عمران خان کی حکومت ابھی گرانا کیوں ضروری تھا؟


ہفتہ بھر کی پس پردہ کھینچا تانی، سودے بازی اور وعدے وعید کے بعد بالآخر شہباز شریف کی 37 رکنی کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے۔ مزید وزیر شامل کرنے کی نوید بھی دی گئی ہے تاکہ نام نہاد ’قومی حکومت‘ میں کوئی بھی حلیف اپنے قد کاٹھ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حصہ لینے سے محروم نہ رہ جائے۔ دوسری طرف عمران خان مسلسل یہ سوال کر رہے ہیں کہ انہیں کس جرم کی پاداش میں نکالا گیا ہے۔ ایسے میں یہ سوال بے حد اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے والی اپوزیشن یک بیک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت گرانے میں کیوں مستعد ہوئی تھی۔

شہباز شریف کی قیادت میں ملک میں جو حکومت قائم کی گئی ہے بظاہر اسے سیاسی افتراق کم کرنے اور سیاست میں فوج کا اثر و رسوخ محدود کرنے کی کوشش کہا جا رہا ہے۔ حکومت میں شامل اہم پارٹیوں مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے لیڈر اصرار کرتے رہے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ نے سیاسی معاملات سے کنارہ کش ہونے کی یقین دہانی کروائی تھی جس کے بعد تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اپوزیشن کی جو پارٹیاں سینیٹ کی ایک نشست اور ایک عہدے کے لئے ایک دوسرے سے دست و گریبان تھیں، وہ باہم شیر و شکر ہو گئیں اور چار سال تک تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ رہنے والی بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم پر انکشاف ہوا کہ اب حکومت میں رہنا ’قومی مفاد‘ میں بہتر نہیں ہو گا۔ اس لئے فوری طور سے عمران خان کا دامن چھوڑ کر اپوزیشن کی تیار کردہ نئی کشتی میں سوار ہونے کا وقت ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو گئی اور وہ اقتدار سے محروم ہو کر ویسی ہی دہائی دینے سڑکوں پر نکل پڑے جو پانچ برس قبل نواز شریف دیتے پھرے تھے۔ یعنی ’مجھے کیوں نکالا‘ ۔ اب اس نعرے نے ’میرا جرم کیا تھا‘ کا روپ دھار لیا ہے۔

فرق صرف اتنا ہے کہ نواز شریف کا ووٹر اور حامی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلنے اور اپنے لیڈر کے لئے کوئی غیر ضروری خطرہ مول لینے پر تیار نہیں تھا لیکن عمران خان نے اپنے نعروں و پروپیگنڈا کے زور پر اور اپنی شخصی مقبولیت کے بل پر عوام کی بڑی اکثریت کو احتجاج پر مائل کیا ہے۔ عمران خان کے جلسوں میں شریک ہونے والے لوگوں کی تعداد کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ حامی اسے لاکھوں پر مشتمل سونامی قرار دیتے ہیں لیکن مخالفین اسے چند ہزار مایوس لوگوں کا اجتماع کہہ کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ ایک بات واضح ہے کہ عمران خان کو پاکستانی عوام کے ایک بڑے طبقے کی حمایت حاصل ہے اور وہ کسی بھی پلیٹ فارم سے اس حمایت کا برملا اظہار کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ یہ بات بھی عمران خان کے حق میں جاتی ہے کہ ان کے حامیوں کی قابل ذکر تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے اور بیرون ملک پاکستانیوں میں بھی انہیں وسیع حمایت حاصل ہے۔

عمران خان تقریباً چار برس حکومت میں رہے۔ اس دوران وہ اپنے کسی سیاسی وعدے کو پورا نہیں کرسکے۔ پچاس لاکھ لوگوں کو گھر اور ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے کے وعدے ہوا ہو گئے۔ ڈالر کی اڑان اور افراط زر میں غیرمعمولی اضافہ کی وجہ سے ملک میں مہنگائی میں بے حد اضافہ ہوا، آمدنی کم تر اور اشیائے صرف تک رسائی مشکل تر ہو گئی۔ اس صورت حال نے ان کی مقبولیت کو متاثر کیا اور تحریک انصاف کے شدید حامی بھی دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ جون میں پیش ہونے والا بجٹ عوام کے مالی بوجھ میں مزید اضافہ کرے گا۔ عام شہریوں کے مالی حالات خراب ہونے کا براہ راست اثر عمران خان اور تحریک انصاف کی مقبولیت پر پڑتا۔

ان حالات میں تحریک عدم اعتماد کا ڈول ڈالا گیا اور آصف زرداری کی ہنر مندی اور مولانا فضل الرحمان کی کوششوں سے بالآخر قومی اسمبلی کی اکثریت کو عمران خان کے خلاف ووٹ دینے پر تیار کر لیا گیا۔ اب تحریک انصاف کے سوا سو کے لگ بھگ ارکان نے استعفیٰ دے دیا ہے تاہم ان کا مستقبل بدستور غیر واضح ہے۔ 342 کے ایوان میں 174 ووٹ لے کر شہباز شریف قائد ایوان منتخب ہوئے ہیں۔ یہ حمایت حاصل کرنے کے لئے انہیں جو سیاسی مفاہمت کرنا پڑی ہے، اس کی ایک جھلک نئی مرکزی کابینہ میں دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں مسلسل یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ کسی بھی وقت اس حکومت میں پھوٹ پڑے گی اور اتحاد کی ہنڈیا چوراہے کے بیچ پھوٹ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی سیاسی حالات پر غیر جانبداری سے طائرانہ نگاہ ڈالنے کے بعد یہ سوال زیادہ سنگین ہوجاتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد عمران خان کی سیاسی پوزیشن کو متاثر کرنے کے لئے لائی گئی تھی یا اس کا حقیقی مقصد ان کی کم ہوتی مقبولیت اور گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینا تھا۔

عمران خان کی معاشی ناکامیوں کی داستان طویل ہے۔ گو کہ ان کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہا ہے کہ انہوں نے معیشت کو درست راستے پر گامزن کر دیا تھا اور حکومت کے آخری سال میں اس کے نتائج بھی سامنے آنا شروع ہو جاتے۔ معاشی ماہرین عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے ان تجزیوں سے متفق نہیں تھے۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں اعتراف بھی کیا ہے کہ حکومت کی کوئی معاشی پالیسی نہیں تھی جس کی وجہ سے ناکامی کا سامنا رہا۔

اسی طرح عمران خان امریکہ ہی نہیں متعدد دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کی حساسیت کو سمجھنے سے قاصر رہے تھے۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر شدید مشکلات کا سامنا تھا اور اس کی جائز بات کی بھی مناسب عالمی فورمز پر شنوائی نہیں تھی۔ ان میں خاص طور سے فنانشل ایکشن فورس کی طرف سے پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں رکھنے کا معاملہ تھا حالانکہ حکومت نے قانون سازی اور متعدد اقدامات کے ذریعے ایف اے ٹی ایف کے بیشتر مطالبے پورے کیے تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالا گیا۔ اسی طرح بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، کشمیر میں غیر انسانی اقدامات اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصب کے بارے میں پاکستان کا موقف جائز اور درست رہا ہے لیکن اقوام متحدہ سمیت کسی بھی قابل ذکر ادارے یا ملک نے ان باتوں پر کان دھرنے یا بھارت کی گوشمالی کا قصد نہیں کیا۔ اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ اظہار یک جہتی دیکھنے میں آیا۔ یہ صورت حال بھی عمران خان کی ناکام خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

تحریک انصاف اگر اقتدار میں اپنی مدت پوری کرتی تو فطری طور سے اسے 2022 میں ہو نے والے انتخابات میں ان سب ناکامیوں کا حساب دینا پڑتا۔ سابقہ حکومت کے آخری ہفتوں میں اگرچہ ایک بار پھر کرپشن بیانیے کو زندہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اب لوگ الزامات کی اس فہرست کو تحریک انصاف کی حکومتی کارکردگی کے تناظر میں فراموش کرچکے تھے یا اس پر توجہ دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ آصف زرداری اور شہباز شریف کی سیاست کے نتیجہ میں عمران خان کی حکومت تو ختم ہو گئی ہے لیکن اس کی ناکامیوں کا ملبہ اب نئی اتحادی حکومت کی گود میں آن گرا ہے۔ عمران خان سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ انہوں نے چار برس میں ملک کو معاشی، سیاسی اور سفارتی لحاظ سے بحران کا شکار کیا تھا۔ ان کا ایک ہی نعرہ ان کے سب گناہ دھو دینے کے لئے کافی ثابت ہو رہا ہے کہ انہوں نے پاکستان کو عالمی سطح پر خود مختار ریاست کے طور متعارف کروانے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں امریکہ نے ان کی حکومت کے خلاف سازش کی اور بدعنوان اپوزیشن لیڈر امریکہ کے ایجنٹ بن کر ان کی حکومت گرانے کے درپے ہو گئے۔ اب وہ اپنے تئیں پاکستان کی آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں جسے چور اچکے سیاست دان باہمی ملی بھگت اور امریکہ کے تعاون سے داؤ پر لگا رہے ہیں۔

تحریک انصاف بالواسطہ طور سے سپریم کورٹ کے ججوں اور فوجی قیادت کو بھی اس ’عالمی سازش‘ کا حصہ بتا رہی ہے۔ عمران خان کے حامی یہ چورن بخوشی خرید رہے ہیں اور ملک کے آرمی چیف اور چیف جسٹس اپنے اپنے طور پر وضاحتیں دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کی کل سیاسی قیادت اس حد تک کم فہم اور سیاسی معاملات سے نابلد تھی کہ وہ اس رد عمل کا اندازہ نہیں کر سکی یا وہ کون سی مجبوری تھی کہ عمران خان پر نئے انتخابات کا دباؤ بڑھانے کی بجائے تحریک عدم اعتماد پر ہی اصرار کیا گیا؟

اب سابقہ حکومت کے اتحادی نئی حکومت کے حلیف ہیں اور مرضی کی وزارتوں کے لئے کھینچا تانی کر رہے ہیں۔ شہباز شریف سے کوئی جادوئی چھڑی ہلا کر ملکی معیشت کو درست کرنے کی توقع کی جا رہی ہے لیکن وہ خود یہ کہہ کر خود پر پڑنے والے بوجھ سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ معیشت کی حالت ان کے اندازے سے بھی زیادہ خراب ہے۔ لیکن یہ ایک اعتراف انہیں اس سیاسی مشکل سے نہیں نکال پائے گا جو انہوں نے جان بوجھ کر اپنے سر لی ہے۔ دریں حالات ایک ناکام حکومت کو سیاسی ذمہ داریوں سے بری کرنے کے اس اقدام کی کوئی عقلی دلیل نہیں دی جا سکتی۔ دو ماہ میں بجٹ آئے گا تو ان مشکلات اور موجودہ حکمران جماعتوں کی ناکامیوں کے مزید قصے سامنے آنے لگیں گے۔ لے دے کے ایک ہی قیاس، عذر یا اشارہ سننے میں آتا ہے کہ عمران خان مئی گزرنے کے بعد کوئی ایسا آرمی چیف ملک پر مسلط کر سکتے تھے جس کی سربراہی میں تحریک انصاف ہی کامیاب ہوتی۔ اس طرح ملک کا جمہوری سفر جمود کا شکار ہوجاتا اور ایک فاشسٹ نظام حکومت کی داغ بیل رکھی جاتی۔

اگر افواہ نما اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو ’سلیکٹڈ یا ہائبرڈ نظام‘ کے عنوان سے شروع کی گئی سیاسی جد و جہد کا جواز ختم ہوجاتا ہے۔ اس عذر سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ ملکی سیاست میں فوج ہی ہاتھی ہے جس کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہے۔ ایسے میں ووٹ کو عزت دو اور عوامی حکمرانی کے نعرے محض تفریح طبع کا سامان ہی فراہم کرتے ہیں۔ عمران خان ہی نہیں ملک کے سارے سیاست دان اپنے اپنے طور پر اس سچائی کو نہ صرف مانتے ہیں بلکہ اسے بدستور توانا کرنے میں بوقت ضرورت کردار ادا کرنے پر بھی بخوشی راضی ہو جاتے ہیں۔ شہباز شریف کی اتحادی حکومت اسی مجبوری یا سیاسی کج روی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ملک کی نئی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے آج میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے اور آزادی رائے کا احترام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ ملک کو غیر منتخب اداروں کے چنگل سے نجات دلانے کے دعوؤں اور وعدوں کا کیا بنا؟ یا سائبر کرائم اور اداروں کی شہرت کو نقصان پہنچانے والے عناصر کے خلاف اقدام کے نام پر نظام کہن جاری رہے گا۔ بس چہرے بدلتے رہیں گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments