پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی اور موجودہ انتخابی حکمت عملی


تحریک انصاف نے انتخابی مہم میں جو اعلانات اور وعدے کیے ان میں احتساب، بدعنوانی کا خاتمہ، ادارہ جاتی و انتخابی اصلاحات اور معیشت کی بحالی کو مرکزی حیثیت دی جبکہ عوام کی دلچسپی کے لیے کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، صحت کی بہتر اور مفت سہولیات، یونیورسٹیوں کا قیام، آئی ٹی کا فروغ، فوری انصاف، شجرکاری اور ڈیموں کی تعمیر جیسے اقدامات کو اپنے منشور کا حصہ بنایا۔ حکومت سنبھالنے کے بعد ان سب باتوں پر عمل کے لیے شروع شروع میں یومیہ بنیاد پر کابینہ کے اجلاس طلب کیے جن میں طے کیے گئے نکات پر شروع میں کم و بیش عمل بھی ہوا۔

پی ٹی آئی کے پونے چار سالا دور اقتدار کا اگر طائرانہ جائزہ لیا جائے تو احتساب کے معاملہ میں قابل ذکر ٹھوس نتائج سامنے نہیں آئے بلکہ اس معاملہ میں حکومتی اہل کاروں اور حزب اختلاف میں واضح تفریق نظر آئی، مجموعی تاثر بظاہر یہی رہا جیسے احتساب کے نام پر انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے۔ بدعنوانی کے خاتمہ کے معاملہ میں ابتداء میں بہت سختی دیکھنے میں آئی کہ افسران جائز کام میں بھی نیب کے خوف سے لیت و لعل سے کام لیتے نظر آئے جس نے انتظامیہ کے پہیے کو سست کر دیا لیکن پہلے سال کے اختتام تک معاملات نہ صرف معمول پر آ گئے بلکہ بدعنوانی کا بازار بھی دوبارہ گرم ہونے لگا۔

ادارہ جاتی اصلاحات میں اتنی ہی بہتری اب تک ہوئی کہ ادارے آٹومیٹڈ ہونے لگے اور آن لائن خدمات کی فراہمی ممکن ہو سکی تاہم انتظامی ڈھانچہ اور کام کے طریقہ کار میں تبدیلی نہ ہونے لی وجہ سے ان اقدامات کے ثمرات ظاہر نہ ہوئے جبکہ انتخابی اصلاحات میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا اور ووٹنگ کے روایتی طریقہ کی جگہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین یعنی ای وی ایم متعارف کی گئی لیکن اس کا استعمال تاحال ممکن نہ ہوسکا جبکہ اسے سابقہ جذب اختلاف نے بوجہ متنازعہ بھی بنا دیا۔

معیشت کی بحالی کی بات کریں تو پچھلی حکومت میں بلا ضرورت ہوشربا بڑھتی درآمدات اور اس کے نتیجہ میں بڑھتا تجارتی خسارہ یعنی کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ، ڈالر کی بڑھتی طلب اور اس کے نتیجہ میں بڑھتا افراط زر، بڑھتے گردشی قرضے اور اس کے نتیجہ میں بڑھتا سود کا بوجھ یعنی کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جو قابو میں ہوتی ہوئی نظر آئے۔ سونے پہ سہاگہ کہ منصوبہ بندی اور انتظامی لحاظ عمران خان اور ان کے کھلاڑی جس بظاہر تہی دامنی کا شکار رہے وہ ایک الگ داستان غم ہے۔ رہی سہی کسر کووڈ نے پوری کردی تاہم کووڈ سے نبردآزما ہونے کے لیے جو کچھ کیا گیا وہ اگرچہ بہت زیادہ لائق تحسین نہیں تو کم از کم کسی حد تک تسلی بخش ضرور رہا۔qw6t6

معاشی میدان میں دیکھا جائے تو پہلے دو سال تجارتی خسارے کو ہر نئی حکومت کی طرح ادھار زر اور مال لے کر مصنوعی طریقوں سے قابو کیا گیا۔ دیگر کے مقابلہ میں گزشتہ حکومت نے زیادہ ادھار لے کر ایک آدھ ماہ کے لیے اسے اضافی بھی کیا لیکن جیسے ہی ڈالر کی غیر تجارتی رسد رکی تو بڑھتی طلب تجارتی خسارے میں دوبارہ اضافے کا سبب بننے لگی جبکہ افراط زر کی اضافی مصیبت بھی نتیجۃ در آئی جس نے مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا۔

ان سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ مہنگائی کی شرح جو اصل % 7 تک تھی ضارب اثرات کی وجہ سے % 16 فیصد تک جا پہنچی جسے حکومت نے % 12 ظاہر کر کے میڈیاء اور عوام کا غصہ کم کرنے کی بالکل ویسی ہی کوشش کی جس طرح پیداوار کی شرح نمو جو دراصل % 4 سے کچھ اوپر تھی اسے % 5.6 بتا کر عوام کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ ستم بالائے ستم % 2.5 شرح سود بڑھا کر افراط زر اور ڈالر کی بڑھتی قیمت کو جو غیر معمولی رفتار سے بڑھ رہے تھے وقتی طور پر روکنے اور کسی حد تک کم کرنے کا وہی پرانا طریقہ اپنایا جو دوسری طرف سرمایہ کاری اور پیداوار بڑھانے کے لیے سم قاتل ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ قرضوں کا حجم مجموعی قومی پیداوار کے % 80 کو چھو رہا ہے جو ملک کے حقیقی دیوالیہ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ 21۔ 2020 میں شرح سود میں مسلسل کمی نے سرمایہ کاری کو فروغ دیا جو اس سال کسی حد تک حوصلہ افزاء رہی جس میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری ایف ڈی آئی قابل ذکر حد تک ہوئی جس میں گاڑیوں کی صنعت سب سے نمایاں رہی جس کے بعد موبائل فون کی صنعت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔

مذکورہ قومی امور کے علاوہ نچلی سطح کے عوام سے کیے گئے وعدوں کا حال یہ رہا کہ براہ راست کروڑ نوکریاں تو پیدا نہ ہوئیں مگر سرمایہ کاری کی بدولت بڑی تعداد میں نوکریاں پیداء ضرور ہوئیں۔ اپنا گھر اسکیم کے تحت عوام کی قابل ذکر تعداد کم شرح سود کے قرض کی بدولت گھر کی مالک بنی۔ صحت کے میدان میں صحت کارڈ کا اجرا اہم پیش رفت ثابت ہوا۔ نئی یونیورسٹیاں بھی وجود میں آئیں جبکہ صدر پاکستان کی دلچسپی سے پی آئی اے آئی سی کے تحت آئی ٹی کے میدان میں جدید کورسز کا آغاز ہوا جبکہ کامیاب جوان پروگرام کے تحت مختلف سرکاری و نجی فنی تعلیمی اداروں میں مفت جدید کمپیوٹر کورسز کے انعقاد کا آغاز ہوا۔

فوری انصاف کے معاملہ میں گزشتہ حکومت کی کارکردگی نمایاں نہیں جس کی وجہ نظام انصاف میں واضح بہتری نہ لانا تھی۔ ابتداء میں گشتی عدالتی نظام کا آغاز ہوا جو معمولی نوعیت کے مقدمات قریہ قریہ جا کر فوری سماعت اور فوری فیصلوں سے نمٹانے لگیں مگر یہ کاوش محض علامتی اور سیاسی حربہ ثابت ہوئی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ شجر کاری میں بھی حقیقی طور پر خاطر خواہ پیش رفت نظر نہ آئی حالانکہ بڑے پیمانے پر شجرکاری کی گئی مگر مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ کوشش زیادہ بارآور نہ رہی۔ نئے ڈیموں کے قیام میں سوائے دیامر بھاشا ڈیم پر کام شروع کرنے اور داسو ڈیم کے افتتاح کے مزید کچھ نہ ہوا، البتہ پہاڑی علاقوں میں چشموں پر محدود پیداواری صلاحیت کے منصوبے لگائے گئے جنہیں ”ڈیم“ کا نام دیا گیا۔

دیکھا جائے تو مجموعی طور پر پی ٹی آئی حکومت بین کردہ جس زبردست اور غیر معمولی پروگرام کو لے کر آئی تھی اس میں کامیابی کا تناسب % 25 سے بھی کم رہا رہی سہی کسر کمر توڑ مہنگائی نے پوری کردی۔ ان حالات میں پی ٹی آئی کے پاس اسلاموفوبیا اور چند مذہبی اقدامات کے علاوہ عوام سے ووٹ مانگنے کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں تھی اس لیے عمران خان نے ایک نئی سیاسی چال چلنے کا فیصلہ کیا یا انہیں کسی نے ایسا کرنے کا مشورہ دیا جس کے تحت اپنی حکومت گروا کر سیاسی شہید بننے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔

اس کام کے لیے وہ بیانیہ اپنایا گیا جس سے اسٹبلشمنٹ ناخوش ہو تاکہ اس کے کارندے ساتھ چھوڑ دیں اور حکومت خارجی عوامل سے ختم ہو جائے اور یوں عوام کو یہ تاثر ملے کہ سازش ہوئی ہے جس سے بھرپور ہمدردی حاصل کی جا سکے۔ ایسا نہیں کہ مخالف سیاسی جماعتوں اور غیر سیاسی عوامل نے سازش کی ہی نہیں، سازش بالکل ہوئی کیونکہ سازش کرنے والے ہر وقت موقع کی تاک میں رہتے ہیں لیکن سازش از خود نہیں ہوئی بلکہ دانستہ ہونے دی گئی ہے۔

عمران خان نے مخالف سیاسی اور غیر غیرسیاسی عوامل کو بھرپور موقع دیا تاکہ حالات ان کے لیے توقع کے عین مطابق موافق ہوجائیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہ عمران خان نے اپنی بساط خود الٹی تاکہ وہ شدید سیاسی نقصان سے بچ سکیں، جس کا فوری اثر یہ ہوا کہ عوام کے ان حلقوں میں بھی عمران خان کے لیے نرم گوشہ پیداء ہوا جو تھے تو عمران خان کے ہی سپورٹر مگر مجموعی کارکردگی پر نالاں اور مایوس تھے جبکہ دیگر جماعتوں کے وہ مایوس سپورٹر جو اپنی اپنی جماعت کی دہائیوں سے اختیار کی گئی بے ثمر روش سے نالاں تھے ان میں بھی عمران خان کے لیے ہمدردی اور دلچسپی پیداء ہوئی۔

دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنی بچھائی بساط میں کامیاب ہو سکیں گے؟ اس کا صحیح جواب تو وقت ہی دے گا لیکن عمران خان بظاہر جہاں دو تہائی نہیں تو سادہ اکثریت حاصل کرنے کے قریب ہیں وہیں انہیں ناکام بنانے کی بھی پوری کوشش کی جائے گی۔ عمران خان اپنی موجودہ بڑھتی عوامی حمایت اور اسٹریٹ پاور کی بدولت بہت زیادہ بے باک انداز اور کھلے الفاظ کا بالکل اسی لہجہ میں استعمال کر رہے ہیں جیسا بھٹو نے اور اپنے آخری دور میں نواز شریف نے کیا، جس کا عمران خان ہٹائے جانے کی صورت میں پہلے ہی عندیہ بھی دے چکے تھے۔

یہ طریقہ واردات بھٹو اور نواز شریف کے برعکس عمران کے غیر سیاسی مخالفین کو جس طرح دفاعی پوزیشن میں لے آیا ہے اگر وہ حقیقی ہے تو اس سے توقع ہے کہ وہ عمران خان کو روایتی مشکل حالات کا باآسانی شکار نہیں کر پائیں گے اور اگر یہ سب کسی نئی منصوبہ بندی کے تحت دانستہ طور پر کیا جا رہا ہے تو عمران خان کی اگلے انتخابات میں فتح یقینی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments