بے حیائی کی حد


فاروق احمد نے تو بے حیائی کی حد ہی کردی تھی۔ جوان بیٹے، بہو اور بیٹیوں کے ہوتے ہوئے نکاح ثانی کی خواہش کا اظہار کر کے بڑھاپے میں اپنی اور خاندان کی عزت کا جنازہ ہی نکال دیا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ مرد کی عزت، لڑکی بالی کی طرح ململ کی چنری نہیں ہوتی کہ کانٹوں بھرے رواجوں سے تار تار ہو جائے، لیکن پھر بھی کچھ حدود و قیود کا خیال تو مردوں کو بھی رکھنا پڑتا ہے۔ سفید بالوں کی لاج رکھنا ہوتی ہے لیکن فاروق احمد نے تو ان پر سیاہی مل دی جب رفیع النساء کے کینسر سے مر نے کے بعد اس کا سوگ منائے رکھنے کے بجائے عصمت آرا سے شادی کی خواہش زبان پر لے آئے۔ محلے بھر میں چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔

عصمت آرا یونیورسٹی میں اردو کی استانی تھیں۔ چالیس کی ہو کر بھی اب تک باکرہ تھیں۔ ماں باپ کے انتقال کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کو پالنے پوسنے اور ان کے گھر بسانے میں یوں مشغول رہیں کہ اپنا گھر بسانے کا خیال نہ انہیں آیا نہ بہن بھائیوں نے یاد دلانے کی کوشش کی اور کیوں یاد دلاتے، بھلائے رکھنے میں ہی تو ان کا مفاد وابستہ تھا۔ اب جب سارے بہن بھائی اپنے گھر بار کے ہو کر اپنی اپنی نبیڑنے میں لگ گئے تو عصمت آرا تنہائی کے گہرے کنویں میں گرتی چلی گئیں۔

اندر اور باہر کی تپش انہیں سلگاتی وہ کرب سے کراہتیں مگر اس کنویں کے اندر ہی ان کی آواز چک پھیریاں کھاتی رہتی۔ منڈیر کے اوپر، ارد گرد ہنسی چہل کرنے والوں کو خبر ہی نہ ہو پاتی کہ وہ وہاں اس گہرائی میں، اس تنہائی سے مر چلی ہیں۔ رونق زیست میں گم ان کے عزیزوں کو اس کنویں میں جھانکنے کی فرصت تھی نہ ضرورت۔

فاروق احمد نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ یعنی گولڈن شیک ہینڈ لے لیا تھا۔ ان کی بیگم چھاتی کے سرطان کا شکار تھیں اور ان کو علاج کے ساتھ وقت اور توجہ کی ضرورت تھی۔ تاہم وہ اس موذی مرض کو شکست نہ دے سکیں اور چار سال کی محاذ آرائی کے بعد زندگی ہار بیٹھیں۔ کینسر کی تشخیص تاخیر سے ہوئی تھی۔ رگ و پے میں سرعت سے پھیلنے میں بہت کم عرصہ لگا ورنہ رفیع النساء کی بڑی آپا تو تشخیص اور سرجری کے بعد بارہ پندرہ برس جیتی رہی تھیں۔

آنکھ بند ہونے سے پہلے سارے بچوں کی خوشیاں دیکھ لی تھیں۔ موذی مرض نے جب کمر کی ہڈی میں جڑ پکڑی تو رفیع النساء چلنے پھرنے سے معذور ہو گئیں۔ موت کا آکٹوپس جسم و جاں کو کستا ہوا محسوس ہونے لگا تو وہ اپنے اکلوتے بیٹے حارث کی شادی کے لئے اتاؤلی ہو گئیں۔ حارث ابھی بائیسویں سن میں ہی لگا تھا کہ ماں کی سہرا دیکھنے اور اس کے بچے کھلانے کی آرزو نے اسے پہلے انیلا کا میاں اور پھر گڈو کا باوا بنا دیا۔ اس روز جب سب گڈو کی چھٹی کا جشن منا رہے تھے، ملک الموت نے رفیع النساء کا استخوانی پنجر دبوچ لیا اور فاروق احمد کو رنڈوا کر دیا۔

رفیع النساء کیا گئیں گویا فاروق احمد کی ساری مصروفیات ہی ختم ہو گئیں۔ نہ ہسپتال جانا، نہ دوا کھلانا، نہ ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کا مشغلہ، نہ آتے جاتے جوانی کے چٹکلوں سے انہیں ہنسانے کی کوشش کرنا یوں جیسے سارا شغل میلہ ہی ختم ہو گیا۔ زندگی کے اسٹیج پر رفیع النساء کا کردار کیا ختم ہوا، کھیل میں کچھ نہ رہا۔

ایک تو ریٹائرڈ آدمی یونہی بے کاری سے بولا جاتا ہے پھر جیون ساتھی بھی چلا جائے۔ یہی تو وہ وقت ہوتا ہے جب میاں بیوی کو آپس میں بات کرنے کی فرصت حاصل ہوتی ہے ورنہ جوانی تو زندگی کی بھاگ دوڑ میں یوں گزرتی ہے کہ ضروری کاموں کے سوا کوئی بات نہیں یو پاتی۔ جب روزگار کے جھنجھٹ سے آزاد ہو کر نشاط کے لمحے چننے کا سمے آیا تو رفیق حیات نے داغ مفارقت دے ڈالا۔ اب وہ تھے اور ان کی تنہائی۔ یادوں کی ادھیڑ بن کے سوا اب اور کیا شغل ہوتا پرانے خواب پھر سے دیکھتے اور پھر اون کے گولوں کی طرح لپیٹ کر پس آئینہ پھینک دیتے۔ کتابوں میں دل لگایا مگر کتابیں اپنی ہی کہتی ہیں ان کی کون سنے۔ حارث نوکری سے آتا تو سیدھا فاروق احمد کے کمرے میں ہی آتا۔

”کیسے ہیں آپ۔ بلڈ پریشر کی دوا کھائی۔ کمر کا درد کیسا ہے۔ اچھا آیوڈیکس نہیں ہے۔ چلیں کل آتے ہوئے لے آوں گا۔“

بس اتنی ہی گفتگو ہو پاتی۔ ایسا لگتا تھا ان کے درمیان موضوعات کا قحط پڑ گیا تھا۔ بات کرنے کو کوئی سرا ہی نہیں ملتا تھا۔ وہ حیران ہوتے کیا رفیع النساء جینریشن گیپ کو پاٹنے والا پل تھیں کہ ان کے جاتے ہی یہ خلیج ایک کھائی بن گئی تھی۔ بڑی بیٹی شازیہ دوسرے شہر میں بیاہی تھی اور گرمیوں کی چھٹیوں میں ہی آنا ہوتا۔ چھوٹی بیٹی نازیہ ایم فارمیسی کر رہی تھی۔ دن رات پڑھنے میں لگی رہتی۔ فاروق احمد کو لگتا اسے تو دن، تاریخ، وقت کا بھی ہوش نہ تھا۔

فاروق احمد دروازہ بجا کر نہ بلاتے تو شاید اسے کھانے کا بھی خیال نہ آتا۔ فاروق احمد کو بچوں سے گلہ نہ تھا وہ با ادب تھے مگر اپنے اپنے جھمیلوں سے فرصت نہ تھی، گلہ تو انہیں رفیع النساء سے تھا جو ساتھ مرنے جینے کا وعدہ کر کے نبھا نہ پائیں۔ ساتھ جی نہ سکیں اور قبر میں بھی تنہا جا سوئیں۔ اب وہ کیسے جئیں، کس کو دل کا درد سنائیں، کہاں جی لگائیں۔ انہیں بات کرنے والا چاہیے تھا۔ ہم نشیں، ہمدم، ہمنوا کی ضرورت تھی۔

کوئی دوست ان کی طرح تنہا اور بے کار نہ تھا۔ خود کو مصروف رکھنے کے لئے وہ نازیہ کو یونیورسٹی چھوڑنے اور لینے جاتے تھے۔ یونیورسٹی کے فنکشن میں ان کی ملاقات عصمت آرا سے ہوئی تھی۔ عصمت آرا ایک پر وقار، خوش اسلوب اور پرکشش خاتون تھیں۔ گفتگو میں شائستگی، لب و لہجہ نستعلیق اور شخصیت میں سجیلا پن۔ بات کرتیں تو سامع کی پوری توجہ حاصل کر لیتیں۔ تنہائی کا خلا تھا یا عصمت آرا کی شخصیت کا طلسم، فاروق احمد پیری میں پیار کر بیٹھے۔

عصمت آرا ان کے دل کے سنگھاسن پر براجمان ہو گئیں اور وہ نوعمری کے سے عشق کی آگ میں جلنے لگے۔ یوں بھی مرد کی لئے کہا جاتا ہے ساٹھا تو پاٹھا۔ رفیع النساء کی بیماری اور وفات کے بعد ان کے اندر پڑی زنگ آلود مردانگی کو عصمت آرا کی دیدہ وری نے ایک بار پھر صیقل کر دیا تھا۔ دل و جان جل اٹھے تھے اور انہوں نے بھی اسے بھڑ بھڑ جلنے دیا تھا کیونکہ انہیں خبر ہو چلی تھی کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ بات اب نازیہ کو پک اینڈ ڈراپ دیتے ہوئے دور دور سے آسودہ نظری سے آگے بڑھ گئی تھی۔

اور دونوں آہوئے ویرانہ تنہائی شام کی شفق میں بھی ملنے لگے تھے۔ عصمت آرا نوخیز دوشیزہ نہیں تھیں کہ یوں کوچہ عشق مین عزت و وقار کو داؤ پر لگا دیتیں اس لئے انہوں نے حیائے ناکتخدا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فاروق احمد سے عقد زوجیت کی درخواست کر ڈالی۔ دل تو فاروق احمد کا بھی مچلتا تھا کہ عصمت آرا کی ہمراہی شام کے پہر کی بجائے چاروں پہر کی ہو جائے۔ لیکن یہ مرحلہ کیونکر طے ہو کیسے منہ سے پھوٹیں کہ دل پھر کھیلن کو مانگے چاند۔

انہیں اندازہ نہیں تھا کہ پدر سری معاشرے میں مرد بھی مجبور ہو سکتا ہے۔ سماج کے قاعدے قانون مرد کی زبان کو بھی مقفل کر سکتے ہیں۔ اس سماج میں جوان بچوں کے تنہا رہ جانے والے ماں یا باپ کو شادی کرنے کی اجازت نہیں۔ ایسی خواہش کا اظہار عزت کے اونچے مینار سے یکایک قعر مذلت میں پھینک سکتا ہے۔ عقل فاروق احمد کو اس پر خطر وادی سے لوٹ آنے کو کہتی اور عشق آتش نمرود میں کود پڑنے کو اکساتا۔ بالآخر عقل کو محو تماشائے لب بام کیا اور دل کی بات زبان پر لے ائے۔ چھوٹی بہن سجیلہ سے نکاح ثانی کے لئے راہ ہموار کرنے کی درخواست کی۔ سجیلہ نے جب پوچھا کہ آخر اس عمر میں دوسرا بیاہ کرنے کی کیا ضرورت پیش آ گئی تو بدحواسی میں بس اتنا ہی کہہ سکے

”کمر میں درد ہو تو آیوڈیکس لگانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ حارث گھر پر نہیں رہتا اور بہو بیٹی سے کہتے ہوئے اچھا نہیں لگتا۔“

اور کیا کہتے، کیسے کہتے، کچھ جو سمجھا ان کے درد کو تو رضوان سمجھا۔ سجیلہ کا میاں رضوان گو کہ ان کا سب سے چھوٹا بہنوئی تھا لیکن دانا، معاملہ فہم اور روشن خیال تھا۔ بچوں سے بات اسی نے کی۔ بیٹیاں تو صرف دانتوں میں انگلیاں داب کر رہ گئیں لیکن حارث تو ہتھے سے اکھڑ گیا۔ اور رضوان کو وہ بے نقط سنائیں کہ توبہ بھلی۔

”اپ کیا فضول بات کر رہے ہیں انہیں اس عمر میں کسی تعلق پالنے کی ضرورت کیا ہے“

”ساتھی کی ضرورت اسی عمر میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی شادی کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو اس مین برائی کیا ہے۔ نکاح ثانی کوئی گناہ نہیں۔ گناہ یہ ہو گا کہ وہ بغیر رشتے کے کسی خاتون سے تعلق رکھیں۔ وہ کسی کم عمر چھیل چھبیلی نار سے عیاشی کی خاطر شادی نہیں کرنا چاہتے ہیں بلکہ ایک میچور تعلیم یافتہ خاتون کو اپنی ساتھی بنانا چاہتے ہیں۔“

”وہ عورت میری ماں کی جگہ لے گی :
”کوئی کسی کی جگہ نہیں لیتا اپنی جگہ بناتا ہے“ ۔
”اب ابو بہو بیٹیوں کے سامنے نئی بیوی سے اٹکھیلیاں کریں گے“ حارٹ اب جارحانہ نہیں دفاعی رخ پر تھا۔
وہ نیچے والا کرائے پر دیا گیا پورشن خالی کروا کے وہاں شفٹ ہوجائیں گے۔ ”

”کر لیں وہ شادی۔ میں باہر سے نیا زینہ بناتا ہوں۔ ہمارا ان سے اور ان کی نئی فیملی سے کوئی ناتہ نہ ہو گا“

فاروق احمد بچوں سے ناتہ توڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے رضوان کو معاملہ ختم کرنے کا کہہ دیا۔ لیکن رضوان نے کہا ”فاروق بھائی، ناخنوں سے گوشت جدا نہیں ہوتا۔ کچھ دنوں میں سب ٹھیک ہو جائے گا“

سجیلہ اور رضوان ہی رشتہ لے کر عصمت آرا کے ہاں گئے۔ جس معاشرے میں مرد کو اتنے کانٹے چننے پڑے ہوں وہاں ایک عورت کی منزل کی راہیں کیونکر پھولوں سے سجی ہو سکتی تھیں۔ اگرچہ وہ کنواری تھیں اور شادی کرنا ان کا حق تھا لیکن جانے اس سماج کو کیوں منظور نہ تھا۔ ازدواجی خوشیوں نے ان کے در پر دستک دینے میں بہت دیر کردی تھی مگر کیا اسے اب بھی قبول کرنے کا اختیار نہ تھا۔ کیا شریعت نے پلکوں پر خواب سجانے کے لئے مہ و سال کی کوئی بندش رکھی ہے؟

تو پھر معاشرہ کیوں من مانے قواعد بنائے بیٹھا ہے۔ اگر عورت تن من پر پہرے بٹھائے رکھے تو عزت کا تاج سر پر رکھیں گے ورنہ طعن و تشنیع کی پھنکاروں سے اسے اتار پھینکیں گے۔ بہنوئی نے تو یہاں تک کہ دیا کہ کہ اس عمر میں شادی کرنا پاپ ہے۔ یہ عمر اللہ اللہ کرنے کی ہے یا ہاتھوں میں مہندی رچانے کی۔ حالانکہ ابھی انہیں اکتالیسواں سن ہی لگا تھا۔ ترقی یافتہ معاشرے میں اسے عین جوانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اپنوں کی لپ لپاتی زبانیں عصمت آرا کو ڈسنے لگیں تو انہوں نے گھبرا کر فاروق احمد کو انکار کر دیا۔ جہاں اتنی گزری ہے وہاں اور گزر جائے گی۔ سجیلہ اور رضوان اس مورچے پر بھی ڈٹے رہے۔ انہوں نے عصمت آرا کو یقین دلایا کہ شادی کر کے وہ کسی جرم یا گناہ کا ارتکاب نہیں کریں گی بلکہ قانون اور شرع کی طرف سے ودیعت کیا گیا حق استعمال کریں گی۔

سجیلہ نے ان کی بھاوجوں کو سمجھایا کہ بڑی نند کے اپنے گھر کی ہو جانے میں انہی کا فائدہ ہے۔ بڑی نند کے عمل دخل کے بنا زندگی میں زیادہ آزادی حاصل کرنے کا سنہری موقع گنوانا عقل مندی نہیں۔ بھائیوں کو رضوان نے یہ کہہ کر شیشے میں اتارا کہ فاروق احمد جہیز کے بغیر شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری دو سوٹ کیسوں میں رخصت کرنے میں بھلا کیا نقصان ہے۔

اور یوں بالآخر عصمت آرا بیاہ کر نیچے والے پورشن میں آ گئیں حارث نے اس دوران میں علیحدہ زینہ بنوا لیا تھا۔

===============================

سال بھی نہ گزرا تھا کہ محلے بھر میں پھر چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ فاروق احمد نے تو بے حیائی کی حد کردی۔ یعنی کوئی شرم کوئی حیا ہوتی ہے۔ ذرا جو لاج آتی ہو انہیں ہر شام پرام میں نیا ایڈیشن لئے چہل قدمی کو نکل آتے ہیں۔ توبہ توبہ قیامت کے آثار ہیں بس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments