لیاقت، نہرو معاہدہ: جب پاکستان اور انڈیا نے اقلیتوں کے تحفظ اور پراپیگینڈا سے بچنے کا عہد کیا

وقار مصطفیٰ - صحافی و محقق، لاہور


لیاقت۔نہرو معاہدہ:
’برطانوی ہندوستان کی سنہ 1947 میں تقسیم سے پہلے 30 فیصد سے زائد مسلم آبادی والے مغربی بنگال کا مرکزی شہر کلکتہ (کولکتہ) اتنا ہی مسلمانوں کا شہر تھا جتنا یہ ہندووں کا تھا۔‘

انویشا سین گپتا اس شہر میں تاریخ پڑھاتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ بنگال کی مسلم لیگ کا موقف تھا کہ کلکتہ کی شان مشرقی بنگال کی پیداوار پٹ سن کی پھلتی پھولتی تجارت کی وجہ سے ہے۔ اس لیے اس نے بنگال باؤنڈری کمیشن سے مطالبہ کیا کہ کلکتہ کو مشرقی پاکستان میں شامل کیا جائے۔

اگر ایسا ناممکن ہو تو مسلم لیگ کی تجویز تھی کہ کلکتہ کو مشرقی اور مغربی بنگال کا مشترکہ شہر قرار دے دیا جائے یعنی پاکستان اور انڈیا کا مشترکہ شہر۔

اس تجویز کی ہندو مہاسبھا اور کانگریس نے شدید مخالفت کی۔ ان کا موقف تھا کہ کلکتہ کے باشندے بنیادی طور پر غیر مسلم ہیں جو زیادہ تر رہائشی عمارتوں کے مالک ہیں، میونسپلٹی اور دیگر ٹیکسوں کا بڑا حصہ ادا کرتے ہیں اور شہر کی بڑی صنعتوں اور تعلیمی اداروں کے مالک بھی ہیں۔

تقسیم سے چند روز قبل مسلم لیگ کا ایک حصہ خواجہ ناظم الدین کی قیادت میں کلکتہ پر اپنے دعوے سے ہٹ گیا اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے پر قائل کرنا شروع کر دیا۔

باؤنڈری کمیشن نے بھی سوچا کہ کلکتہ کو مغربی بنگال میں شامل کیا جائے اور یوں تقسیم کے ساتھ کلکتہ انڈیا کا شہر بن گیا، جس نے شہر کے مسلمانوں کو ایک غیر محفوظ مذہبی اقلیت میں تبدیل کر دیا۔

ماؤنٹ بیٹن 14 اگست 1947 کو محمد علی جناح کی تقریر سنتے ہوئے

ماؤنٹ بیٹن 14 اگست 1947 کو محمد علی جناح کی تقریر سنتے ہوئے

کلکتہ آگ کی لپیٹ میں

15 اگست 1947 کو کلکتہ ایسا پرامن اور پرجوش تھا کہ غیر حقیقی سا لگتا تھا۔ دی گارڈین کے خصوصی نامہ نگار نے کلکتہ سے لکھا کہ ’ہندو اور مسلمان آزادانہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر آج رات کلکتہ میں آزادی کا جشن منا رہے ہیں‘ تاہم یہ خوشگوار ماحول بہت تھوڑے دن رہا اور چند ہفتوں کے اندر شہر آگ کی لپیٹ میں آگیا۔

نومبر سنہ 1948 میں مانیکتلہ میں محرم کے جلوس پر اینٹوں اور تیزاب سے حملہ کیا گیا۔ انویشا سین گپتا کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ مشرقی بنگالی مہاجروں نے جلوس پر حملہ کر کے اپنا غصہ نکالا۔

کلکتہ نے سنہ 1950 کے ابتدائی مہینوں میں ایک بار پھر وحشیانہ فسادات کا مشاہدہ کیا۔ سنہ 1949 کے اواخر سے مشرقی پاکستان میں فسادات شہر کے اخبارات کی سرخیاں بن رہے تھے۔ مغربی بنگال اور آسام آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا۔

وہ اپنے ساتھ تشدد کے ہولناک واقعات کی کہانیاں لے کر آئے جو افواہوں اور حقیقت کو ایک ساتھ باندھ کر بنائے گئے تھے۔ فروری کے اوائل تک مشرقی اور مغربی بنگال دونوں میں صورتحال مزید خراب ہو گئی۔

’دائیں بازو کی تنظیموں اور ان کے ہمدردوں نے منظم طریقے سے کلکتہ کے مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ مغربی بنگال قانون ساز اسمبلی کے ارکان شیخ محمد رفیق اور حسن آرا بیگم کی وزیر اعلیٰ سے مسلمان شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی اپیلوں کے باوجود کلکتہ میں ایک بھرپور ہنگامہ برپا ہو گیا۔‘

’تشدد سب سے پہلے مانیکتلہ (شمالی کلکتہ) کے علاقے میں شروع ہوا۔ جلد ہی یہ ان جگہوں پر پھیل گیا جو بیلیا گھاٹا، ایمہرسٹ سٹریٹ، اینٹلی اور ٹانگرا پولیس سٹیشنوں کے دائرہ اختیار میں تھے۔ چھرا گھونپنے، لوٹ مار کرنے اور آتش زنی کی متعدد مثالیں ہیں جن سے منظم طریقے سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اشتعال انگیز کتابچے اور ہینڈ بل تقسیم کیے گئے، شہر کے بعض حصوں میں ’خون کے بدلے خون‘ کا مطالبہ کرنے والے پوسٹر لگائے گئے۔ پولیس متعدد مواقع پر غیر مؤثر ثابت ہوئی۔‘

’این سی چٹرجی جیسے مہاسبھا لیڈروں کی اشتعال انگیز تقریروں نے حالات کو مزید خراب کر دیا۔ انھوں نے آبادی کے فوری تبادلے کا مطالبہ کیا یعنی مغربی بنگال کی مسلم آبادی کا مشرقی بنگال کے ہندوؤں کے ساتھ تبادلہ۔ اس مطالبے کا مطلب یہ تھا کہ کلکتہ یا مغربی بنگال میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں، چاہے وہ یہاں رہنا چاہتے ہوں یا مشرقی بنگال جانا چاہتے ہوں۔‘

’مشرقی بنگال سے ہندو پناہ گزینوں کا ایک بڑا حصہ مسلمانوں کی متروکہ جائیدادوں پر بیٹھ گیا۔ بعض اوقات انھوں نے مہاسبھا اور دیگر دائیں بازو کی جماعتوں/تنظیموں کی مدد سے مساجد، قبرستانوں، دیگر وقف املاک اور مکانات پر زبردستی قبضہ کر لیا جہاں مسلم خاندان رہتے تھے۔‘

اس طرح اقلیتوں کو بے گھر کر دیا گیا۔ مثال کے طور پر کلکتہ کے راجہ دنندر سٹریٹ میں واقع ایک رضاکارانہ تنظیم نے 229 مکانات میں تقریباً 650 پناہ گزین خاندانوں کی بحالی کا دعویٰ کیا جو لال باغ کے علاقے میں بظاہر خالی پڑے تھے۔ ان 229 مکانات کے علاوہ کئی ’جلے ہوئے گھر‘ تھے جو انھوں نے پناہ گزین خاندانوں کو بھی الاٹ کیے۔

’لال باگن کے علاقے میں مانیکتلہ، ایمہرسٹ سٹریٹ اور بیڈون سٹریٹ شامل ہیں یعنی وہ علاقے جو سنہ 1950 کے فسادات میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ یہ واضح ہے کہ خالی اور جلائے گئے مکانات میں فروری سنہ 1950 سے پہلے مسلمان مقیم تھے۔‘

تباہی تھی، خون تھا اور دیواروں پر گولیوں کے نشان

جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے منسلک سبھاسری گھوش لکھتی ہیں کہ کلکتہ اور اس کے مضافات اور جڑواں شہر ہاوڑا میں فسادات کی تفصیلات ممکن نہیں کیوںکہ حکومت کی جانب سے ’ایسے واقعات کی اشاعت پر پابندی تھی جو لوگوں کو مشتعل کر سکتے ہوں۔‘

صرف حکومتی بریفنگز ہی رپورٹ ہو سکتی تھیں اور غیرجانبدار تحقیقات کا امکان نہیں تھا۔ جو بن پڑا وہ یہ کہ 8 اور 9 فروری 1950 کو ’بعض علاقوں میں نکالے گئے جلوسوں میں لوگوں کو تشدد پر اکسایا گیا۔‘ بعد میں آنے والی حکومتی رپورٹس سے ظاہر ہے کہ کرفیو جیسے اقدامات تناؤ کو کم کرنے کے لیے کافی نہ تھے۔

’شہر کا شمالی حصہ 9-10 فروری کی درمیانی رات فسادات کی لپیٹ میں تھا جس میں 24 افراد زخمی ہوئے جن میں سے دو بعد میں دم توڑ گئے۔ کشیدگی کم نہیں ہوئی، 56 افراد زخمی ہوگئے، ایک کو مہلک زخم آئے۔ ویران دکانوں اور کچی آبادیوں کو آگ لگا دی گئی۔ فسادات کے علاقے بڑھتے گئے اوران کے باعث کرفیو میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔‘

’ایک مسجد میں دو بم پائے جانے کے بعد قریبی بستی کے مکین علاقہ چھوڑ گئے۔ وہ واپس آئے تو حملہ آور منتظر تھے۔ بستی میں دو روز تک کوئی نہ جاسکا، تباہی تھی، خون اور دیواروں پر گولیوں کے نشان تھے۔‘

ہاوڑا میں بھی فروری اور مارچ میں ہونے والے فسادات میں کئی مسلمان مارے گئے۔ ایک برطانوی صحافی تایا زنکن نے یوں لکھا کہ ’ لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔۔۔ ان لاشوں پر زخم شدید تھے اور زمین پر خون کی پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ جوان اور بوڑھی عورتیں، بچے، مرد، شیر خوار سب ایک ساتھ۔۔۔تین سو فٹ لمبی سڑک پر 342 لاشوں میں صرف بیس زندہ تھے۔‘

فوج نے انتظام سنبھالا تو کچھ روز کے وقفہ کے بعد پھر دو گاؤں ایسے تھے جہاں آتشزنی کے واقعات ہوئے۔

ڈھاکہ سمیت مشرقی بنگال میں فسادات

ادھر مشرقی بنگال میں 28 فیصد غیر مسلم آبادی تھی، جس میں اکثریت بنگالی ہندوؤں کی تھی۔ مغربی بنگال کے چیف سیکرٹری سوکمار سین اپنے مشرقی بنگال کے ہم منصب عزیز احمد کے ساتھ ڈھاکہ میں 10 فروری کو صبح 10 بجے کے قریب اقلیتوں پر مذاکرات کر رہے تھے جب خون آلود کپڑوں میں ملبوس ایک مسلمان خاتون سیکرٹریٹ کی عمارت میں لائی گئیں۔

اس اطلاع پر کہ کلکتہ میں اس کا ریپ ہوا سیکرٹریٹ کے ملازمین نے فوری طور پر ہڑتال کر دی اور ہندو مخالف نعرے لگاتے جلوس کی شکل میں نکل کھڑے ہوئے۔

سبھاسری گھوش کا کہنا ہے کہ ڈھاکا میں جمعہ 10 فروری سنہ 1950 کو نماز جمعہ کے بعد تشدد پھوٹ پڑا۔ 12 فروری کو ڈھاکا کے قریب کرمٹولا ہوائی اڈے پر ہندو مسافروں پر مسلح ہجوم نے حملہ کیا اور خواتین اور بچوں سمیت بڑی تعداد میں مسافر ہلاک یا شدید زخمی ہوئے۔ یہ سانحہ مسلح محافظوں کی موجودگی میں پیش آیا۔

’مشرقی بنگال کے دیگر حصوں سے بھی قتل عام کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ میمن سنگھ، کومیلا اور چٹاگانگ جانے والی ٹرینوں کو میگھنا دریا کے اینڈرسن پل پر روک دیا گیا۔ ہندوؤں کو مسافروں میں سے الگ کر کے مارا گیا اور ان کی لاشیں میگھنا میں پھینک دی گئیں۔‘

راج شاہی کے سنتاہر سٹیشن پر بھی ایسا ہی ایک دل خراش ڈراما رچایا گیا۔ ہندوؤں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد کی اطلاع سلہٹ، راجشاہی، باڑیسال، کھلنا، کومیلا اور نواکھلی سے موصول ہوئی۔

شاید سب سے زیادہ متاثر ضلع باڑیسال تھا۔ مسٹر (جوگندرناتھ ) منڈل کے اندازے کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 2,500 تک پہنچ گئی۔ مشرقی بنگال کے فسادات میں کل ہلاکتوں کا تخمینہ دس ہزار کے لگ بھگ لگایا گیا۔

مغربی بنگال فسادات میں آر ایس ایس اور مہا سبھا کا کردار

گھوش کے مطابق مغربی بنگال میں مہاسبھا اور آر ایس ایس کی مجرمانہ سرگرمیوں نے آگ بھڑکانے میں کوئی کم کردار ادا نہیں کیا۔

’حکومت کی خفیہ حمایت سے بعض اوقات فسادات کیے گئے۔ مقصد پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو امن مذاکرات کے لیے دلی آنے پر مجبور کرنا تھا۔‘

ہاوڑا میں مسلمانوں کی حالت زار سے متاثر ہو کر لیاقت خان نے 29 مارچ کو اعلان کیا کہ وہ امن مذاکرات کے لیے 2 اپریل کو دلی پہنچیں گے۔ اسی دن ہنگامہ آرائی رک گئی۔

گھوش کے مطابق کمیشن آف انکوائری کے سامنے سارا بھائی کا بیان اس کی تصدیق کرتا ہے کہ ’انٹر ڈومینین مذاکرات کے موقع پر گورنمنٹ کی پالیسی راتوں رات بدلی ہوئی لگ رہی تھی۔ ہر جگہ ضلعی افسران مسلمانوں کو پاکستان ہجرت پر اکسانے میں مصروف تھے۔‘

انھوں نے لکھا کہ ریاستی حکومت کا اولین مقصد مسلمانوں کو بے دخل کر کے ہندو تارکین وطن کی بحالی اور خوف کی نفسیات کو ہوا دینا تھا تاکہ ان کی واپسی کو ہمیشہ کے لیے روکا جا سکے۔

سنہ 1950 پاکستان اور انڈیا کے لیے ایک فیصلہ کن سال تھا۔ یوں لگتا تھا کہ تین سال پہلے ہی آزاد ہوئے ان دو ملکوں میں جنگ چھڑنے کو ہے۔ کشمیر تنازع پہلے ہی جنم لے چکا تھا۔ دو طرفہ تعاون کے کئی مسائل حل طلب تھے۔

1949 میں کرنسی کی قدر میں کمی کے بحران کے بعد تجارت رک چکی تھی اور اقتصادی تعلقات منقطع ہونے اور پاکستان انڈیا کشیدگی بڑھنے پر سال کے ابتدائی مہینوں میں ہی مشرقی پاکستان سے ہندو اور مغربی بنگال سے مسلمان سرحد عبور کر رہے تھے۔ 10 لاکھ افراد نے بنگال سرحد عبور کی اور مہاجرین کی یہ بڑی تعداد دونوں حکومتوں کے لیے اضافی بوجھ کا باعث بن گئی۔

ایسے گمبھیر حالات میں امید بڑھاتی اگر کوئی بات تھی تو یہ کہ بات چیت کے دروازے بند نہیں تھے۔

جنگ نہ کرنے کا مجوزہ معاہدہ کیوں نہیں ہو سکا؟

دو طرفہ تناؤ کے اس دور میں پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور ان کے انڈین ہم منصب جواہر لال نہرو کے درمیان جنگ نہ کرنے کے مجوزہ معاہدے پر دو سو سے زیادہ خطوط اور ٹیلی گراموں کا تبادلہ ہوا۔

دونوں رہنماؤں نے اپنی اپنی اسمبلیوں کو خطوط کے اس تبادلے پر پیشرفت سے آگاہ رکھا۔

نہرو نے جنگ مخالف ایک وسیع لفظی معاہدہ کی حمایت کی جبکہ لیاقت علی خان نے تنازع کشمیر کے حل کے لیے ایک واضح ٹائم ٹیبل اور تیسرے فریق کی مداخلت کی گنجائش چاہی۔

اس اختلاف کے باعث یہ معاہدہ نہیں ہو پایا تاہم نئی دہلی میں لیاقت علی خان اور جواہر لال نہرو نے اقلیتوں سے متعلق دلی معاہدہ، جسے لیاقت نہرو معاہدہ بھی کہا جاتا ہے، پر 8 اپریل 1950 کو دستخط کر دیے۔

لیاقت علی خان

لیاقت نہرو معاہدہ: اقلیتوں کے حقوق کے لیے سنجیدہ کوشش

محقق پلوی راگھون نے اپنی کتاب ’دشمنی ایک طرف: انڈیا پاکستان تعلقات کی متبادل تاریخ، 1947-1952‘ میں دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان تعلقات کے ابتدائی پانچ سال پر تحقیق کی ہے۔

بہت سے تنازعات پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے راگھون کی کتاب اسی دورمیں امن کے لیے لیاقت نہرو معاہدے جیسی کوششوں کا جائزہ لیتی ہے۔

کتاب میں بتایا گیا کہ ’تقسیم سے جنم لینے والے مسائل، جیسے مہاجر یا اقلیتی حقوق یا متروکہ جائیداد، کے حل کے لیے دونوں ممالک میں ایک بہت ہی عجیب قسم کی قربت اور ناقابل یقین حد تک سنجیدہ کوشش دیکھی گئی۔ جنوبی ایشیا میں اس قسم کی آمادگی حیران کن ہے۔‘

اس معاہدے میں طے پایا کہ اقلیتوں کو ان کے مذاہب سے قطع نظر شہریت کے یکساں حقوق حاصل رہیں گے۔

ان اقلیتوں کی جان، مال، جائیداد، ثقافت اور ذاتی وقار کی حفاظت و سلامتی کے ساتھ پورے ملک میں نقل و حرکت کی آزادی، روزگار کی آزادی، تحریر و تقریر کی آزادی، عبادت کی آزادی کی ضمانت دی جائے گی۔

یہ بھی طے پایا کہ اقلیتوں کو دونوں ممالک میں امور مملکت میں شمولیت کے مساوی مواقع فراہم ہوں گے، وہ سیاسی عہدہ سنبھال سکیں گے اور سول اور آرمڈ فورسز میں بھرتی ہو کر ملک کی خدمت کر سکیں گے۔

انڈیا کے وزیر اعظم نے اس طرف توجہ دلائی کہ انڈیا کے دستور میں اقلیتوں کے تحفظ کی یہ دفعات پہلے ہی سے شامل ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے بتایا کہ اسی طرح کی تجاویز پاکستانی دستور ساز اسمبلی کے لیے قرارداد مقاصد میں بھی منظور کی گئی ہیں۔

پاکستان اور انڈیا

پاکستان اور انڈیا کی اقلیتوں کے لیے نئی امید

معاہدے کے تحت دونوں حکومتیں اپنے اقلیتی شہریوں کے ساتھ سلوک کے لیے ایک دوسرے کو جوابدہ قرار پائیں۔ مہاجرین کو ان کی جائیداد کو ٹھکانے لگانے کے لیے بلا روک ٹوک واپس جانے کی اجازت دی گئی، اغوا ہونے والی خواتین اور لوٹی گئی املاک کو واپس کیا جانا تھا۔ مذہب کی جبری تبدیلی کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا اور اقلیتوں کے حقوق کی تصدیق کی گئی تھی۔ ان شرائط کو نافذ کرنے کے لیے اقلیتی کمیشن قائم کیے گئے۔

لکھاری سدھارتھ سنگھ کے مطابق یہ معاہدہ دونوں ممالک میں لاکھوں اقلیتی ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے سلامتی کی امید تھا۔

’معاہدے سے پہلے کے مہینوں میں، برصغیر میں دوسری ہجرت شروع ہو گئی تھی، جو کہ سنہ 1947 کے مقابلے میں کم پرتشدد نہیں تھی۔ جان، مال اور املاک کا نقصان ہوا۔‘

رچرڈ لمبارٹ نے ایک طویل مضمون میں لکھا کہ اس معاہدے نے دونوں طرف کی اقلیتوں کی امیدوں کو نئی زندگی دی۔

حقیقت میں اس معاہدے کے بعد دونوں ملکوں میں کچھ وقت کے لیے اعتماد بھی بحال ہوا تاہم انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق معاہدے کے بعد کے مہینوں میں 10 لاکھ سے زیادہ اضافی پناہ گزینوں نے مغربی بنگال کی طرف ہجرت کی۔

یہ بھی پڑھیے

جب انڈیا نے پنجاب کا 84 ہزار ایکڑ رقبہ پاکستان کے حوالے کر دیا

جواہر لال نہرو اور محمد علی جناح کے درمیان فاصلے کیوں بڑھتے گئے؟

انڈیا اور پاکستان میں اثاثہ جات کی تقسیم کا معاملہ اور گاندھی کا قتل

1947 کے وہ چار دن جن میں مسئلہ کشمیر پہلے پیچیدہ ہوا، پھر ناقابل حل

نہرو

معاہدے کی مخالفت

نہرو کے ساتھی اور انڈیا کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے ابتدا میں اس معاہدے کی مخالفت کی تھی۔

لکھاری روشینہ زہرہ کے مطابق شیاما پرساد مکھرجی نے بھی اس معاہدے کی مخالفت کی۔ جب وزیراعظم نے اس معاہدے کو آگے بڑھانے کا انتخاب کیا تو انھوں نے بالآخر نہرو کی کابینہ کے وزیر کے طور پر استعفا دے دیا۔

مکھرجی نے کابینہ چھوڑنے کے بعد سنہ 1951 میں بھارتیہ جن سنگھ کی بنیاد رکھی، جو بعد میں سنہ 1980 میں بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی بن گئی۔

پلوی راگھون لکھتی ہیں کہ ’نہرو اور لیاقت علی خان اکثر شکایت کرتے کہ ان کے بیانات کو پریس میں سنسنی خیزی کے لیے غلط طور پر شائع کیا جاتا ہے۔ سفارتی دشمنی اور سیاسی جھگڑے کو دونوں طرف کے اخبارات اور جرائد ہوا دیتے ہیں۔‘

فروری 1950 میں انڈیا اور پاکستان کی خارجہ امور کی وزارتوں نے ایک دوسرے ملک کے اخبارات کے بارے میں تقریباً ایک ہی جیسی شکایات کیں کہ وہ ’سرحد پار اقلیتوں کے بارے میں تصوارتی خبروں کے ذریعے اپنے ملکوں میں اقلیتوں کے خلاف ہیجان پیدا کر رہے ہیں۔‘

راگھون کے مطابق دونوں ممالک میں اقلیتوں کو جن مشکلات کا سامناتھا ان کی اخباری کوریج کا زیادہ تر حصہ حقیقت میں غلط نہیں تھا ’لیکن سرحد کے دونوں طرف اقلیتوں کے حالات کی تلخ حقیقتوں کی تصویر کشی کرنے اور ان معلومات کو استعمال کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان جنگی جنون برقرار رکھنے میں فرق تھا۔ حکومتوں کو ریلیف دینے اور بحالی میں مشکلات آ رہی تھیں کیوںکہ سیاستدان مخالفت میں ان کا غلط استعمال کرتے۔‘

پروپیگینڈا کے خلاف معاہدہ

اسی پس منظرمیں معاہدہ طے پایا کہ ’افواہیں اور غلط خبریں پھیلانے والے افراد اور اداروں کی سخت نگرانی کی جائے اور ان کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ اپنے ملک میں پڑوسی ملک کے خلاف جارحانہ پروپیگنڈا کی اجازت نہ دی جائے یا دونوں کے درمیان جنگ پر اکسانے یا ان کی جغرافیائی سلامتی کے خلاف پروپیگنڈا پر ایکشن لیا جائے۔‘

معاہدے کے نتیجے میں ماحول میں بہتری کے لیے ایک دوسرے کے ذرائع ابلاغ کی تصویر کشی میں کچھ دیرپا تبدیلیاں لانے کے لیے دونوں طرف سرگرمیاں بھی دیکھنے میں آئیں۔

لیاقت نہرو معاہدے نے دونوں حکومتوں کو اس قابل بھی بنایا کہ وہ ایک دوسرے کے نوٹس میں ’قابل اعتراض‘ فلمیں، ڈرامے اور کتابیں بھی لا سکیں۔

معاہدے میں ایک مشترکہ پریس کوڈ کے قیام کی شق بھی تھی جس کی پابندی دونوں ممالک کے سرکردہ صحافیوں اور مدیروں کو کرنا تھی۔

مشترکہ پریس کوڈ

مشترکہ پریس کوڈ کو جون سنہ 1950 میں آل انڈیا نیوز پیپر ایڈیٹرز کانفرنس اور پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کانفرنس نے اپنایا۔ ضابطے کے نفاذ کی نگرانی کانفرنس کے انڈین اور پاکستانی ارکان کو سونپی گئی جنھیں باقاعدگی سے ملاقات کرنا تھی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس کے مقاصد کی تکمیل ہو۔

سندھ آبزرور کے پیر علی محمد راشدی، امرتا بازار پتریکا سے ٹی کے گھوش اور ہندوستان ٹائمز کے درگا داس جیسے مدیران سبھی نے محسوس کیا کہ پاکستان اور انڈیا کے مسائل پر درجہ حرارت صرف ہم آہنگی ہی سے کم کیا جا سکتا تھا۔ معاہدہ صرف اس صورت میں کام کر سکتا تھا جب دونوں فریق اس پر عمل کریں۔

راگھون کہتی ہیں کہ سات دہائی پرانی اس دستاویز کی بہت سی شقیں آج بھی حیران کن طور پر متعلق لگتی ہیں۔

جیسے ’ایسے افراد یا تنظیموں کی شرارتی رائے کی ترویج سے انکار جو ممکنہ طور پر فرقہ وارانہ جذبات کو ابھاریں یا اقلیتی برادری میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کریں۔۔۔ ہر ملک کے پریس سے دوسرے کی علاقائی خود مختاری کے خلاف یا جنگ بھڑکانے کے ارادے کے تحت کسی رائے کو سختی سے خارج کرنے سے۔۔۔ ایسی معلومات نشر کرنے سے گریز کرنا جن سے سرحد پار اقلیتوں کے امن کو خطرہ ہو۔‘

محقق روہی نیوگ نے اپنے ایک تحقیقی مقالے ’انڈیا پاکستان بحرانوں میں میڈیا، پالیسی سازی اور عوامی رائے‘ کے لیے صحافی امیت باروا سے بات کی۔

’دی ہندو‘ اخبار کے پاکستان میں کئی سال نامہ نگار رہنے والے امیت باروا کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم دستاویز ہے جو تناؤ کو بھڑکانے کے لیے متعصب خبروں اور آرا کے استعمال اور معلومات کی تصدیق کے لیے طریقہ کار بنانے کا مشورہ دیتی ہے۔

روہی نیوگ کا کہنا ہے کہ اس دستاویز کو کبھی اہمیت حاصل نہیں رہی۔ انھوں نے تحقیق کے دوران جن صحافیوں سے بات کی ان میں سے زیادہ تر نے اس دستاویز کے بارے میں نہیں سنا تھا۔

پلوی راگھون کہتی ہیں کہ پچاس کی دہائی پر جوش تعاون کا دور تھا۔ ’اس نسل نے برصغیر کے بدترین صدمات کا مشاہدہ کیا تھا۔ اگر ان حالات میں انڈیا اور پاکستان کے پالیسی ساز اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ مسائل کا بہترین علاج تفصیلی بات چیت ہے تو آج بھی پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کی بھول بلیوں میں یہی بات رہنما ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments