تین فرشتے اور شہد کی شریر مکھیاں


تب اسلام آباد کا ایچ 9 سیکٹر کافی حد تک غیر آباد تھا اور یہ لوکیشن بھی جہاں ہم موجود تھے، ایسی تھی جہاں عام پبلک ٹرانسپورٹ کا گزر نہیں ہوتا تھا اور ایک مخصوص وقت کے بعد پرائیویٹ گاڑیاں بھی خال خال دکھائی دیتی تھیں۔ اس دن بھی سماں کچھ اسی طرح کا تھا اور سڑکوں کی ویرانی اس لئے اور زیادہ تھی کہ رمضان کے مختصر دفتری اوقات نے بہت پہلے ہی سے لوگوں کا اس ویرانے سے گزرنا، معمول سے بھی کم کر دیا تھا۔

کراچی کے مہمان کے ساتھ یہ طے پایا کہ منزل تک پیدل چلا جائے اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، گپ شپ بھی چلتی رہے۔ ابھی منزل کی طرف چلے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی، لگا جیسے ایک شہد کی مکھی سامنے بھنبھناتے ہوئے گزری۔ اسے فطری طور پر معمول کی بات سمجھتے ہوئے ہاتھوں سے دور بھگانے کے کوشش ہوئی۔ کچھ دیر بعد ، پھر ایک دو اور کے گزرنے کا احساس ہوا اور اسے بھی ہاتھوں کی جنبش سے دور رہنے کو کہا گیا۔ اور پھر یکایک ایک سے زیادہ مکھیوں کی بھنبھناہٹ سنائی دی، تب ہمیں احساس ہوا کہ یہ تو مکھیوں کا غول ہے۔ اس ناگہانی یلغار نے ہم دونوں کو فوری طور پر غیر محسوس طور پر ہنگامی فیصلوں کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیا۔

میری کوشش تھی کہ سڑک کے پار، سامنے کچی آبادی تک رسائی کی جائے کہ کوئی بھولا بھٹکا دکھائی دے جائے مگر یہ کوشش مکھیوں کی بڑھتی تعداد اور ان کے شور کی وجہ سے ناکام ثابت ہوئی۔ اس لمحے ذہن نے مشورہ دیا کہ سڑک کے کنارے بیٹھ کر ہی ان مکھیوں سے نجات کا پہلا مرحلہ طے کیا جائے یعنی ہائی نیک سویٹر اتار دی جائے اور اسی میں مقدور بھر مکھیوں کو لپیٹ لیا جائے۔ اس کوشش میں شاید کچھ مکھیاں تو قابو میں آ سکی ہوں مگر ان کی بڑھتی تعداد جوں کی توں تھی۔

ویرانے اور ویرانے کی خاموشی اکسا رہی تھی کہ فیصلے میں تاخیر کسی بھی طرح کے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ لہٰذا پھر طے ہوا کہ کچی آبادی کی طرف بڑھنے کی ایک اور کوشش کی جائے۔ شاید کوئی انسانی مدد مل جائے۔ یہ کوشش بھی بار اور نہ ہوئی کہ مکھیوں نے بھی تعاقب کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ پورا غول بھی ساتھ چل پڑا اور مجبوراً ”پھر ہتھیار ڈالنے پڑے۔

یہ وہ صورت حال تھی جہاں یہ ہولناک تصور، آہستہ آہستہ ذہن میں جگہ بنانے لگا کہ اگر ان مکھیوں کے کاٹے سے اس اجاڑ جگہ، بے ہوشی طاری ہو گئی تو کیا بنے گا۔ اس خیال نے یہ حوصلہ دیا کہ تمام تر تکلفات چھوڑ کر مدد کے لئے صدا لگائی جائے۔ نسخہ کسی حد تک کارگر ہوا اور ایک مہربان شخص نے خاصے فاصلے پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور تھوڑی دیر بعد ایک گرم چادر اوپر آن گری جو اس نے نشانہ لے کر ہدف کی طرف پھینکی تھی۔ ساتھ ہی اس مہربان کی آواز آئی کہ ”مکھیاں بہت زیادہ ہیں، کلمہ پڑھ لو“ ۔ ساتھ ہی یہ آوار بھی آئی کہ ”میں کہیں سے ماچس لے کر آتا ہوں“ ۔

یہ وہ وقفہ تھا جس میں چادر ڈھانپنے کے سبب خود کو مکھیوں سے مقابلتا ”زیادہ محفوظ ہونے کا احساس ہو رہا تھا، گو، مکھیوں کا شور اسی طاقت سے جاری تھا اور وہ سر پر اسی طرح منڈلا رہی تھیں۔

کچھ ہی دیر بعد وہ نادیدہ مہربان، جلے ہوئے جھاڑ پھونس کی مہک کے ساتھ، قدرے دور سے آتا دکھائی دیا، اس نے اپنے پشتو لہجے میں خبردار کیا کہ ”مکھیاں اب بھی بہت زیادہ ہیں۔ یہ مجھے بھی کہیں کاٹ نہ لیں“ ۔ جھاڑ پھونس کے دھویں سے مکھیاں کسی قدر تتر بتر ہونے لگیں۔ مگر اس دوران ایک نئے احساس نے ایک اور پریشانی کھڑی دی۔ ایسا لگا جیسے دونوں کانوں میں بھی مکھیاں چلی گئی ہیں۔ کانوں میں ان کا شور اور اس کی گونج ایسی تھی جیسے ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ہو۔

ادھر خان صاحب جھاڑ پھونس تھامے، آہستہ آہستہ سڑک تک لے آئے اور اب دعا تھی ایک معجزے کی، کہ اس ویرانے میں کوئی فرشتہ اس لمحے ٹرانسپورٹ کے ساتھ کہیں سے آ جائے۔ معجزہ ہوا اور ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان، خان صاحب کے اشارے پر رک بھی گیا۔ روداد سن کر مدد کے لئے فوراً آمادگی ظاہر کی مگر موٹر سائیکل پر بیٹھنے سے پہلے اس کا اصرار تھا کہ یہ چادر اتار دی جائے کہ اس میں ابھی مکھیاں موجود ہیں جو اس کے لئے بھی پریشانی کا سبب بن سکتی ہیں۔ وہ چادر پر جگہ جگہ موجود ان بچی کھچی مکھیوں سے واقعتاً خوف زدہ دکھائی دیتا تھا اس لئے اس کا یہ احتجاج اتنا غلط نہ تھا مگر وہ فرشتہ زاد بھی، تھوڑی ہی دیر میں اس دلیل پر ساری شرائط سے تائب ہوا کہ کانوں میں موجود مکھیاں سکون نہیں لینے دے رہیں۔

موٹر سائیکل کا یہ سفر نہ جانے کیسے اور کس تیزی سے طے ہوا اور مکھیوں کے جمگھٹے سے نکل کر، گھر میں قائم ایک کلینک کے آگے پڑاؤ ڈالا گیا۔ بے تابی سے کال بیل بار بار دبانے پر، ڈاکٹر صاحب کو، رمضان کے مخصوص ماحول میں، اپنے آرام کے اوقات چھوڑ کر متوجہ ہونا پڑا۔ انھیں مکھیوں کے بھرپور حملے پر، شاید چادر اور چہرے کی حالت دیکھتے ہوئے، فوری یقین آ گیا اور ہر طرح کی مدد اور حوصلہ افزائی کے لئے تیار نظر آئے مگر وہ یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ کانوں میں مکھیاں جا سکتی ہیں۔

انھوں نے اسے محض پریشانی کا نتیجہ اور وہم قرار دیا اور یہ دلیل بھی دی کہ میں نے آج تک اپنی ساری زندگی میں ایسا نہیں سنا، لیکن یہ انوکھی بات بھی کچھ ہی دیر میں اس وقت ظاہر ہو گئی جب انھوں نے اس کام لئے ایک پیشہ وارانہ ترکیب استعمال میں لائی۔ انھوں نے کان کے سامنے لیمپ آن کیا اور ایک چھوٹی سی چمٹی ہاتھوں میں تھام کر اندر داخل کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مکھیاں ڈاکٹر صاحب نے یکے بعد دیگرے دونوں کانوں سے نکال باہر پھینکیں۔ اس عمل سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ شاید مکھیاں خود بھی اس قید سے باہر آنے کو بے تاب تھیں اور یوں ان کا یہ شور، ادھر بھی اذیت جاں بنا ہوا تھا، تو ادھر، خود بھی ان کی حالت کچھ اس سے مختلف نہ تھی۔

اس ناقابل یقین موجودگی ( اور انکشاف پر ) پر ڈاکٹر صاحب کی حیرانی دیدنی تھی۔ یہیں نہیں، حفاظتی انجیکشن لگاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب اس گمبھیر صورت حال میں، بے ہوشی سے دوچار نہ ہونے پر مسلسل حیرانی کا اظہار کرتے رہے۔

موڑ سائیکل سوار جس نے اس سارے عمل میں محسن کا کردار ادا کیا، اتفاق دیکھیے کہ اس نے اپنا نام بھی محسن بتایا اور اپنے کردار میں اس وقت، اور عظمت پرو لی جب اس نے یہ بتایا کہ چہرے پر موجود مکھیوں کے کاٹے گئے یہ ان گنت ڈنک، شاید زہریلے یا کسی طور نقصان دہ نہ ہوں مگر یہ اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ چہرے کو داغدار کر سکتے ہیں، اور پھر ڈاکٹر صاحب سے ان کی وہ کارآمد چمٹی لے کر ممکنہ حد تک جتنے ڈنک اس دوران نکالے جا سکتے تھے، وہ نہایت خوش دلی، توجہ اور یکسوئی سے نکال ڈالے۔

اس کہانی کے پہلے ہیرو جن کی دلیرانہ مدد اور پھر قربانی، جو انھوں نے اپنی چادر نثار کر کے دی، کہاں بھولی جا سکتی تھی مگر صحت یابی کے بعد ، باوجود تلاش کے، یہ ممکن نہ ہوا کہ اس ان دیکھے مہربان چہرے کو دیکھا جا سکتا اور یوں وہ چادر، محبت اور انسانیت کی نشانی کے طور پر برسوں امانتا ”ادھر ہی محفوظ رہی۔

اس ناقابل فراموش تجربے کے حوالے سے، بعد ازاں ایک ہمدرد ساتھی، کسی باخبر سے، دور کی یہ کوڑی لے آئے کہ جب شہد کی مکھیاں اظہار محبت میں اس طرح آپ کے جسم پر پے در پے ڈنک ثبت کریں اور وہ آپ کے، اتنے قریب آجائیں، تو درد دل، خود بہ خود آپ سے دور ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments