان بھی تو یہی کرتے ہیں، وہ جھانسہ دیتے ہیں، عوام کو سہانے خواب دیکھا کر بے وقوف بناتے ہیں اور جب ڈیلیور نہیں کر پاتے تو ملبا دوسروں پر ڈال کر چلتے بنتے ہیں۔ کپتان کے مداح اس نکتہ پر اپنی سب سے پسندیدہ دلیل پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا کپتان مالی لحاظ سے دوسرے سیاست دانوں کی طرح بد دیانت و کرپٹ نہیں ہے۔

یہاں پر میں کپتان کے مداحوں سے یہ سوال پوچھتا ہوں کہ کیا انسانوں میں مالی کرپشن کرنا ہی واحد برائی دریافت ہوئی ہے؟ کیا ایک دیانت دار آدمی متکبر، ضدی احمق اور اقتدار کا بھوکا نہیں ہو سکتا ؟ لذت صرف پیسوں اور شاندار پرتعیش لائف سٹائل میں نہیں ہوتی، اقتدار و طاقت میں بھی لذت ہوتی ہے اور اقتدار کا بھوکا ملک کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہو تا ہے۔ ایک متکبر سیاست دان اپنی ذات کو ریاست کے لیے ناگزیر سمجھتا ہے، وہ ملکی سلامتی اور استحکام کو اپنی ذات کے ساتھ جوڑ کر پیش کرتا ہے۔ وہ مجمع میں کھڑا اعلان کرتا ہے کہ میرے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔

اگر عمران خان اقتدار میں اقتدار کی لذت کے لیے نہیں آیا تھا تو پھر اتنی بھاری مصحلتوں اور سمجھوتوں کی بوری کیوں لاد رکھی تھی؟ اب خان کے قدردان بھڑک کر جواب دیں گے کہ ہمارے کپتان نے یہ سب پاکستان کے مفاد میں کیا۔ جناب! اگر عثمان بزدار کو پنجاب پر مسلط کرنا اور پھر اپنی کرسی بچانے کے لیے ق لیگ کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہوئے اپنے وسیم اختر پلس کو قربان کر دینا پاکستان کے مفاد میں تھا تو پھر اقتدار کی بھوک کی تعریف فرما دیں؟

عمران خان نے عدم اعتماد کی تحریک کو رکوانے کے لیے جو غیر آئینی ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں کیا وہ سب با اصول سیاست دان کا طرزعمل کہلا سکتا ہے؟ اور جاتے جاتے خان نے جو امریکی سازش کا کارڈ کھیلا ہے وہ پاکستان کے مفاد میں ہے؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو اے! عمران خان کے متوالو! آپ کو یہ سمجھ و فہم و بصیرت و گیان و علم و آگہی و شعور مبارک ہو۔ ہم جاہل بھلے ہیں۔ (ختم شد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments