بیانیہ اور اندھی تقلید



بیانیہ بنیادی طور پر تو واقعات کی ترتیب کو کہتے ہیں لیکن سیاست میں بیانیہ سے مراد کسی سیاسی جماعت کا کسی خاص موضوع پر کوئی خاص موقف ہے جو کسی خاص وقت تک ہی قابل عمل ہوتا ہے۔

بیانیہ ہمیشہ ہی عملی جدوجہد سے زیادہ خطرناک اور موثر ہوتا ہے۔ بیانیہ ایسی اقوام میں زیادہ بکتا ہے جہاں عمل کی بجائے جذباتیت زیادہ پائی جائے۔ جہاں نعروں سے کسی کی شخصیت کا مکمل ادراک حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، جہاں تحقیق کا رواج نہ پایا جاتا ہو۔ پاکستانی عوام اس معاملے میں ید طولیٰ رکھتی ہے۔ پاکستانی سیاسی تاریخ میں بیانیے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ بھٹو کے دور میں سماجی مساوات والا بیانیہ ہو یا ضیاء الحق میں اسلامی نظام اور شریعت نافذ کرنے والا، بھٹو کے دور میں امیروں سے جائیداد ہتھیا کے رابن ہڈ بننے کے واقعات ہوں یا ضیاء الحق کے دور میں جہاد کی گونج، ان سب نے مل کر پاکستان کو ذہنی اور معاشی دونوں سطح پر یرغمال بنائے رکھا اور آخر میں نتیجہ وہی نکلا جو بناء کسی منصوبہ بندی سے ہونے والی جدوجہد کا ہوتا ہے، صرف اور صرف قربانیاں اور ان پر پچھتاوا۔

پاکستان میں ہمیشہ بیانیہ ان کا مشہور ہوا جو اچھی اداکاری کر سکتے تھے، جو سیاست کی روح کو سمجھ کر عوام کے جذبات سے کھیلنا جانتے تھے۔ جنہوں نے اپنی عملی زندگی میں اچھی خدمات تو دی تھیں لیکن انتظامی طور پر وہ سوائے نعروں کے اور کوئی قابل ذکر کام کرنے سے قاصر تھے۔ عمران خان کی جب سیاست کا ذکر کرتے ہیں تو اس میں یہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ عمران خان ایک مضبوط شخصیت کے حامل ہیں، انہوں نے پاکستان کی خدمت بھی کی، پاکستان کے لیے فخر کا باعث بھی بنے اور نوجوان نسل میں مشہور بھی ہوئے۔

جب انہوں نے عملی سیاست میں قدم رکھا تو ان کی پیٹھ پر کئی ایسے عادی مجرم بھی سوار ہو گئے جو ان کے بیانیے کی ضد تھے۔ لیکن عمران خان اپنی چرب زبانی سے اپنے حامیوں کو اس بات پر راضی کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ با امر مجبوری یہ سب کر رہے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہی ایسے بچھوؤں کو اپنے کندھے سے اتار پھینکیں گے۔ عوام نے انہیں مینڈیٹ دیا لیکن انہوں نے اپنے مشہور ”چور، کرپٹ اور نا اہل نامنظور“ والے بیانیے کو پس پردہ ڈال دیا۔

اپنے ساتھیوں پر الزامات کے ثابت ہونے کے باوجود بھی ان کو کسی قسم کی سزا نہ دی۔ حتیٰ کہ میاں محمد نواز شریف کو بھی اپنی رضامندی سے باہر جانے کا موقع دے دیا۔ اس عمل میں منشاء صرف اتنی سی تھی کہ جو اقتدار کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے اسے کچھ نہ کہا جائے۔ جب انہیں وزیراعظم کے عہدے سے عدم اعتماد لا کر ہٹا دیا گیا تو انہی پر کرپشن کے کیسز اور ممنوعہ فنڈنگ کے کیسز شروع ہو گئے اور ان کا یہ بیانیہ تو انہی کے خلاف استعمال ہونے لگا۔

جب اس بیانیے کی مدت ختم ہوئی اور پرانا ہو گیا تو عمران خان نے ”غدار“ اور ”امپورٹڈ حکومت نا منظور“ والا بیانیہ بیچنا شروع کر دیا۔ اپنے تمام حامیوں میں سازش کا ایسا چورن فروخت کر دیا کہ سب سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کر دیا گیا۔ پاکستان میں ہر جگہ اور ہر چیز میں سازش نظر آنے لگی۔ نہ جانے یہ بیانیہ کب تک رہے لیکن یہ بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ یہی بیانیہ ایک بار ان پر بھی استعمال کیا جائے گا۔ پاکستانی عوام میں صرف دو ہی تصورات ہیں

Absolute Hero
یا Absolute villain

اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں۔ یہاں جو کسی پارٹی کے ہر سیاہ کام کو بھی سفید کہے گا تو وہ محب وطن اور مومن ہو گا باقی سب جو بھی ان نظریات کے خلاف ہوں گے وہ غدار، ناسمجھ اور بھٹکے ہوئے شمار ہوں گے۔ لوگوں کے اندر اس طرح عدم برداشت انڈیل دی جائے کہ وہ ایک دوسرے سے نہ صرف قطع رحمی کر لیں بلکہ ایک دوسرے کو مار بھی ڈالیں اور ایسا ایک کیس سامنے بھی آ چکا ہے۔ عوام میں عدم برداشت کی یہ سطح پیدا کر کے سیاست دانوں کی فہم کا یہ عالم ہے کہ اکثر تو اسمبلیوں میں ایک دوسرے کے بازو توڑنے میں مصروف ہیں اور ایک دوسرا سمجھ دار طبقہ ہے جو سیاست کی چالوں کو خوب سمجھتا ہے۔

ایسا طبقہ صرف لوگوں کو چورن بیچتا ہے اور خود خاموش تماشائی بن کر ان کا تماشا دیکھتا ہے۔ اگر انہیں کہا جائے کہ سارے ملک میں ”امریکہ مردہ باد“ اور ”امریکہ کا جو یار ہے، غدار ہے، غدار ہے“ کا نعرہ لگوانے کے بعد آپ بھی ان کا نعرہ لگائیں تو انہیں تعلقات یاد آ جاتے ہیں۔ اگر امریکہ سے اتنے ہی اہم ہیں ہمارے تعلقات تو پھر ہمیں کیوں ان کے خلاف سازشی، مکار اور چال باز کی گردانیں سکھائی جاتی ہیں۔ ہمارے اندر کیوں تقسیم پیدا کی جا رہی ہے۔

پاکستانی عوام کو تو سیاسی پارٹیوں کی بنیاد پر تقسیم کر دیا گیا ہے لیکن خود عمران اسماعیل مفتاح اسماعیل کو، اسد عمر محمد زبیر کو، دوست محمد مزاری ریاض مزاری کو، پرویز الہی راجہ ریاض کو اور ایسی درجنوں مثالیں ہیں جن میں سے ایک ہی خاندان کے کچھ افراد غداروں کی پارٹی سے اور کچھ محب وطن پاکستانیوں کی پارٹی سے پیسہ لے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام کو یہ کئی روپ والے قاتل پکڑنا ہوں گے جو ہماری روزی روٹی تو بند کر ہی چکے ہیں، ہمیں معاشی دیوالیہ کا شکار تو کر ہی چکے ہیں، اب ہمارے ذہنوں کو بھی مکمل طور پر جکڑنا چاہتے ہیں۔

ایسے رانگ نمبروں سے ہمیں محتاط رہنا ہو گا اور تب ہی بقاء کی اس جنگ میں ہم جیت پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments